Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Shuja Haider
  4. Sawal Kis Se Karoon

Sawal Kis Se Karoon

سوال کس سے کروں

آج ہم جس ملک پاکستان میں رہتے ہیں اگر ہزار مرتبہ بھی اسکا شکر ادا کریں کم ہے چونکے انسان کی فطرت میں شکر ادا کرنا شامل نہیں ہے۔ اس ملک خدادا پاکستان میں ہمیں ہر طرح کی مذہبی، ثقافتی، علمی اور علاقائی آزادی حاصل ہے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کرنے کا جو میرا عنوان ہے۔"سوال کس سے کروں "۔ افسوس تو بہت ہوتا ہے کے جو کچھ ہوا ہمارے ملک کے ساتھ ہمارے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں سے ہوا۔ میں زیادہ دور کی بات نہیں کرونگا پاکستان کو بنے ہوے 73سال ہوچکے ہیں اور جو کچھ اتنے عرصے میں ہوا اگر ایمانداری سے سوچے تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں سوالات بیشمار ہیں۔ لیکن کسی ایک کا جواب آجتک نہیں ملا۔ لیاقت علی خان جنہوں نے قیام پاکستان میں بیشمار جدوجہد کی اور قربانیاں دی۔ پھر بعد میں وہ ملک کے وزیر عظیم منتخب ہوے پر افسوس صد افسوس کی بات یہ ہے 16 اکتوبر 1951 کو لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راولپنڈی میں جلسہ عام میں خطاب کے دوران قتل کردیا گیا۔ لیکن اسکی حقیقت آج تک سامنے نہ اسکی اور نہ ہی عوام کو آجتک معلوم ہو سکا کے کس کو کتنا فائدہ حاصل ہوا۔ لیاقت علی خان کو قتل کرنے والا شخص ایک افغانی باشندہ جسکا نام سید اکبر تھا۔ لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کے کیا کسی ملک کے اتنے اہم عہدے دار کو اتنی آسانی سے قتل کیا جاسکتا تھا۔ اس بات سے یہ صاف دلیل ملتی ہے کے اس قتل میں اندرونی ہاتھ ملوث تھے لیکن آج تک اس بات کا جواب نہیں ملا۔ انتہائی شرم اور غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کے جب لاہور ہائی کورٹ نے لیاقت علی خان قتل کیس کی مکمل تفتیش کی رپورٹ اور فائل مانگی تو کمرے عدالت میں ایک ایسی تاریخی بات گونجی اور سنائی دی اور کہا گیا کے می لاڈ فائل تو گم ہو چکی ہے اس بات کے ساتھ ہی تاریخ پاکستان کی میں انصاف کا جنازہ نکلنے کا آغاز ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے آج کا طالب علم پوچھتا ہے کے ہمارے ملک کے پہلے وزیر عظیم کا قتل کس نے کرایا۔ یہ سوال کس سے کروں؟

اس کے بعد ملک میں آمرانہ نظام اور جمہوری نظام میں ہلچل اور اتراؤ چھڑاؤ کا موسم آگیا۔ اور پھر پوری طرح ملک میں آمر مسلط ہوگے جسکی ایک طویل اور تلخ تاریخ ہے۔ اور دوسری اہم شخصیت کو قتل کرنے کا وقت آگیا ہاں بلکل جس شخص کی میں بات کر رہا ہوں قائد عوام بانی پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو ہے۔ جنکو جنرل ضیاء الحق نے پھانسی کی سزا سنائی۔ اگست 1976 میں ڈاکٹر ہنری وزیر اعظیم ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر پاکستان آے اور انہیں گورنر ہاؤس لاہور میں عشایہ دیا گیا جس میں ڈاکٹر ہنری نے ذوالفقار علی بھٹو کو ان انکی قسمت کا حال سنایا اور کہا کے آپکا کھیل تمام ہونے والا ہے جس پر اس بات کا جواب بھٹو صاحب نے اپنے خطاب میں دیا اور دبے دبے الفاظ میں کچھ یوں کہا اگست کا مہینہ ہے اور پنجاب کے دریا بھرے ہوے ہیں۔ چونکے بھٹو صاحب جانتے تھے کے انکے ساتھ کیا ہونے والا ہے لیکن کچھ لوگوں نے قتل کی وجہ بھٹو کی جمہوری سوچ اور ضیاء کا آمرانہ طرز عمل قرار دیا تو کچھ نے ایٹمی دھماکے قتل کی وجہ قرار دی تو کچھ نے کہا کے جنرل ضیاء پر امریکا کا دباؤ تھا۔ لکن حقیقت کچھ اس طرح ہے کے سن 1973 رمضان میں جب مصر، اور شام کی جنگ اسرائیل سے ہوئی تو پاکستان ائر فورس نے شام کا ساتھ دیا جو امریکا اور اسرائیل کو ناگوار گزری تو سلینونوں نے بھٹو صاحب کے قتل کا منصوبہ 1973 میں ہی تیار کرلیا تھا۔ لیکن بعد ازاں بھٹو صاحب کو نواب محمّد خان کے قتل کے الزام میں پھنسایا گیا جو کے سراسر غلط الزام تھا حالانکہ جس دن یہ قتل ہوا بھٹو صاحب ملتان کے دورہ پہ تھے اور انکے خلاف ایف ائی آر درج کی گئی اس دور کے آئی جی پنجاب راو رشید نے اپنی کتاب میں لکھا کے انہیں فون کیا گیا۔ نواب احمد خان کے بیٹے احمد رضا نے کہا کے میں اپنے والد کے قتل کا پرچہ بھٹو صاحب کے خلاف کاٹنا چاہتا ہے۔ خیر اسکے بعدیہ کیس عدالتوں میں چلتا رہا۔ شفی الرحمان ٹریبونل نے تمام تر شواہد کی جانچ پڑتال اور تفتیش کے بعد بھٹو صاحب کو بے گناہ قرار دیا۔ لیکن چونکہ جرنل ضیاء نے پھانسی کی سزا سنائی تھی یوں 4 اپریل 1979 کو بھٹو صاحب کو تختے دار پر لٹکا دیا گیا اور یوں جمہوریت آمر کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کیا بھٹو صاحب کو قتل کرنے کے پیچھے کون عناصر ملوث تھے اور جن ہستیوں کے کہنے پر عظیم ہستی کا خون بہایا گیا اسکا حساب لیا گیا یا قوم کو تمام تر سچائی بتایی گئی یہ و تمام تر سوالات ہیں جنکا جواب آجتک نہیں مل سکا۔ تو اب کیا میرا حق نہیں بنتا کے کہوں کےاسکا سوال کس سے کروں؟ اور جواب کون دیگا؟

اس کے بعد ملک میں غیر اعتمادی کی فضا قائم ہوگئی۔ اور 1990 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز شریف صاحب نے حکومت بنائی۔ وقت گزرتا گیا میں بے نظیربھٹو وزیر عظیم پاکستان منتخب ہوئیں پھر بعد میں نواز شریف نے 1998 میں جنرل مشرف کو آرمی چیف تعینات کیا اور اگلے ہی سال کارگل کی جنگ چھیڑ گئی بھارت کے ساتھ اور پرویز مشرف نے ہی نواز حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کردیا اور عرصہ دراز تک آمرانہ نظام چلتا رہا یوں جمہوریت ایک بار پھر آمر کے پیروں تلے ملیا میت ہوگی۔ ملک میں سن 1999 سے لیکر 2007 تک مارشل لا نافذ رہا اور ساتھ ہی ساتھ جمہوری طاقتیں بھی سر اٹھانے لگیں اور بلاخر ایسا وقت بھی آیا کے ملک انتہائی نازک موڑ پے آن پوچھا تب جنرل مشرف کو لگا کے استعفیٰ دینے کے علاوہ اور کوئی حل نہیں تو اپنے مشیر اور کابینہ سے تمام تر معاملات تے کرنے کے بعد۔ 18 اگست 2008کو استعفے کا اعلان اور ملک میں جنرل انتخابات کا فیصلہ کیا۔ ملک کی سابقہ وزیر ا عظیم بے نظیربھٹو نے 2007 وطن واپس آنے اور عام انتخابات میں پورے ملک سے لڑنے کا اعلان کیا لیکن انکے قافلے پر کراچی میں کارساز کے مقام پر نشانہ بنایا گیا۔ جس حملے میں بےنظیر صاحبہ محفوظ رہیں لیکن 180 افرادہلاک اور 500 کے قریب زخمی ہوے جنکے قاتلوں کو آجتک ناہی پکڑا گیا اور نہ ہی سزا دی گئی اور یوں بالاخر 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں انھے شہید کردیا گیا جس کا سیدھا سیدھا الزام جنرل مشرف پر لگایا گیا اور ملک کے حالات ایک بار پھر پوری طرح سے بگڑ گئے۔ سوالات یہ اٹھتے ہیں کس کے کہنے پر بے نظیربھٹو کی گاڑی کا راستہ تبدیل کیا گیا؟ کس کے کہنے پر بلٹ پروف گاڑی کی چھت کاٹی گئی؟ آخری بار کس نے فون کرکے بے نظیربھٹو کو باہر نکلنے کا کہا؟ اور شہادت کے بعد کس کے کہنے پر جائے حادثہ کو مکمل طور پر دھو دیا گیا؟ اور کس کے کہنے پر آجتک تفتیش مکمل نہ ہوسکی۔ یہ تمام وہ کڑوے اور جواب طلب سوال ہیں؟ جسکا جواب آجتک نہیں ملا بعد میں پیپلس پارٹی کا دور اقتدار آیا اور اس میں بھی بد قسمتی سے قاتل گرفتار نہ ہوسکے آخر ان تمام تر باتوں کا زمہ دار کوئی تو ہے یہ سوال کس سے کروں؟

یہ بات 29 جولائی 2013 کی ہے پشاور کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو فرار کرا لیا گیا۔ جس میں 240 انتہایی خطرناک دہشتگرد بھی شامل تھے جسکی ذمہ داری بعد میں تجریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔ کس کس مسلۓ پر بات کروں؟ کیا حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں تھی اس پر ایکشن لینے کی اور ایک سخت قانون سازی کرنے کی تاکے دوبارہ ایسا کوئی واقعہ نہ ہوتا؟ لیکن کچھ نہ کیا گیا ان میں وہ دہشتگرد بھی شامل تھے جو افواج پاکستان، مسجد امام بارگاہوں، اسکولوں، اور ریاستی اداروں پر حملے میں ملوث تھے افسوس تو اسی بات کی ہے کے اپنے مفاد کی بات آے تو سڑکوں پر آنے کی بات کرتے ہیں تو کیا ان کے حملوں میں جو لوگ اور معصوم افراد شہید ہوے وو کسی کے بیٹے اور لخت جگر نہیں تھے یہ سوال کس سے کروں کون جواب دیگا ان باتوں کا۔ کافر کافر کے فتوے دیے جاتے ہیں حب وطنی کا دعوا تو سب کرتے ہیں لیکن صرف اپنے مفاد کے لئے ہے کوئی جو ان سوالوں کا جواب دے۔ یہ سوال کس سے کروں۔

یہ تو تھی کچھ سیاسی گفتگو جو کے پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے اور فراموش نہیں کیا سکتا جو کے شدید تلخ ہے۔ اب بات کرتے ہیں پاکستان کی موجودہ حالت زار کے جو لوگ اس آج ملک کی تبائی کے ذمہ دار ہیں۔ کیا انسے سوال نہیں کروں؟ آج پاکستان کا ہر ادارہ کمزور اور کھوکھلا ہو چکا ہے۔ اسکے ذمہ دار مختلف ادوار میں رہنے والی حکومتیں ہیں۔ جو اقتدار میں رہیں اور صرف اپنے ذاتی فائدہ کے لئے طاقت کو استعمال کیا اور ملک کا دیوالیہ نکال دیا۔ کوئی بھی ادارہ ہو تباہی کے دھانہ پر کھڑا ہے۔ پاکستان ریلوے جو مکمل خسارہ میں رواں دواں ہے آے دن انجن فیل ہورے ہیں وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے اعتراف کیا کے ریلوے مکمل مالی طور پر فعال نہیں ہے اگست 2018 جون 2019 تک 74 ٹرین کے مختلف حادثات ہوے لوگ گھایل ہوے اور ہلاک ہوے اور اپنی زندگیاں کھو بیھٹے اس تمام تر نہ اہلی کا ذمہ دار کون ہے یا سوال کس سے کروں۔ صحت کا شعبہ بھی مکمل تباہ ہے ہسپتالوں میں ادویات نہیں ہسپتالوں کے حالت یہ ہے کے مریض اپنی جانیں دے رہیں ہیں۔ سالانہ بجٹ جولاکھوں کروڑوں روپے مختص کیے جاتے ہیں اگر اسکا دس فیصد بھی نیک نیتی سے خرچ کر دیا جائے تو شاید لوگوں کی زندگی بچائی جا سکے لیکن کوئی ملک کا نہیں بلکے اپنی جیب کے بارے میں سوچتا ہے۔ اور ہر حکومت پچھلی گزری ہوئی حکومت پر الزام لگاکر اپنا دامن صاف کرلیتی ہے غریب چکر لگا لگا کر مرجاتا ہے اور امیر اور امیر ہوجاتا۔ اس بد دیانتی اور ناہلی کا ذمہ دار کون ہے؟ اور سوال کس سے کروں؟

اب بات کرتے ہیں تعلیم کی یورپ دوسری عالمی جنگ کے بعد مکمل تباہ اور غرک ہوگیا تھا لیکن کچھ سالوں بعد ہی یہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا/ جرمن مصنف میچل ہوسٹ کہتا ہے اندھا اور بہرا وہ نہیں جو دیکھ نہیں اور سن نہیں سکتا بلکے وہ ہے جو تعلیم کے زیور سے دور ہے۔ چلیں جی اب بات کرتے ہیں اپنے ملک کی خستہ تعلیم نظام کی نچلے تعلیمی نظام کا تو الله ہی حافظ ہے بات کرتے ہیں ملک کے سب سے بڑے امتحان جسکو سی ایس ایس کہتے ہیں جس کی بنیاد قیام پاکستان سے پہلے 1857 رکھی گئی جو آجتک رائج ہے جس امتحان کو پاس کرکے افسران ملک کےمختلف اداروں میں آتے نظام چلاتے ہیں۔ لیکن ڈوب مرنے کا مقام یہ ہے کے فروری 2019 میں یہ خبر نشر کی گئی کے سی ایس ایس کے امتحان کے پرچے کچھ پیسوں میں بآسانی مل رہے ہیں جس پر ایوان بالاسینیٹ آف پاکستان میں بھی بحث اور بات ہوئی لیکن آج تک کسی کو سزا نہ ملی اور اس سے ملتے جلتے بیشمار واقعیات ہوے لیکن کسی کو آجتک نشان عبرت نہیں بنایا گیا۔ اسکولوں میں گھوسٹ ٹیچر اور پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں کا فرق آجتک موجود ہے تعلیم کے نام پر کروڑوں اربوں روپے جاری ہو چکے۔

آج ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اور اس دور میں وہ کام ہو رہے ہیں جو اس سے پہلے کوئی حکومت نہیں کرسکی۔ جو عوام پاکستان کو بخوبی معلوم اور اسکا اندازہ ہے۔ لیکن ہال ہی میں 23 مئی 2020کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا طیارہ پی۔کے۔ 8303 PK کو کراچی ائیرپورٹ سے کچھ فاصلے پر نزدیک کی آبادی ماڈل کالونی میں گر کر تباہ ہوگیا جس میں 97 افراد لقمہ اجل بن گئے کپتان اور عملے سمیت جس کی تفتیش کے لئے حسب روایت کمٹیاں تشکیل دی گیں۔ فرانس سے بھی خصوصی ٹیم پاکستان آیی اور تفتیش میں شامل ہوئی لیکن جھٹکا تب لگا۔ جب وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں یہ بات کہی کے 860 میں سے 262 پائلٹس کے لائسنس جعلی ہیں اور کوئی ریکارڈ نہیں ہے یہ بات دنیا بھر میں پھیل گی اور وہ ہی ہوا جسکا ڈر تھا 30 جون 2020 کو یورپی یونین نے پی۔آئی۔اے پہ باپندی لگادی۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ملایشیا دبئی اور دوسرے ممالک بھی سوال اٹھانے لگے اور امریکا نے بھی باپندی لگادی جس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی وزیر خارجی سے بات کرنے ور معاملات حل کرنے کا علان کیا۔ سپریم کورٹ آف پاکسیان نے ڈی جی سول ایوی ایشن اور وزیر ے ہوا بازی دونوں میں سے کسی ایک سے استعفیٰ مانگ لیا ہے۔ مسائل کے تو اانبار ہیں۔ زراعت تباہ، صحت تباہ، تعلیم تباہ، معیشت تباہ صنعت تباہ امن و امان کمزور آیی۔ ایم۔ ایف کا قرضہ، ایشین بینک کا قرضہ ورلڈ بینک کا قرضہ، پانی کی کمی ڈیم کے مسائل، بیروزگاری عروج پر ملکی سرحدوں پر تشویش ناک حالات خارجہ پالیسی کمزور لاقانونیت کا راج مسائل تو بیشمار ہیں لکن انکا جواب کون دیگا جسکی وجہ سے ملک کا دیوالیہ نکل رہا ہے یا یوں کہوں نکل چکا ہے تو غلط نہی ہوگا جتنی باتیں میں نے بیان کی تفصیل سے اور جو سر سری سی بیان کی ان تمام کا کوئی نہ کوئی ذمہ دار ضرور ہے لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ آخر میں کہونگا امید یہی ہے الله سے ہمارے حکمرانی کو عقل اور ایمانداری کی توفیق دے تاکے ملک کے لئے کوئی بھلا کرسکیں تاکے آج کا بچہ یا آنے والی نسل کی اولاد یا نہ کہے سوال کس سے کروں؟

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra