Wazirabad Ka Pani
وزیرآباد کا پانی
یہ سُسری سردی لگنے کا سب سے ٹھنڈا مقام لیٹرین ہوتا ہے۔ آپ چاہے سیاچن پر کھڑے ہوں، وہاں اتنی سردی نہیں لگے گی جتنی سیاچن کی لیٹرین میں لگے گی۔ کامن سینس کی بات ہے کہ اس انتہائی اہم مقام پر پہنچ کر انسان کے اکثر سینسرز ننگے ہو جاتے ہیں۔ آج تلک بنی نوع انسان سردی سے بچنے کو صرف کمرے ہی گرم کرتے آئے ہے۔ او افلاطونوں ہیٹر لگانے کا جائز مقام تو لیٹرین ہے۔
بقول یوسفی صاحب "سردی روئی سے جاتی ہے یا دوئی سے" فیملی کیسز لینے میں مشہور میری ایک خاتون وکیل دوست نے بتایا ہے کہ اس سال سرما کا آغاز ہوتے ہی اس کے پاس طلاق کے صرف دو کیسز ہی آئے ہیں۔ اور ابھی تو سرما کا آغاز ہے۔
سردیوں میں نہانا بھی ایک مشن ہوتا ہے۔ گھنٹہ پہلے ذہن کو ریڈی کرنا پڑتا ہے، پھر آہستہ آہستہ ہمت جٹانا پڑتی ہے اور جب وہ سرد لمحہ آ جاتا ہے کہ پانی آپ کے سر پر سے گزر جانا چاہتا ہے، اس لمحے ایسی کپکپی طاری ہوتی ہے جیسے رعشہ کا مریض، نہانے کے بعد سے لے کر کپڑے زیب تن کرنے کے بیچ کے چند لمحات گلیشئر پر گزارے گھنٹوں کی طرح لگتے ہیں۔ کپڑے پہن کر جیکٹ بند کرکے بھی آدھ گھنٹہ تو انسان کا وجود یوں رہتا ہے جیسے خلا میں معلق ہو۔ پھر رفتہ رفتہ زندگی لوٹنے لگتی ہے۔
وزیرآباد میں اتنی سردی تو نہیں پڑتی اور ابھی تو نارمل سا موسم ہے، مگر نجانے پانی کیوں ٹھنڈا برف آتا ہے۔ میں دریائے چناب کنارے محکمہ انہار کے سرکاری بھوت بنگلے میں ٹھہرا ہوں تو شاید پانی سیدھا دریا سے ہی شاور میں آ رہا ہے۔ اس بھوت بنگلے کو انگریز بہادر نے تعمیر کیا اور یہاں کا چوکیدار چاچا بھی ان کی چھوڑی ہوئی نشانی میں سے لگتا ہے۔ گذشتہ شام میں نے جب یہاں قدم رنجہ فرمایا تو چاچا اس وقت خوش باش لگ رہا تھا۔ رات کو اس نے دو عدد لکڑی کے مڑیل سے تنے جلائے اور آگ بھڑکا کے بولا " سر جی لان میں بیٹھنا ہو تو آگ لگا دی ہے۔ " اتنی سردی تو نہیں تھی، لیکن میں پھر بھی اس بھوت بنگلے کے ماحول کو پوری طرح جذب کرنے کی خاطر لان میں چلا گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ صرف دو عدد لکڑی کے پیس ہیں۔ جو ہولے ہولے جل رہے ہیں۔ چاچا بھی بُکل مار کر سامنے آ بیٹھا۔ اس کو الاؤ کہنا تو الاؤ کی توہین ہے، مگر مجھے یہ نہیں معلوم الاؤ کے بچے کو لغت میں کیا کہتے ہیں۔ الاؤ کی روشنی میں وہ پرانی فلموں کا وہ کردار لگ رہا تھا جو حویلی کے سارے راز جانتا ہے اور چلتے پھرتے غائب ہو جاتا ہے۔
میں نے پوچھا " چاچا کب سے نوکری پر ہو؟" چاچے نے دونوں ٹانگیں اوپر اٹھا کر کرسی پر رکھ لیں اور چادر کو غلاف بنا کر اچھی طرح لپیٹ لیا۔ پھر بولا " سنہ 82 توں ایتھے ای آں"۔ یہ سن کر میرے ہوش و حواس اڑ گئے۔ سنہ بیاسی میری پیدائش کا سال ہے اور چاچا تب سے نوکری پر ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اسے کہتا آپ کو اکتالیس سال ہو گئے محکمہ انہار میں تو کیا اس محکمے میں رئیٹائرمنٹ کی حد ساٹھ سال نہیں، وہ دو جلتی لکڑیوں کا الاؤ دم توڑ گیا اور روشنی بجھ کر کوئلے میں ڈھل گئی۔ چاچے کے چہرے پر دہکتے کوئلوں کی سرخ روشنی پڑ رہی تھی اور وہ بنا پلک جھپکے نظریں مجھ پر گاڑے بیٹھا تھا۔ میں فوراً اُٹھ گیا اور تیز قدم چلتا اپنے کمرے میں آ گیا۔ رات خواب میں کبھی بیگم آتی رہی کبھی چاچا اور کبھی سین کٹ ہو کر اچانک موت کے منظر میں بدل جاتا پھر ایسا سین دیکھا جیسے ہیروشیما پر ایٹم بم گرا ہو۔ ڈر کے مارے آنکھ کھُل گئی۔ صبح کے سات بج رہے تھے۔
نہانے کا ارادہ کیا تو میرے رونگٹے ہی کھڑے ہو گئے، ڈر کے مارے شاور بند کر دیا اور چاچا کو ڈھونڈتا بھوت بنگلے کے لان میں آ گیا۔ اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس پانی گرم کرنے والا ہیٹر ہے؟ اس نے میرا منہ یوں دیکھا جیسے میں کراچی سے آیا ہوں۔ پھر چاچا دھیما سا مسکرایا اور بولا " نہیں" میں نے کہا کہ چاچا کسی طرح ایک بالٹی پانی دی ٹھار تے پن کے لیاؤ۔ چاچے نے سگریٹ کا کش مارا اور پھر بولا "نہیں ہو سکدی"۔
چاچا عجب کردار ہے۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہے۔ وزیرآباد کے پانی نے تو چھٹی کا دودھ یاد کروا دیا ہے۔ یہ تحریر چونکہ تازہ تازہ نہا کر لکھ رہا ہوں اس لئے احساسات کی حاشیہ بندی تفصیل کے ساتھ کرنے سے معذرت خواہ ہوں۔ فی الحال زندگی رفتہ رفتہ واپس لوٹ رہی ہے۔ اور مجھے یاد آ رہا ہے کہ آج کچھ ضروری کام بھگتانے ہیں، مگر یہ یاد نہیں آ رہا کہ کونسے۔ دماغ کے خلئیے ابھی منجمد ہیں۔ میں اشنان کرکے ہلکی دھوپ سینکنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ انگلیوں میں جیسے ہی حرارت پیدا ہوئی ہے لکھ دیا ہے۔