Umar Ke Tajurbe
عمر کے تجربے
انسان اپنی عمر کے تجربے اور خود پر بیتنے والے حالات و واقعات سے سیکھتا ہے۔ پھر غلطیوں کی نشاندہی کرکے آگے بڑھتا ہے۔ یہی ارتقاء کا پراسس ہوتا ہے۔ مگر کبھی کبھی مجھے لگتا ہے، میاں نواز شریف صاحب ماٹی کے وہ پُتلے ہیں، جن میں روح ابھی داخل ہی نہیں ہوئی۔ موجودہ حالات میں وہ پھر سے اقتدار کی سیڑھی چڑھ رہے ہیں مگر کس قیمت پر؟ پھر انہی راستوں اور انہی چور دروازوں سے۔۔ پھر وہی منزل ہوگی۔
تین بار ان پر جو گزری وہ تو چھوڑئیے، اگر خود سے نہیں تو انسان دوسروں کے حالات سے ہی سبق حاصل کر لیتا ہے۔ زیادہ دور کی بات تو نہیں، ماضی قریب میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تھی۔ اس حکومت اور اس کے چاہنے والوں نے بوٹ چمکانے میں کوئی کسر چھوڑی تھی؟ کیا کچھ نہیں کیا تھا کیسی کیسی خدمات "صاحب" لوگوں کے واسطے پیش نہیں کیں تھیں؟ ایک پوری نسل ففتھ جنریشن وار لڑنے میں دن رات مصروف تھی۔
ایک پوری حکومت "آلہ کار" بنی ہوئی تھی۔ خارجہ امور تا داخلہ سب کچھ صاحب لوگوں کے حوالے تھا۔ صبح تا شام ترانے گونجتے تھے۔ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے جاتے تھے۔ جو اس ہائبرڈ نظام پر سوال اُٹھاتا وہ اُٹھا لیا جاتا۔ مقننہ سے پِیکا ایکٹ پاس ہوتا رہا، ایکسٹینشن بِل لایا گیا۔ سرِ آئینہ عمران خان تھے پسِ آئینہ کوئی اور تھا۔۔ اور پھر کیا انجام ہوا ان کا؟ ان سے زیادہ "سروس" کوئی دے پایا؟ تو پھر کہاں گے وہ؟ کاندھوں پر سوار ہو کر حاصل کردہ اقتدار کی بہت بھاری قیمت چکانا ہوتی ہے۔ وہ اب چُکا رہے ہیں۔
پی ڈی ایم حکومت میں نون لیگ کو کیا ملا ہے؟ کس قیمت پر ملا تھا؟ ووٹ بینک ہی قربان کرنا پڑا۔ اس کا اعتراف خود میاں صاحب کر چکے کہ پی ڈی ایم حکومت کی وجہ سے ہم نے اپنا ایسٹ (ووٹ) قربان کیا ہے۔ عمران خان صاحب وزیراعظم تھے۔ جب صاحب لوگوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اس "کھلونے" سے اب دل بھر گیا ہے مستقبل کی پلاننگ کرنا چاہئیے تو انہوں نے کراچی میں تقسیم ایم کیو ایم کو "میجک بونڈ" لگا کر متحد کرنا شروع کیا۔ اس وقت جب یہ سب ہو رہا تھا میں نے مفصل تحریر لکھی۔ جس کا لب لباب یہی تھا کہ متحدہ کو متحد کرنے کا جو عمل شروع ہوا ہے اس میں سہولت کاری کا کام کرنے والوں نے کوئی نیا لائحہ عمل تیار کر لیا ہے اور یہ شاید مستقبل میں عمران خان کو فکس کرنے کا منصوبہ ہو۔ مگر تب کون سنتا تھا۔ تب تو جواباً ٹائیگر فورس سے گالیاں سننا پڑیں۔
آج کے منظرنامے میں وہی متحدہ ہے۔ میاں نواز شریف صاحب کو اگلوں نے ہاتھ پاؤں باندھ کر اتحادی حکومت کی جانب دھکیل دیا ہے۔ متحدہ بطور "بی ٹیم" حکومت کا اہم حصہ بننے جا رہی ہے۔ میاں صاحب کو ایسا اقتدار مبارک ہو۔ آپ کی سیج چوتھی بار سجائی جا رہی ہے۔ مگر یہ شادی بھی کانٹریکٹ میرج ہے جو اپنی مدت معیاد مکمل کرنے پر ختم ہو جائے گی۔ میاں صاحب نے اب اس بوجھ کو ڈھونا ہے۔ دیکھئے کب تلک ڈھو پاتے ہیں۔ اور پھر فارغ ہونے تک نہ ووٹ بینک رہے گا نہ مستقبل میں بال بچوں کا "حصہ" رہے گا۔
آپ ایک ہی راہ بار بار چُنتے ہیں تو وہ اسی منزل پر پہنچتی ہے جہاں پہلے پہنچی تھی۔ اس ملک کا مستقبل صرف و صرف ایک ہی راہ سے وابستہ ہے۔ اور وہ یہ کہ تمام سٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ایک راہ منتخب کریں۔ کسی کا "آلہ کار" نہ بنیں۔ ایک میثاق کریں۔ دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں اور اس کا احترام کریں۔ وگرنہ یہی ہوتا رہے گا کہ ایک کے واسطے چور دروازے کھُلیں گے دوسرے کے لیے بند اور پھر دوسرے کے لیے کھُلیں گے تو تیسرے کے لیے بند۔ یہ نری سرکس ہے۔ آپ اسے کوئی بھی خوشنما سا نام دے دیجئیے مگر اسے "جمہوریت" کہہ کر جمہور کے انٹلیکٹ کی توہین تو نہ کیجئیے۔
چلتے چلتے کہتا چلوں کہ اس انتخابی دیگ میں سب سے زیادہ اچھی بوٹی پیپلز پارٹی لے اُڑی ہے۔ زرداری صاحب کی سیاست کامیاب رہی ہے۔ سندھ و بلوچستان سمیت مرکز میں بھی وہ کنگ میکر ہیں۔ صرف و صرف پیپلز پارٹی ہی واحد جماعت رہی جس نے کچھ "لوز" نہیں کیا بلکہ زیادہ سے زیادہ حاصل کیا ہے۔ آنے والی اتحادی حکومت میں وہ حصہ دار بنتی ہے تو بھی فرنٹ فیس نون لیگ کا ہی رہے گا اور حکومت کی ناکامی کی صورت میں زیادہ بدنامی نون لیگ ہی اُٹھائے گی۔
باقی میں دیکھ رہا تھا کہ تحریک انصاف دعویٰ کر رہی ہے کہ فارم 45 ان کے پاس موجود ہیں جن کی بنیاد پر وہ 170 نشستیں جیت چکی ہے۔ قانونی راہ اختیار کریں گے یعنی الیکشن ٹریبونل میں کیسز فائل کریں گے۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ الیکشن ٹریبونل چھوڑ وہ سپریم کورٹ تک چلے جائیں۔ سسٹم اپنا کام دکھا چکا ہے اور یہ بدلنے والا نہیں۔ جنہوں نے لانا ہوتا ہے وہ لے آئے ہیں۔ نظام اب کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ جو دُھن بجا دی گئی ہے، اسی تال پر سب ناچیں گے۔ الیکشن ٹریبونل میں فیصلے سال ہا سال ملتوی رہتے ہیں۔
منو بھائی کی ایک نظم ہے۔ اس سارے منظر نامے اور ایسی "جمہوریت" پر یاد آ گئی ہے۔ جس کو دیکھتے اور بھگتتے میں اکتالیس سال کا ہوگا۔ دائرے کے سفر سے نکل ہی نہیں پائے۔ رپیٹ ٹیلی کاسٹ چلتا رہتا ہے۔
کیہ ہویا اے؟
کجھ نئیں ہویا
کیہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا
کیہ ہوسکدا اے؟
کجھ نہ کجھ ہوندا ای رہندا اے
جو تُوں چاہنا ایں، او نئیں ہونا!
ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے
سُکھ لئی دُکھ وی جھلنا پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون لئی مرنا پیندا اے