Us Ki Aadat Bhi Aadmi Si Hai
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے
ناروے میں پاکستانیوں کی تیسری نسل آباد ہے۔ وہاں پاکستانیوں کے قبرستان بن چکے ہیں۔ تیسری نسل پاکستان سے کافی حد تک کٹ آف ہے۔ ظاہر ہے پہلی دو نسلوں تک ہی دھرتی سے جذباتی رشتہ رہا کرتا ہے تیسری نسل اپنے معاشرے کے مطابق ڈھل جاتی ہے۔ ایک ایسی فیملی میں جانا نصیب ہوا۔ بزرگوار ملے۔ سنہ 68 میں پاک فوج چھوڑ کر ناروے آ بسے تھے۔ اب ان کی تیسری نسل ہے۔
ملاقات کے دوران میں نے پوچھا "آپ سنہ 68 میں آ گئے تھے اس کی کیا وجہ تھی؟ اس زمانے میں پاکستان انڈسٹری لگا رہا تھا۔ گروتھ ریٹ اچھا تھا۔ مستقبل سہانا لگتا تھا۔ پاکستان ایشیاء کی پراگریسو سٹیٹ تھا۔ آپ کو کس سبب ہجرت کرنا پڑی؟"۔ سُن کر ہنسے۔ کہنے لگے "بیٹا جی، میں بائیس سال کا جوان تھا۔ فوج میں سپاہی بھرتی ہوا تھا۔ ایوب خان کو آئے دس سال ہو چلے تھے۔ ایوب کے خلاف تحریک چل رہی تھی اور مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ نیا فوجی حکمران یحییٰ خان آ جائے گا۔ میں نے فوج چھوڑی اور ملک چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا"۔
اتنا کہہ کر چپ ہوئے۔ کچھ سوچتے رہے۔ پھر بولے "بیٹا، جب فوج آتی ہے تو وہ ملک برباد ہو جاتا ہے۔ انڈسٹری کی بات کر رہے ہو، گروتھ کی بات کر رہے ہو، تب ہمارا سانس نکل رہا تھا، آپ نے وہ زمانہ بس کتابوں میں پڑھا ہے ہم نے جیا ہوا ہے۔ پاکستان اگر وقت کے ساتھ بہتر ہوتا تو مجھے بہت پچھتاوا ہوتا اور میں چاہتا تھا کہ مجھے پچھتاوا ہو مگر میرا ملک سیدھی راہ پر چل پڑے۔ ایسا ہوا کیا؟ آپ بتاؤ مجھے کہ مجھے پچھتاوا کیوں ہو؟ آج کے حالات کیا ہیں؟"
پھر چپ کر گئے۔ ان کا بیٹا کمرے میں داخل ہوا جو میرا ہم عمر تھا۔ چالیس سے اوپر کا ہوگا۔ بہت خوش اخلاقی سے ملا۔ پھر بولا "میں دو منٹ میں چائے لاتا ہوں۔ آپ ابو سے باتیں کریں"۔ پھر اپنے والد کو بولا "ابا جی، جذباتی نہیں ہونا۔ آج آپ کو موقع ملا ہے پاکستان کی باتیں کرنے کا"۔ پھر مجھے بولا "ابو بات کرتے جذباتی ہو جاتے ہیں"۔ میں نے ان سے کہا "آپ کی پاکستان کے ساتھ کتنی وابستگی ہے؟ آپ تو یہیں پلے بڑھے ہو؟"۔
جواب آیا "میں یہیں پیدا ہوا، یہیں شادی کی ہے، میرے بچے یہیں پیدا ہوئے ہیں۔ میرا پاکستان ابو کے ساتھ جانا رہا ہے۔ اب بھی دو تین سال بعد ابو کو یاد ستاتی ہے تو میں ان کے ساتھ پاکستان چل دیتا ہوں۔ باقی ابو کو سمجھاتا ہوں کہ جلنا کڑھنا چھوڑ دیں ابو، یہ خبریں سن کر جذباتی ہوتے رہتے ہیں"۔ پھر مسکرا دیا اور چائے بنانے چلا گیا۔
میں نے برزگوار کو کہا "آپ پاکستان کس کے ہاں جاتے ہیں؟ آبائی گھر؟"۔ بولے "آبائی گھر تو بھائی کو دے دیا۔ اس کی فیملی وہاں رہتی ہے۔ میں بھی وہیں رکتا ہوں۔ بس میری عمر کے دو دوست ہی زندہ ہیں ان کے ساتھ چند دن وقت گزارنے چلا جاتا ہوں۔ اب تو چار سال ہو گئے نہیں جا سکا۔ آخری بار کورونا کے دنوں میں وہاں تھا تب لاک ڈاؤن ہوگیا تو میرا قیام طویل ہوگیا"۔
میں نے پوچھا "آپ کے ہم عمر دوست وہاں خوش ہیں؟"۔ بولے " ان کی زمینیں تھیں، کاشتکار لوگ ہیں، کسی طرح گزر بسر کر رہے ہیں۔ اب تو ان کی عمریں بیت گئیں ہیں۔ کچھ حالات ایسے بھی رہے کہ میں ان کی سپورٹ کرتا رہا۔ ان کے بچوں کو یورپ لانے کے لیے سپورٹ دی وہ کوئی جرمنی ہے کوئی سویڈن ہے۔ بچے ان دونوں کے یورپ ہی آ چکے ہیں"۔ میں نے پوچھا "تو آپ کے دوست بچوں نے پاس نہیں آنا چاہتے؟"۔ مسکرا کر بولے "وہ وہیں دفن ہونا چاہتے ہیں"۔ میں نے پوچھا "تو آپ؟"۔ بولے "میں یہاں، ناروے میں عمر گزار دی۔ میرے چار بچے یہاں ہیں، میری شریک حیات یہاں ہے۔ ہمارے پوتے پوتیاں یہاں ہیں۔ جہاں میرا خاندان ہے میں وہیں دفن ہونا چاہوں گا"۔
ان کا بیٹا چائے کے ساتھ لمبے چوڑے لوازمات لے آیا۔ مجھے چائے کا کپ تھماتے بولا "آپ ابو کی باتوں سے بور تو نہیں ہو رہے؟"۔ میں نے کہا بور ہرگز نہیں۔ آپ کے والد دلچسپ گفتگو کرتے ہیں۔ بولا "ہاں مجھ میں جو تھوڑی بہت پاکستانیت زندہ ہے وہ ان کے سبب ہے۔ میرے بچے البتہ پاکستان کو ایک ملک کے طور پر جانتے ہیں اور اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کوئی پڑھا لکھا بچہ کسی بھی ملک کے بارے تھوڑا بہت جانتا ہے۔ ان کا اپنا ملک ناروے ہے"۔
پھر ان کے بچے آ گئے۔ ایک بیٹا اٹھارہ سال کا، بیٹی سترہ سال کی۔ انہوں نے آ کر سلام لی۔ میں نے دونوں سے پوچھا "تو بچو، پاکستان کیسا لگتا ہے؟"۔ بیٹی بولی " اچھا ہے"۔ بیٹا بولا "ناروے زیادہ خوبصورت ہے"۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا "تم دونوں کا کبھی دل نہیں کیا اپنے والد اور دادا کے ملک کو وزٹ کرنے کا؟"۔ دونوں ہم زبان ہو کر بولے "کبھی کرتا ہے، مگر وقت ہی نہیں ہوتا۔ سٹڈیز میں بزی ہیں۔ آپ بتائیں پاکستان کیسا لگتا ہے آپ کو؟"۔
میں نے مسکرا کر موبائل نکالا۔ اپنی کچھ تصاویر اوپن کیں۔ ان دونوں کے بیچ بیٹھ کر ان کو پاکستان دکھاتا رہا اور اس کے بارے بتاتا رہا۔ وہ دونوں بہت خوش ہوئے۔ اتنے خوش کہ اپنے والد اور دادا کو بھی تصاویر دکھاتے رہے۔ پھر بولے "پاکستان بھی کافی اچھا ہے"۔ اچھے سے ان کی مراد شاید یہی تھی کہ خوبصورت ہے۔
وقتِ رخصت میں نے بزرگوار سے سلام لیتے کہا "مجھے ویسے یہ خوشی ہوئی کہ آپ کے پوتے پوتیوں کا ہماری زبان اردو سے تعلق باقی ہے"۔ وہ سب مجھے رخصت کرنے گیراج میں کھڑی گاڑی تک آئے۔ میں گاڑی چلانے لگا تو بزرگوار شیشے کے قریب آ کر دعا دیتے بولے "بیٹا کوئی خوشی سے ہجرت نہیں کرتا۔ تم خیر خیریت سے اپنے بچوں کے پاس پہنچو۔ اگلی بار جب بھی آؤ میرے پاس آنا"۔
گاڑی آگے بڑھ گئی۔ باہر دھند اُتر چکی تھی۔ مسافر دھند میں ڈوب گیا۔ باقی راہ میرے دھیان میں انگنت پاکستانی میزبان آتے رہے جو اس سارے سفر میں مجھے ملے تھے۔ میرے پاس تو ان سے پوچھنے والے انگنت سوالات تھے جو میں ان سے پوچھتا رہا تھا مگر ان سب کے پاس مجھ سے پوچھنے والا ایک ہی مشترکہ سوال تھا "آپ پاکستان کیوں نہیں چھوڑتے"۔ گاڑی میں جگجیت کی آواز گونج رہی تھی۔
وقت رہتا نہیں کہیں ٹِک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے