Jabr, Tashadud Aur Siyasi Dehshatgardi
جبر، تشدد اور سیاسی دہشت گردی
حال ہی میں منعقدہ کراچی میئر کا انتخاب جبر، پولیس تشدد اور سیاسی دہشت گردی کے الزامات کی وجہ سے متاثر ہوا ہے، جس سے پاکستان میں جمہوریت کی حالت کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہوئے ہیں۔ چونکا دینے والے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ 3 لاکھ ووٹ لینے والے جیتے جبکہ 9 لاکھ ووٹ لینے والے ہار گئے، جس سے انتخابی نتائج مکمل طور سے دھندلی زدہ قرار پائے ہیں۔
بدقسمتی سے، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے، جیسا کہ گزشتہ پاکستانی انتخابات میں انتخابی بدانتظامی کے اسی طرح کے نمونے دیکھے گئے ہیں، جس سے جمہوری عمل پر عوام کے اعتماد کو مزید گہرا لگا ہے۔ اس کالم میں، ہم حالیہ کراچی کے انتخابات کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے اور کراچی اور اس سے باہر جمہوریت پر اس طرح کے واقعات کے اثرات پر بات کریں گے۔
70 کے انتخاب میں واقعات کا ایک پریشان کن موڑ دیکھنے میں آیا جب 81 ووٹوں نے 161 ووٹوں کے مینڈیٹ کو قبول نہیں کیا۔ یہ تفاوت انتخابی عمل کی قانونی حیثیت اور نتائج کے منصفانہ ہونے پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ اسی طرح 77 میں امیدواروں کے اغوا ہونے کی چونکا دینے والی خبریں اپنے آپ کو دہرانے والی عبرتناک تاریخ کی بازگشت سناتی ہیں۔ یہ واقعات کراچی میں جمہوریت کی تاریخ کے سیاہ ترین دن کو اجاگر کرتے ہیں۔ جہاں جبر اور تشدد کے ذریعے عوام کی آوازوں کو خاموش کر دیا گیا۔
ان پریشان کن واقعات کی روشنی میں کراچی کے عوام اپنے جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ شہریوں کے حقیقی مینڈیٹ کا احترام یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن اور عدالت دونوں سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ کراچی کے شہری اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اور انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار ہیں۔ الیکشن کے دوران 31 منتخب عہدیداروں کا اچانک لاپتہ ہونا ملکی تاریخ کا ایک بے مثال اور تشویشناک واقعہ ہے۔ اس طرح کے اقدامات جمہوریت کے اصولوں کو مجروح کرتے ہیں اور شہریوں کو دھوکہ اور پسماندہ محسوس کرتے ہیں۔
"کراچی کے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا، الیکشن کے نام پر سلیکشن کو کالعدم قرار دیا جائے۔ جماعت اسلامی کراچی کے عوام کے مینڈیٹ کے تحفظ کے لیے ہر وہ طریقہ اختیار کرے گی جس کی آئین پاکستان میں اجازت ہے، عدالتوں میں بھی جائیں گے اور پرامن احتجاج بھی کریں گے۔ ہم کراچی کی تعمیر و ترقی پر کوئی سمجھوتہ نہیں چاہتے، اپنے جیتے ہوئے ٹاؤنز میں بھرپور کام کریں گے اورجو کام یہ 15 سال سے نہیں کر سکے وہ کام بھی ان سے کروائیں گے"، حافظ نعیم الرحمن کے اس بیان کے بعد پی ڈی ایم اور الیکشن کمیشن کے لیے چیلنجز مزید بڑھنے کے قوی امکانات ہیں۔
کراچی میں انتخابی بے ضابطگیوں کا بار بار ہونا الیکشن کمیشن کی اہلیت اور غیر جانبداری پر سنگین شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ اگر کمیشن کسی ایک شہر میں منصفانہ انتخابات کو یقینی نہیں بنا سکتا تو پورے پاکستان میں شفاف قومی انتخابات کے انعقاد پر کیسے بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال نہ صرف الیکشن کمیشن کی ساکھ کو چیلنج کرتا ہے بلکہ ملک میں مجموعی جمہوری عمل کے بارے میں بھی خدشات کو جنم دیتا ہے۔
ایسے وقت میں، سول سوسائٹی جمہوری اقدار کو برقرار رکھنے اور حکام سے جوابدہی کا مطالبہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کراچی کے شہریوں کو سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر جبر، تشدد اور سیاسی دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت کرنی چاہیے جس سے ان کے جمہوری حقوق سلب ہوئے ہیں۔ پرامن احتجاج، ریلیوں اور آگاہی مہموں کو منظم کرکے، وہ ناانصافیوں پر روشنی ڈال سکتے ہیں اور انتخابی اصلاحات پر زور دے سکتے ہیں جو منصفانہ اور شفاف انتخابات کی ضمانت دیتی ہیں۔
کراچی کے حالیہ میئر کے انتخاب نے جبر، پولیس تشدد اور سیاسی دہشت گردی کے پریشان کن مسائل کو سامنے لایا ہے جس نے شہر میں جمہوری عمل کو داغدار کر دیا ہے۔ ووٹوں کی جیت اور ہار کے درمیان زبردست فرق، مینڈیٹ کو مسترد کرنا، اور امیدواروں کے اغوا کے خطرناک واقعات کراچی میں جمہوریت کی بھیانک تصویر پیش کرتے ہیں۔ کراچی کے عوام الیکشن کمیشن اور عدالت سے رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ پرامن احتجاج کے ذریعے اپنے جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ واقعات الیکشن کمیشن کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگاتے ہیں اور مستقبل میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔