Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Turk Dukandar Bhai

Turk Dukandar Bhai

تُرک دکاندار بھائی

تُرک دکاندار بھائی بھی ماشااللہ پکے مسلمان بھائی ہیں۔ بُرصہ میں گرینڈ جامع مسجد ہے جو صدیوں قبل تعمیر کی گئی۔ اسے ترک زبان میں اُولو چامی کہا جاتا ہے۔ یہ عثمانی سلطان بایزید اول نے سن 1399 میں تعمیر کروائی۔ اُولو چامی کے باہر تسبیح، جائے نماز، حج کے واسطے احرام اور اسی نوعیت کے سامان کی دکانیں ہیں۔ چلتے چلتے ان دکانوں کے باہر ٹنگی تسبیحوں پر نظر پڑی تو خیال آیا کہ میرے ایک ہی بزرگ حیات ہیں۔

نانا ابو۔ وہ پکے نمازی ہیں۔ ان کے واسطے ایک خوبصورت سی تسبیح مل جائے تو ان کو تحفہ دے دوں۔ ایک دکان میں داخل ہوئے۔ دکان تسبیحوں سے سجی ہوئی تھی۔ بہت خوبصورت تسبیحیں نظر آئیں۔ لکڑی سے بنیں، قیمتی پتھر سے بنیں، مصنوعی پتھر سے بنیں اور شیشےسے بنیں ہوئیں۔ ایک تسبیح مجھے پسند آئی تو میں نے دکاندار سے اس کی قیمت پوچھی۔

دکاندار درمیانی عمر کا ترک تھا۔ یہی لگ بھگ پینتالیس سال کا ہو گا۔ اس کی انگریزی بولنے کی صلاحیت ٹھیک تھی۔ شاید سیاحوں کو ڈیل کر کے بہتر ہو گئی ہو۔ خیر، اس سے تسبیح کی قیمت پوچھی تو اس نے وہ تسبیح شیشے کے نیچے سے نکال کر سامنے پھیلا دی اور بولا"پیارے مسلم بھائی، چار ہزار ڈالرز"مجھے لگا کہ مجھے سننے میں مغالطہ لگا ہے۔ میں نے حیران ہوتے پھر سے پوچھا کہ کیا قیمت ہے؟ بولا " چار ہز ار ڈالرز۔

دراصل یہ تسبیح نادر نمونہ ہے یعنی انٹیک پیس ہے۔ یہ عثمانی سلطنت کے وزیر کی تھی(اس نے کوئی نام بھی لیا تھا جو مجھے اب یاد نہیں)۔ چار سو سالہ قدیم تسبیح ہے۔ عقیق یمنی سے بنی ہوئی ہے۔ اس لئے اس کی قیمت جو بتائی وہی ہے"۔ میں نے پھٹی ہوئی آنکھوں سے تسبیح کو یوں دیکھا جیسے کنوارا شادی کی رات اپنی دلہن کو دیکھتا ہے۔

میرے ذہن میں فوری ایک بات گردش کرنے لگی کہ اگر یہ ایسی ہی نادر تسبیح ہے یعنی اتنا قدیمی انٹیک پیس ہے تو یہ برصہ کے بازار کی ایک معمولی سی دکان میں بکنے کو کیسے موجود ہے۔ میں فوری اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ یہ ترک دکاندار ماشااللہ سے مسلمان ہے۔ میں نے اسے کہا " اچھا! یہ انٹیک پیس ہے۔ تو کیا آپ کے پاس اس کا کوئی ریکارڈ موجود ہے جو آپ کے دعویٰ کو ثابت کرتا ہو یا کوئی سرٹیفکیٹ یا سند اس کی حقانیت بارے یا اس کی عمر بارے؟ انٹیک پیسز کا تو مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے"۔

ترک نے سن کر ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ وہ سمجھ گیا کہ اگلا بندہ بھی پکا مسلمان ہے لہذا تصدیق پوری کرے گا۔ اس نے تسبیح اٹھائی اور مجھے کہنے لگا"یہ دیکھو، غور سے دیکھو، اس کے آخر میں جو چاندی کا جھومر ہے اس جھومر پر کلمہ لکھا ہوا ہے اور وہ کلمہ گھِس چکا ہے، اس کے دانے دیکھو وہ بھی قدرے گھِسے ہوئے معلوم ہوں گے۔ اگر یہ پرانی نہ ہوتی تو اس حال میں ہوتی؟"۔ میں نے دیکھا کہ تسبیح کے سرے پر ایک چاندی کی ٹکیہ تھی جس پر درج عبارت گھِسی ہوئی تھی۔

میں نے ہنستے ہوئے اسے کہا " مسلم برادر، اگر یہی دلیل ہے تو توں فیر ہجے پاکستانی حاجی دکاندار نئیں ویکھے۔ توں پاکستان آ تینوں اونہاں نال ملاواں "۔ یہ کہہ کر میں چلنے لگا۔ وہ مجھے چ جیسا ہی کچھ سمجھ رہا تھا یا شاید اس کو سچ میں میری صورت بھولی لگی ہو گی۔ چلنے لگا تو اس نے آواز دی " ناراض ہو کر نہ جاؤ مسلم کارداش، چلو تمہارے لئے آدھی قیمت پر دے دیتا ہوں کیونکہ تم سچے نیک انسان معلوم ہوتے ہو۔

یقین مانو خدا دیکھ رہا ہے۔ یہ بہت نایاب تسبیح ہے۔ دو ہزا ر ڈالرز میں دے سکتا ہوں وہ بھی صرف تمہارے لئے"۔ میں نے سن کر قہقہہ لگایا اور اسے جواب دیتے دکان سے نکل لیا"مسلم کارداش! کہا ناں تم نے ابھی پاکستانی نہیں دیکھے۔ میں پاکستانی ہوں۔ اور الحمدللہ تمہارے جیسا سچا نیک مسلمان بھی ہوں "۔

Check Also

Dushnam Tarazi Aur Haqaiq

By Hameed Ullah Bhatti