Ye Youth Nahi Youthiyapa Hai
یہ یوتھ نہیں یوتھیاپا ہے
مہنگائی کا رونا روتے آنسو خشک نہیں ہوتے مگر تلاشنے نکلو تو باہنر بندہ نہیں ملتا۔ اگر مل ہی جائے تو دوسرا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ پروفیشنل ازم کو یہاں دور سے سلام ہے۔ اگر آپ خالی باہنر ہیں اور پروفیشنل ازم سے دور ہیں تو آپ دراصل کچھ بھی نہیں ہیں۔ آپ کو کیسے یقین دلاؤں کہ اس معاشرے میں کام کرتے اور چونکہ میرے کام کی نوعیت ہی عوام الناس سے ڈائیریکٹ تعلق پر مبنیٰ ہے۔ مجھے کوئی خال خال ہی پروفیشنل ملے ہیں۔ میں نے نتیجہ نکالا ہے کہ یہاں لوگ اپنے نامساعد حالات کے خود ذمہ دار ہیں۔ وہ ناں اپنے اندر اسکل ڈویلپمنٹ پر توجہ دیتے ہیں ناں پروفیشنل رویہ اپنانے کو یہاں ضروری سمجھا جاتا ہے۔
سونے پہ سہاگا ہماری من الحیث القوم ایسی ذہن سازی ہے کہ بالخصوص شعبہ آرٹ یا فن و فنکار سے متعلقہ شعبہ جات سے وابستہ لوگوں کی کاہلی، غیر پروفیشنل رویہ اور جنرل ایٹیچیوڈ کو یہ کہہ کر ٹالا جاتا ہے " فنکار بندہ ہے۔ اس کا مزاج ہی ایسا ہے"۔ نہیں، یہ نری بکواس ہے۔ فنکار کا مزاج موڈ سونگز تو ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے مگر وہ بندہ جو خود کو فنکار کہلاتا ہے یا جسے زمانہ فنکار کہتا ہے اگر وہ اپنے کام میں سُست، ڈاکومینٹیشن میں ناکام اور دوران کام اپنے رویے میں ٹیم ورک سے عاری ہے تو وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ باقی اس کے ہنر کو سلام ہے۔
آپ فری لانسر ہیں، آپ بہت قابل تخلیق کار ہیں، آپ کسی بھی شعبہ سے وابستہ ہیں۔ اگر آپ Managed نہیں تو آپ ناکام رہیں گے۔ آج کے دور میں آپ چاہے کم ہنر مند ہوں پر اگر آپ ڈاکومینٹیشن میں یا پریزینٹیشن میں اچھے اور ویل مینجڈ ہیں تو یقین مانئیے آپ کامیاب ہیں اور آپ کو کام ملے گا۔ یہاں لوگوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کی قابلیت و ہنر تب ہی آپ کے کام آ سکتا ہے۔ جب آپ اس کو اچھے سے پیش کر سکیں۔ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ آپ کو کام دینے سے قبل آپ کی پروفائل یا ورک کو خود وزٹ کرے یا دیکھے۔
یوں نہیں کہ پہلی بار ایسا ہوا یا میں پہلی بار اس موضوع پر لکھ رہا ہوں۔ میں لکھ کے تھک گیا ہوں۔ یہاں کیا بابو کریسی اور کیا کرتے دھرتے کوئی بھی پروفیشنل ازم کی پ سے بھی واقف نہیں۔ ہاں غربت کا رونا رونے میں سب یکساں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہی میں نے ایک جاب پوسٹ کی جو فوٹوگرافی سے متعلقہ تھی۔ چونکہ میں نے خود ملک سے باہر ہونا تھا۔ اس واسطے پبلک میں لگا دی کہ کوئی باہنر انسان مل جائے تو اس کو کام سمجھا کر تسلی کرکے دے دوں۔ اس میں چار ڈاکومنٹس مانگے تھے جو کہ ہر پروفیشنل انسان کے پاس ہونے چاہئے اور ان ڈاکومنٹس کے بنا کوئی ادارہ کوئی فرم آپ کو کام نہیں دے گا۔
1- پروفائل، یعنی آپ نے آج تک کیا کام کیا ہے اور کن کن اداروں یا افراد کے واسطے کیا ہے۔ اچیومنٹس کیا ہیں۔ ورک سیمپل کیا ہیں۔
2- ٹیکنیکل پروپوزل، یعنی آپ مطلوبہ کام کو سرانجام دینے کو کیا حکمت عملی اپنائیں گے۔ آپ کے ٹیم ممبران کون ہیں اور ان کی کیا خاصیت ہے۔ ان کا کیا پروفائل ہے۔
3۔ فنانشل پروپوزل، یعنی آپ اس سارے کام کو سرانجام دینے کے کیا چارجز لیں گے۔ پر ڈے پرائس کیا ہوگی یا پر تصویر کیا چارج کریں گے۔ نیز آپ کو ایڈوانس چاہئیے ہوگا تو آپ کی کُل پرائس کا کتنا فیصد ایڈوانس چاہئیے ہوگا اور کیوں چاہئیے ہوگا۔
4۔ ایکوپمنٹ یا ٹولز لسٹ، یعنی آپ کے پاس کیا سامان موجود ہے۔ ان کی تفصیلات کیا ہیں۔
مجھے سینکڑوں میسجز موصول ہوئے تھے۔ ہر ایک کو کام تو چاہئیے تھا مگر ایسے کہ بس ایک لنک بھیج کے اسے مل جائے۔ 99 فیصد لوگوں نے مجھے کوئی ڈاکومنٹ نہیں بھیجا۔ صرف اپنی پرؤفائل کا لنک بھیجا کہ یہاں سے میرا کام دیکھ لیں اور مجھے اشد ضرورت ہے، بس مجھے دے دیں۔ چند لوگوں کا کام میں نے دیکھا بھی اور وہ ٹیلنٹڈ تھے، مگر میں اس واسطے چپ رہا کہ خالی ٹیلنٹ کسی کام کا نہیں۔
صرف ایک فیصد لوگوں نے مجھے ڈاکومنٹس بھیجے ان میں سے بھی آدھے لوگوں نے ادھورے بھیجے تھے۔ کچھ لوگوں تو ایسے تھے جن کے میسجز نے مجھے چونکا کے رکھ دیا تھا۔ ان کا پیغام تھا " اگر پیسے اچھے ہیں تو میں کر سکتا ہوں"۔
لوگوں کے مطمع نظر پیسے تو ضرور ہوتے ہیں مگر یہ نہیں ہوتا کہ ہم خود کتنے پروفیشنل ہیں اور کس روئیے سے پیش آ رہے ہیں۔ پیسے تو سب کو چاہئیے، مجھے بھی آپ کو بھی۔ کوئی جھولی میں ڈالنے آتا ہے کیا اس دنیا میں؟ اپنے اندر قابلیت پیدا کرو گے تو ملیں گے ناں۔ مجھے انگنت بار کئی لوگوں نے اداروں کے ترجمان یا کرتے دھرتوں نے کہا " بخاری یہ کام ہے۔ اگر کوئی انٹرسٹڈ ہوا تو ہمیں بتانا یا ہمیں تلاش کر دو"۔ میری کبھی یہ جرات نہ ہو سکی کہ آگے سے کہہ دوں" اگر پیسے اچھے ہیں تو میں کر لیتا ہوں"۔ وجہ؟ وجہ سادہ اور سیدھی ہے۔ اس نے مجھے کام کی آفر نہیں کی مجھ سے مدد یا مشورہ چاہا ہے۔ میں کیوں اس کو اپنی سروس آفر کر دوں؟ اور اگر ایسا کروں گا تو یہ نان پروفیشنل اٹیچیوڈ ہوگا۔ آپ نوٹس لیں یا ناں لیں مگر پروفیشنلز نوٹس لیتے ہیں کہ کون کتنا پروفیشنل ہے۔
یہ تو رہی پروفیشنل ازم کی کہانی۔ میں کئیں بار جاب بورڈ یا انٹرویو بورڈ میں بیٹھا ہوں۔ سامنے آنے والے امیدوار کاغذ پر تو انتہائی قابل ملتے ہیں، مگر سوالات کرنے لگیں تو جواب میں زیرو۔ یعنی ڈگری ہے پر اسکلز نشتہ۔ تھیوری معلوم ہے مگر execution میں زیرو۔ یہ مسئلہ ہمارے تعلیمی نصاب کا تو ہے ہی ہے کہ ڈگری یافتہ مگر اسکلز سے ناآشنا رٹے رٹائے طوطے قسم کے بیروزگار ہر سال پیدا کیے جا رہے ہیں مگر اتنا ہی قصور ان طوطوں کا اپنا ہے۔ جنہوں نے ڈگری لینا اپنی اچیومنٹ سمجھ کر کافی جانا اور کام کرنے پر توجہ نہیں دی۔ صاحبو، ڈگری ضروری ہے مگر بنا اسکلز کے وہ بس ردی کا ٹکرا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی چلے جاؤ مشکل پیش آئے گی۔
اب بات کر لوں یونیورسٹیوں میں داخل ہوتی نوجوان نسل پر جسے یوتھ کہا جاتا ہے۔ یونیورسٹی میں نئے سال کے لئے فلم اینڈ ٹی وی اور ماس کمیونیکیش بیچلرز و ماسٹرز پروگرام کے ایڈمیشن ٹیسٹ اور انٹرویوز تھے۔ فلم اینڈ ٹی وی سے متعلقہ امیدواروں کے انٹرویو بورڈ میں میں بھی شامل تھا۔ اصغر ندیم سید اور میں نوجوانوں سے عام سے سوالات پوچھتے رہے، لیکن یوتھ نے ایسے ایسے جواب دیئے کہ آفرین۔ مثال کے طور پر ہر کوئی ڈائریکٹر بننا چاہتا تھا مگر ان سے پوچھو کہ کس ڈائریکٹر سے آپ انسپائر ہو تو کسی کا نام نہیں آتا تھا۔۔ اگر ان سے پوچھا کہ اس شعبہ میں کیوں آنا چاہتے ہو تو جواب آتا تھا " سر بس سائنس نہیں اچھی لگتی یا پھر یہ جواب کہ شوبز یا جرنل ازم میں اسکوپ بہت ہے"۔۔
مزے کی بات میرے ان سوالات کہ آپ نے کبھی کوئی کتاب پڑھی؟ ادب سے لگاؤ ہے؟ پڑھتے ہیں تو کونسا ادیب پسند ہے؟ کے جواب میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کی اکثریت نے یہی کہا کہ نہیں کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔۔ جن دو چار نے کہا کہ پڑھی ہیں انہوں نے سنی سنائی مشہور کتابوں کا بتا دیا۔ جن کے مصنف کا نام تک ان کو نہیں معلوم تھا۔۔ ایک بچے نے تو حد ہی کر دی۔ وہ بڑے اعتماد سے بولا " یس سر کتابیں پڑھتا ہوں"۔ اصغر صاحب نے پوچھا کہ کیسی کتابیں کس نوعیت کی؟ جواب آیا " سر یہی پیار محبت والی"۔۔
انٹرویوز بھگتا کر چائے منگوائی تو اصغر ندیم سید نے بڑا سنہری جملہ بولا "مہدی۔۔ یہ یوتھ نہیں یوتھیاپا ہے"