Zindagi Nama
زندگی نامہ
سوشل میڈیا پر شہرت بھی کیا غضب شے ہے کہ نہ اس سے فرار ممکن رہتا ہے اور نہ ہی ماضی کے دھندلکے چھٹتے ہیں اور کچھ چہرے اچانک سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں، جن سے ایک دہائی کا رشتہ رہا ہو۔ کبھی کبھی انسان ایک خاص ماحول یا منظر میں جامد ہو کے رہ جاتا ہے چاہے وہ کتنا ہی آگے بڑھ چکا ہو، مگر ماضی سے فرار ممکن ہی نہیں۔ یہاں میں نے اپنی زندگی کے وہی گوشے کھولے اور کتابِ زیست کے اتنے ہی پَنے پلٹے جتنا میں آپ کو دکھانا چاہتا تھا۔ یہ معاشرہ ججمنٹل ہے۔ یہاں قاضیوں کے بیچ سانس لینا، من سے لکھنا اور دل سے بولنا آسان نہیں ہوا کرتا۔
تئیس دسمبر سنہ 2006 میں میں دوطرفہ پسند کی شادی کے رشتے میں بندھا۔ اس مرحلے تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ میرا خاندان روائیتی سادات خاندان ہے۔ جس کے ہاں غیر سادات میں نکاح کرنا شجرِ ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ اس کا تعلق اعوان قبیلے سے تھا۔ اک جانب میری اپنے خاندان، اپنی فیملی سے لڑائی تھی، جو کسی صورت اس رشتے پر راضی نہیں ہو پا رہی تھی۔ سونے پہ سہاگا یہ تھا کہ وہ مجھ سے عمر میں تین سال بڑی تھی۔ ایسے رشتے پر کوئی کیسے راضی ہوتا، جہاں یہ سوال ہی پیدا نہ ہو سکتا ہو کہ اپنے سے بڑی عمر کی لڑکی سے کوئی نکاح کرنا چاہے۔ دوسری جانب اس کی اپنی فیملی سے لڑائی تھی۔ جو سٹیٹس گیپ کے سبب اس رشتے کو قبول کرنے سے انکاری تھی۔ ان دنوں میری معمولی نوکری تھی۔ تنخواہ ساڑھے سات ہزار ماہانہ۔ اس کے والد پولیس آفیسر تھے اور اس کے علاوہ بھی خاندانی زمین کافی تھی۔ اس کو سٹیٹس گیپ کو پاٹنا تھا اور مجھے سادات کی انا کو پار کرنا تھا۔ وہ شادی جیسے ہوئی وہ ایک ناول کا مضمون ہے۔
ہوگئی تو نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ اول اول سب سہانا لگتا ہے۔ جب دو لوگ اک دوجے کو چاہنے والے مل بیٹھیں تو باقی دنیا لایعنی ہو جاتی ہے۔ مسائل تو تب سر اٹھاتے ہیں، جب عشق کا بھوت اترتا ہے۔ جب اک جانب نازوں پلی لڑکی جس نے گرمی سردی دیکھی ہی نہ ہو، جس کے سفر واسطے باہر چم چم کرتی سیڈان کار بمعہ ڈرائیور حاضر رہتی ہو اور دوسری جانب غم روزگار سے اُلجھتا ایک نوجوان جس کی قلیل تنخواہ کا سارا حصہ اس کی ماں کی بیماری پر لگ جاتا ہو۔ اماں کے ہفتے میں تین بار ڈائیلسس ہوتے جن پر بھاری اخراجات اُٹھتے۔
پھر ہوتا یوں ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر سے وداع ہو کر سیالکوٹ جیسے چھوٹے شہر میں آ کر تنگدستی کی زندگی بسر کرنا بس میں نہیں رہا کرتا اور پھر ایسے ماحول میں جہاں دونوں جوانب کے خاندان والے اپنی خوشی سے نہیں بلکہ ہماری ضد کے سامنے سرنڈر ہو کر مانے ہوں وہاں آپ کیسے سروائیو کر پائیں گے۔ ہر انسان کو اپنا شہر، وطن، ماحول، آسودگی یاد آتی ہے۔ یہ نیچرل ہے۔ محبت ایک واہمہ ہے جو زمینی حقائق کے سامنے پتلی گلی سے نکل لیتا ہے۔ دس سال تعلق جس طرح چلا سو چلا۔ آخر راہیں جدا ہونا تھیں ہوگئیں۔ یوں نہیں کہ تعلق ختم ہونے میں سارا قصور کسی ایک کا تھا۔ دونوں برابر کے ذمہ دار ہوا کرتے ہیں۔ جنوری 4 سنہ 2016 کو یہ تعلق اختتام کو پہنچا۔
بچوں کی ذمہ داری مجھ پر آن پڑی۔ والدہ تو سنہ 2010 میں چل بسیں۔ بہن کی شادی کر دی وہ اپنے گھر والی ہوگئی۔ اب میں تنہا تھا اور بچے تھے۔ وہ دور شدید ڈپریشن کا دور تھا۔ اس نے بچے اپنی رضا سے چھوڑے تھے اور میں نے بھی اپنی رضا سے ان کی پرورش کی ذمہ داری لی تھی۔ انسان کو جس سے جتنا شدید محبت ہوتی ہے۔ جب نفرت ہونے پہ آئے تو دوگنی شدت سے ہوتی ہے۔ نفرت کا یہی اصول ہے۔ اس کو شاید تب مجھ سمیت بچوں سے بھی نفرت ہو چکی تھی۔
ایک سال کے اندر ہی مجھے دوسری شادی کرنا پڑی۔ بچے چھوٹے تھے۔ ان کو ماں کی ضرورت تھی اور مجھے نوکری کے واسطے گھر سنبھالنے والے کی تاکہ میں اپنے کام پر فوکس کر پاؤں۔ اس بار نصیب ایسے اچھے نکلے کہ مردہ دلی کے ساتھ حالات کی مجبوری کے تحت جو شادی کی وہ اللہ کی جانب سے میری زندگی کا سب سے انمول تحفہ نکلی۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی لڑکی کسی اور عورت کے بچوں کو ماں بن کر پالے، سنبھالے اور کھلائے۔ میری موجودہ بیگم نے بچوں کو ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ اس نے نہ صرف بچوں کو سنبھالا، گھر کو سنبھالا بلکہ مجھے بھی سہارا دیا۔ میں تو ڈپریشن کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ یہ مجھ سے عمر میں دس سال چھوٹی تھی۔ اول اول میں اسی سبب شادی سے بھاگتا رہا کہ عمر میں مجھ سے تین سال بڑی گھر نہ سنبھال پائی تو دس سال چھوٹی کیا کر پائے گی۔
آج تک مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ سکی۔ مجھے تب محبت ہوئی تھی تو شادی کی یا مجھے دوسری شادی کے بعد محبت ہوئی۔ اس نے میری زندگی کے مشکل ترین ایام میں میرا صبر شکر سے ساتھ دیا۔ مجھے اس سے شدید محبت ہوگئی۔ یہ بھی میرے بنا نہیں رہ پاتی۔ بچے اس کو ماما کہتے ہیں اور سچ بھی یہی ہے کہ ماں تو وہی ہوتی ہے جو بچوں کو پالے۔ آج میں اگر کامیاب انسان ہوں تو اس کا سہرا میری بیگم کے سر ہے۔ اگر یہ نہ ہوتی تو میں شاید کچھ بھی نہ ہوتا اور ڈپریشن میں کہیں گُم ہو چکا ہوتا۔ جو انسان آپ کے مشکل وقت میں آپ کا مددگار ہو وہی آپ کے اچھے وقت میں ہر قسم کی آسائش کا حقدار بھی ہوتا ہے۔ آج وہ جو چاہتی ہے کرتی ہے۔ جو خریدنا چاہے اسے دلا دیتا ہوں۔ جب کچھ نہیں تھا تو اس نے میرے ساتھ گزارہ کیا، اب جب سب کچھ ہے تو وہ میری جان و مال پر پورا حق رکھتی ہے۔
آج آٹھ سال اور ایک دن ہوگیا میرا پہلا ازدواجی تعلق تمام ہوئے۔ اس سارے عرصے میں ایک بار اس سے آمنا سامنا ہوا۔ دنیا واقعی بہت چھوٹی ہے۔ لاہور گلبرگ کے شاپنگ مال میں چار سال قبل اچانک وہ سامنے آ گئی۔ میرے ہمراہ میری موجودہ بیگم تھی۔ اس نے ہم دونوں کو دیکھا اور پھر ہم ایک دوجے کو کراس کر گئے۔ بیگم چونکہ اس کو تصویروں سے جانتی تھی مجھے بولی "اس نے بچوں کا بھی نہیں پوچھا؟ سامنے آ ہی گئی تھی تو اپنے بچوں کا تو پوچھ لیتی"۔ میں نے اس دن اسے کہا "دیکھو، ہو سکتا ہے وہ پوچھنا چاہتی ہو مگر ہم دونوں کو ساتھ دیکھ کر اس سے ہمت نہ ہوئی ہو یا یہ خیال آ گیا ہو کہ میں یا تم جواب میں نجانے کیسا ری ایکشن دے دیں اور یہ پبلک پلیس ہے۔ بھرا ہوا مال ہے۔ چھوڑو اس بات کو۔ چلو یہاں سے چلیں"۔
ان گزرے آٹھ سالوں اور ایک دن میں اس نے مجھے مجھ سے رابطہ کیا نہ ہی میں نے اسے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ کوئی وجہ رہی ہی نہیں تھی۔ وقت بِیت جاتا ہے جیسا بھی بیتے۔ جہاں وہ سب کو بھول گئی میں بھی زندگی میں آگے بڑھ گیا۔ مگر ہائے یہ سوشل میڈیا اور شہرت۔۔
شاید وہ کسی جعلی پرؤفائل سے مجھے دیکھتی رہتی ہے اور شاید اس سبب کہ میں یا بچے کیا کر رہے ہیں۔ پرؤفائل پر میرا واٹس ایپ نمبر مینشن ہے تاکہ لوگ کام کے سلسلے میں مجھ سے رابطہ کرنا چاہیں تو کر پائیں۔ کئی ادارے، افراد اور آرگنائزیشن مجھ سے کام کے سلسلے میں رابطہ کرتیں ہیں۔ اس واسطے نمبر دے رکھا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک واٹس ایپ موصول ہوا، جس میں کوئی نام درج نہیں تھا۔ میسج تھا "آپ اپنے بچوں کی تصاویر مجھے بھیج سکتے ہیں جو نئی ہوں؟ پروفائل پر سب کچھ پرانی پوسٹ ہیں"۔ میں نے پڑھ کر کوئی جواب نہیں دیا کہ نجانے کون ہے۔ جو مجھ سے بچوں کی تصویریں مانگ رہی ہے۔
لوگ عجب عجب میسجز بھیجتے رہتے ہیں۔ جن کو پڑھ کر میں اگنور کر دیتا ہوں۔ پھر کچھ دن بعد اسی نمبر سے میسج آیا "گاڑی کونسی رکھی ہوئی ہے؟ بچے کس سکول میں جا رہے ہیں؟ مجھے بتاؤ"۔ میں نے پڑھ کے پھر اگنور کر دیا کہ نجانے کون سائیکو انسان ہے، جس کو میری ذاتی زندگی میں گھسنا ہے۔ اور اس بار میسج میں بے تکلفی ایسی تھی کہ "آپ" کی بجائے تم سے کلام تھا۔ پہلے میں نے سوچا بلاک کر دوں پھر پتہ نہیں کیوں ارادہ بدل دیا کہ چھوڑو مٹی ڈالو۔
آج ابھی کچھ دیر پہلے میسج ملا ہے۔
"میں نے تمہاری ویڈیو دیکھی ہے۔ تم سندھ کے وزٹ پر تھے۔ اچھی بنائی ہے۔ بہت بدل چکے ہو۔ شوگر نے تم کو سمارٹ کر دیا یا جاگنگ بھی کرتے ہو۔ چلو یہ جان کر اچھا لگا کہ خوش ہو۔ بچے بھی ٹھیک ہی ہوں گے"۔
یہ پڑھتے ہی میں نے اب کے غصے میں جواب دیا کہ کون ہو تم اور کیا مسئلہ ہے تم کو؟ مجھ میں اتنی دلچسپی لینے کی بجائے اپنے کام کرو۔ آگے سے جواب آیا ہے۔
"میں کون ہوں؟ وہی جس کے ساتھ دس سال گزارے تھے۔ چلو اچھا ہے بھول چکے ہو۔ میں یہاں سے بلاک کر رہی ہوں بس بچوں کے بارے جاننا تھا اور سوچا تھا کہ تم جان جاؤ گے"۔
اس نمبر سے میں بلاک ہو چکا ہوں۔ ویسے بھی اب کیا باقی رہا ہے۔ جس ویڈیو کی بات کر رہی ہو اس پر جو گانا لگا ہے وہی میرا جواب ہے۔
وقت چلتا ہی رہتا ہے رکتا نہیں
اک پل میں یہ آگے نکل جاتا ہے
آدمی ٹھیک سے دیکھ پاتا نہیں
اور پردے پہ منظر بدل جاتا ہے
سوشل میڈیا بہت غضب کی چیز ہے۔ بیٹھے بیٹھے کہاں جا ملاتا ہے۔ عبداللہ حسین کے ناول "اداس نسلیں" کا جملہ ہے "انسان کی یاد کا لنگر بھی کیا عجب منظر ہے کہ زمانوں کی آمد و رفت کو مٹھی میں جکڑ کے رکھ دیتا ہے"۔
آنکھیں کیا کچھ نہیں دیکھتیں، دشت و صحرا بھی اور گل و گلزار بھی۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلا تو لو دیتے ہوئے چراغوں کا اجالا بھی دیکھا اور اور بجھتے ہوئے چراغوں کا دھواں بھی۔ اپنی زندگی بیک وقت ذاتی بھی ہوتی ہے اور اجتماعی بھی۔ تصویریں بنتی بھی ہیں بگڑتی بھی ہیں۔ کبھی حد نگاہ تک کانٹے ہی کانٹے بچھے ہوئے، سراب ہی سراب، تشنگی ہی تشنگی کبھی پیروں کے نیچے بھیگی گھاس کا دل پذیر لمس، کسی پیڑ کی مہربان چھاؤں، آواز دیتا ہوا کوئی رنگ، سانس لیتی ہوئی کوئی خوشبو۔ کبھی راحتیں کبھی کلفتیں۔ سارے منظر نامے میں اپنا تو وہی ہے جو دو پلکوں کے بیچ بسیرا کر لے۔
میں جو بھی ہوں، جیسا بھی ہوں، وہی ہوں جو برسوں پہلے تھا اور مرنے تک ایسا ہی رہنا چاہتا ہوں۔ فرازؔ کا شعر ہے
اب تم آئے ہو مری جان تماشہ کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے، یوں ہے
ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے