Wo Mere Shikar Ka Akhri Din Tha
وہ میرا شکار کا آخری دن تھا
خوشا وہ دن جب مچھلی پکڑنے کا شوق ہوتا تھا۔ اب تو بس فیسبک کے سمندر سے ہی پکڑتا ہوں۔ مچھلی کا شکار عام شکار نہیں۔ اس میں وقت کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔ یہ صبر آزما کام ہے۔ اعلیٰ الصبح یا پھر شام گئے یہ ہی وہ اوقات ہیں جب مچھلی گہرے پانیوں کو چھوڑ کر سانس لینے سطح آب پر آتی ہے۔
مچھلی سے مجھے خاص محبت ہے۔ اس کو میں کسی حال میں نہیں چھوڑتا خاص کر جب پکی ہوئی مل جائے۔ ایک بار تو یوں ہوا کہ میں گھر سے شکار کا سامان لے کر نکلا۔ بیگم بچوں کو کہا "میں ہیڈ بلوکی جا رہا ہوں۔ آج شام واپسی پر مچھلی کا بار بی کیو کریں گے۔ " میرا بیٹا بہت جذباتی ہوگیا۔ بولا " بابا آپ کو فشنگ بھی آتی ہے کیا؟ واؤ"۔ میں نے اس کو یقین دلایا کہ بیٹا جب تم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، تب سے میں شکار کر رہا ہوں۔ یہ سن کر بیٹی بولی " لیکن آپ اس سے پہلے کبھی شکار پر گئے تو نہیں بابا۔ یہ اچانک آپ کو شوق کیسے چڑھ آیا؟"
دراصل ہوا یوں کہ مجھے عرصے بعد ایک دوست سے ملنا تھا اور وہ امریکا سے آئی تھی۔ بیچاری کی نئی نئی طلاق ہوئی تھی۔ میں نے سوچا چلو اس کا دل بہلانے کہیں دریا کنارے لے چلوں۔ ہیڈ بلوکی ایک اچھا پکنک سپاٹ ہے اور لاہور سے زیادہ دور بھی نہیں۔ ایک شکاری دوست سے اس کا سامان اُٹھایا اور گھر آ کر میں نے شکار کا اعلان کر دیا۔
مجھے یاد ہے وہ اتوار کا دن تھا۔ شکاری نے شکار ساتھ لیا اور ہیڈ بلوکی پہنچ گیا۔ سارا دن وہیں بیٹھے ایک ریڑھی والے سے شکر قندی کھائی۔ پھر کٹے ہوئے امرودوں کی پلیٹیں اڑائیں۔ مسمی کے جوس پئے۔ بہت تسلی دی کہ دیکھو ایسا ہو جاتا ہے اتنی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں۔ اس کا موڈ ذرا فریش ہوگیا۔ شام ہونے آئی تو میں نے وہیں سے روہو مچھلی کے بڑے بڑے تین دانے لیے۔ مچھلی فروش ان کو کاٹنے لگا تو میں نے منع کرتے کہا" استاد، سالم دے۔ کوئی نمک نئیں چھڑکنا بس ایسے ہی دے دے"۔
اس شام گھر آتے ہی میں نے مچھلیاں ہاتھ میں پکڑے اہل و عیال کو دنگ کر دیا۔ بیگم کو تو یقین ہی نہ آیا۔ وہ بولی " سچی؟ یہ آپ نے پکڑیں ہیں؟ قسم کھائیں"۔ میں نے اسے یقین دلانے کو بہت جتن کئے۔ بیٹا مچھلیاں دیکھ کر اتنا جذباتی ہوا کہ اس نے سکول میں مشہور کر دیا میرے بابا مچھلی شکار کرکے لائے۔ البتہ بیٹی چپ رہی اور مجھے گاہے گاہے دیکھ کر مسکراتی رہی۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو بولی " بابا۔ ایسے ہی بس ہنسی آ رہی ہے۔ مجھے آپ پر یقین ہے"۔ بیگم نے ثابت مچھلی کو بہت مشقت سے کاٹا۔ اس کے چھلکے اتارتے اسے سخت مشقت کرنا پڑی مگر وہ خوش تھی کہ اس کا شوہر شکار کرکے لایا ہے۔ اس رات مچھلی تل کر سامنے آئی تو سب نے کھا کر تعریف کی اور یک زبان ہو کر بولے " واقعی یہ دریائی مچھلی ہے۔ اس کا ذائقہ الگ سا لگ رہا ہے"
اس دن کے بعد انہوں نے مجھے کئی بار کہا کہ آپ شکار پر جائیں مگر میری طبعیت مائل نہ ہوئی کہ اب کس کے ساتھ جاتا؟ میں یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ شکار ایک آرٹ ہے اور یہ تب ہی ہوتا ہے، جب طبیعت مائل ہو اور شکار حاضر ہو۔
گرمیاں آئیں تو میں بچوں کو شمال لے گیا۔ وہاں ان کو ٹراؤٹ مچھلی کھلانا چاہی تو سب نے انکار کر دیا کہ آپ ٹراؤٹ خود شکار کریں اور ہمارے سامنے کریں۔ ہم فریش ٹراؤٹ نکال کر خود بنائیں گے۔ ان کو بہت سمجھایا کہ دیکھو شکار ایسے نہیں ہوتا اور نہ ہی میرے پاس سامان ہے۔ اس وقت وہ ٹل گئے، مگر قسمت ہی خراب ہو تو کیا ہو سکتا۔ غذر کی جانب سفر کرتے ایک جگہ چائے پینے رکے تو وہیں پاس میں فشنگ شاپ تھی، جس کے پاس سارا سامان موجود تھا۔ غذر میں لوگ فشنگ کے شوقین ہیں۔ بیٹے نے وہ دیکھتے ہی اعلان کر دیا کہ اب تو سامان مل رہا ہے۔ یہاں سے رینٹ پر لے لیں۔ جب حد سے زیادہ اصرار بڑھا تو میں نے فشنگ راڈ بمعہ بیٹ رینٹ پر لے لیا اور پھر غذر جھیل کنارے سارا دن کنڈی لگائے بیت گیا مگر آپ جانتے ہیں شکار تو ایسے نہیں ہوتا۔ نہ مچھلی لگنی تھی نہ لگی۔ اس رات اہل خانہ بہت مایوس ہوئے اور مجھے بہت باتیں سننا پڑیں۔
کچھ عرصے بعد میں اکیلا دیوسائی گیا۔ یہ نومبر کا آغاز تھا۔ دیوسائی لوگوں سے خالی تھا۔ جیپ ڈرائیور مقامی تھا۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ موٹر سائیکل پر دو مقامی لوگ جال ڈال کر شتنگ نالہ میں مچھلیاں پکڑ رہے ہیں اور انہوں نے مچھلی نکال کر شاپر بھرے ہوئے ہیں۔ دیوسائی نیشنل پارک ہے اور یہاں شکار سخت منع ہے۔ مگر مقامی لوگ دیوسائی کے آف سیزن میں مچھلیاں پکڑنے کو آ جاتے ہیں اور چھپ چھپ کر کارروائی ڈالتے ہیں۔ جیپ ڈرائیور نے مجھے کہا " سر جی آپ آفیسر ٹائپ لگتا ہے۔ ان کے پاس جا کر ذرا باہر نکل کر ان کو جھڑک لگاؤ یہ مچھلیاں چھوڑ کر بھاگے گے۔ " مجھے اس کا آئیڈیا دل کو لگا۔ میں نے رے بین کی عینک چڑھائی۔ جیپ سے اُترا اور ہمت جمع کرکے آواز کو بھاری و گرجدار بناتے کہا " رکو ذرا ادھر ہی۔ میں آیا۔ تمہاری فلاں کو ڈھینگ"۔ بس صاحبو ٹِرک نے ایسا کام کیا کہ وہ بائیک سٹارٹ کرکے بھاگے اور میں سڑک سے اتر کر گھاس کی ڈھلوان پر ان کی جانب بھاگا۔
ڈرائیور بھی اُترا۔ ہم دونوں نے بہت قہقے لگائے اور سارا شکار قبضے میں لے لیا۔ شاپر فُل مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے ڈرائیور کو اپنا موبائل دیا۔ فشنگ راڈ پر شاپر سے نکال کر مچھلی لگائی۔ ڈرائیور کو کہا کہ ویڈیو بناؤ۔ اس نے ویڈیو بنائی۔ ویڈیو میں بچوں اور بیگم کو مخاطب کرکے کہا " دیکھو میں نے کتنی مچھلیاں پکڑیں ہیں۔ یہ ہوتا ہے شکار"۔ ڈرائیور کی پھسپھسی ہنسی بھی ویڈیو میں ریکارڈ ہوگئی مگر ویڈیو بیگم بچوں کے واسطے اس قدر سنسنی خیز تھی کہ ان کا ڈرائیور کی ہنسی جانب دھیان ہی نہیں گیا۔ اس شام ویڈیو کال پر سب نے میرے شکار کے گُن گائے اور مجھے مان گئے۔ میرا کھویا ہوا اعتماد اور انہماک بحال ہوگیا۔
ایک دن اچانک ہی ایک شکار سامنے آیا اور اس نے مجھ دعوتِ شکار دی۔ مگر اس شکار کے واسطے تو لاہور ہی جانا تھا۔ مگر لاہور میں تو مچھلی نہیں پکڑی جا سکتی اس واسطے میں نے دوست سے سامان پھر سے ادھار لیا اور گھر اعلان کر دیا کہ میں دریائے جہلم جا رہا ہوں۔
بھائیو، اب آپ سے کیا پردہ۔ وقت بِیت چکا لہذا اب یہ کوئی راز نہیں ہے۔ ہم دونوں گلبرگ انگلش ٹی ہاؤس میں کافی پی رہے تھے کہ اچانک وہاں میری ہمسائی آنٹی جِیا آ گئیں۔ آنٹی جِیا میرے گھر کے بالکل سامنے رہائش پذیر ہیں اور بیگم کی گہری دوست ہیں۔ آنٹی نے حق دوستی ادا کرتے ہوئے بیگم کو واٹس ایپ کر دیا۔ اچھا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ آنٹی جِیا نے دیکھ لیا ہے۔ میں تو اپنی دھن میں مست شکار پر مصروف تھا اور کانٹے پر بیٹ (Bait) بدل بدل کر آزما رہا تھا۔
یکایک موبائل پر بیگم کی کال آئی۔ میں نے نارمل موڈ میں اُٹھائی۔
"کدھر ہیں آپ؟"
"میں جہلم"
"میں کہتی ہوں ابھی کے ابھی گھر واپس آئیں ورنہ میں انگلش ٹی ہاؤس کے لیے اُبر منگوا رہی ہوں"۔
دوستو۔ وہ میرا شکار کا آخری دن تھا۔ مچھلی پکڑتے پیچھے کٹا کھُل گیا تھا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ میرے شوق کو آنٹی جِیا نے دفن کیا ہے، حالانکہ وہ بے ضرر معلوم ہوتی ہیں۔ اس دن کے بعد مچھلی بھی بیگم خود خریدتی ہے۔