Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Waqar Azeem/
  4. Pakistan Mein Siasat Ke Naam Pe Dushmani

Pakistan Mein Siasat Ke Naam Pe Dushmani

پاکستان میں سیاست کے نام پہ دشمنی

حالیہ دنوں میں پاکستان کا سیاسی منظر نامہ سیاسی جماعتوں کے درمیان دشمنی اور عداوت کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں ملک کی بہتری کا سوچنے کی بجائے ایک دوسرے کی مخالفت پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ دشمنی نہ صرف جمہوریت کے فروغ میں رکاوٹ بن رہی ہے بلکہ ملک کے معاشی استحکام کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے۔

پاکستان کی معیشت پہلے ہی متعدد چیلنجوں سے نبرد آزما ہے، جن میں قرضوں کا بھاری بوجھ اور بلند افراط زر شامل ہیں۔ اس منظر نامے میں جاری سیاسی دشمنی پاکستان کے ڈیفالٹ کا باعث بن سکتی ہے جس کے ملک کے مستقبل کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو کئی سالوں سے سیاسی عدم استحکام اور کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اکثر اپنے مفادات کو ان لوگوں پر ترجیح دیتی ہیں جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، جس سے مفاد پرستی اور بدعنوانی کا کلچر جنم لیتا ہے۔

پاکستان میں مفادات کی سیاست کا پتہ ملکی تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے بانیوں، محمد علی جناحؒ اور علامہ اقبالؒ نے ایک جمہوری اور ترقی پسند ریاست کا تصور کیا تھا جو اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کو ترجیح دے گی۔ تاہم سیاسی عدم استحکام، معاشی چیلنجز اور بیرونی دباؤ نے ملک میں مستحکم جمہوری نظام کی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔

پاکستان میں سیاسی جماعتیں اکثر اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے ووٹ خریدنا، اقربا پروری اور سرپرستی جیسے غیر اخلاقی طریقوں کا سہارا لیتی ہیں۔ یہ طرز عمل اکثر بدعنوانی کی وجہ سے ہوا کرتا ہے، جو ملک کے سیاسی کلچر میں گہرائی سے سرایت کر چکا ہے۔ سیاست دان اپنے اور اپنے حامیوں کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، اکثر وسیع تر آبادی کی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ مفاد پرستی اور کرپشن کے اس کلچر نے پاکستان کی ترقی پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔

ملک نے اپنے شہریوں کو تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی ڈھانچے جیسی بنیادی خدمات فراہم کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ معیشت کو بھی نقصان پہنچا ہے، عالمی بینک کے کاروبار کرنے میں آسانی کے انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی بہت خراب ہے۔ بہت سے پاکستانی اپنے سیاسی نظام سے مایوس ہیں، جسے وہ کرپٹ اور ناکارہ سمجھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں متعدد احتجاج اور تحریکیں ہوئیں جن میں حکومت سے زیادہ احتساب اور شفافیت کا مطالبہ کیا گیا۔

تاہم، تبدیلی آنے میں سست روی کا مظاہرہ ہو رہا ہے، اور سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کو ان لوگوں پر ترجیح دیتی رہیں جن کی انہیں خدمت کرنی ہوتی ہے، تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں کب پاکستانی عوام کے بارے میں سوچنا شروع کریں گی؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ تبدیلی کے لیے ملک کے سیاسی کلچر میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہوگی، اور یہ راتوں رات نہیں ہوگا۔ اس کے لیے مضبوط قیادت، شفافیت اور احتساب کے عزم اور عوام کی ضروریات کو سیاست دانوں سے بالاتر رکھنے کے لیے آمادگی کی ضرورت ہوگی۔

سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز، پی ڈی ایم کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملکی مفادات کے بارے میں سوچیں۔ انہیں صرف اپنے سیاسی ایجنڈوں پر توجہ مرکوز کرنے کہ بجائے پاکستان کو درپیش چیلنجز کا حل تلاش کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کو اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات اور مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے مسائل پر اتفاق رائے کی جانب کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح اپوزیشن جماعتوں کو بھی صرف اپوزیشن کی خاطر حکومت کی مخالفت کرنے کے بجائے تعمیری انداز اپنانے اور حل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں پاکستان کے عوام کی خدمت کے لیے منتخب کی گئی تھیں، اور ان کے اقدامات سے اس کی عکاسی ہونی چاہیے۔ سیاسی رہنماؤں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے سیاسی عزائم کو پاکستان کے مستقبل کی قیمت پر نہیں آنا چاہیے۔

آخر میں پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری دشمنی اور عداوت کا خاتمہ ضروری ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو اپنے ذاتی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ایک مشترکہ مقصد یعنی پاکستان کی بہتری کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کسی بھی چیز سے پہلے پاکستان کے بارے میں سوچیں اور ملک کو جس معاشی بحران کا سامنا ہے اس سے بچنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

Check Also

Aik Parhaku Larke Ki Kahani

By Arif Anis Malik