Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Tu Do Takkay Ka Bhi Nahi

Tu Do Takkay Ka Bhi Nahi

تو دو ٹکے کا بھی نہیں

پاکستان نے جب اپنے دوسرے بازو پر خود ہی آپریشن کا آغاز کر دیا تو پھر یہ بات طے تھی کہ یا تو سرجری سے بازو ٹھیک ہو جائے گا یا پورا ہی کٹ جائے گا۔ جب آپریشن جبرالٹر کر چکے اور خمیازے میں 1965 کی جنگ بھی لڑ چکے تو پھر دشمن نے وقت سے فائدہ اٹھانا تھا۔ مکتی باہنی کو سپورٹ انڈیا نے کیا اور پاکستان نے جماعت اسلامی کے مسلح گروپ "البدر الشمس" کو کھلا لائسنس جاری کیا۔ دھونس، دھمکی، قتل و غارت کا لائسنس تا کہ بنگالی جن کی پہچان ایک ڈرپوک قوم کی سی تھی وہ مزاحمت چھوڑ دیں۔ سقوطِ ڈھاکہ اصل میں وہ داغِ ندامت ہے جسے نسلوں کو چاٹنا ہے۔

ہم نے اس سے کیا سیکھا؟ رتی برابر کچھ نہیں! حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ سترہ سال تک دبائی گئی۔ نجانے کیسے ہندوستان ٹائمز کے ہاتھ لگی اور انہوں نے پبلک کر دی۔ یہ محاورہ کہ دودھ کا جلا چاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، اہلِ پاکستان پر صادق نہیں آتا۔ یہ لوگ دودھ کے نہیں چاچھ کے جلے ہیں۔ یہاں کمیشن لینے کا چلن تو ہے لیکن کمیشن کی رپورٹ شائع کرنے کا زیادہ رواج نہیں۔ بھلے وہ ایبٹ آباد کمیشن ہو کہ جبری گمشدگیوں کے اسباب و ذمہ داروں کا تعین کرنے کا کمیشن!

شیخ مجیب کو آپریشن کے بعد ڈھاکہ سے ساہیوال جیل اور پھر لائل پور منتقل کیا گیا جہاں انہیں لائل پور ٹیکسٹائل مل کے ایک کوارٹر کے تہہ خانے میں رکھا گیا۔ اس پر ملک دشمنی اور بغاوت کے جرم میں مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا۔ شیخ مجیب نے ٹریبونل کا بائیکاٹ کیا۔ مگر ان کی جانب سے اے کے بروہی کو سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔

یہ ٹریبونل کب ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا، اس میں کیا کارروائی ہوئی، اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ بس اتنا ہوا کہ 20 دسمبر کو بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا اور دس جنوری 1972 کو ایک خصوصی پرواز سے شیخ مجیب الرحمان اور ڈاکٹر کمال حسین کو لندن روانہ کر دیا گیا جہاں سے وہ براستہ دلی ڈھاکہ پہنچ گئے۔

فروری 1974 میں شیخ مجیب الرحمان کو لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اہلِ پاکستان نے آخری بار محبِ وطن یا غدار کے بجائے ایک آزاد ملک کے وزیرِ اعظم کے روپ میں بھٹو صاحب کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھا۔ اس کے بعد سے باقی ماندہ پاکستان کی تاریخ میں سے مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش کا تذکرہ بھی کہیں غروب ہوگیا۔ باقی رہ گئی حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ۔۔

26 دسمبر کو حکومت نے چیف جسٹس حمود الرحمان، جسٹس انوار الحق، جسٹس طفیل علی عبدالرحمان اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایا جس نے تین سو سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد رپورٹ پیش کی۔ کمیشن نے درج ذیل افسروں کا ٹرائل یعنی کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی۔

جنرل یحییٰ خان: سقوط مشرقی پاکستان کے وقت وہ صدر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، وزیر دفاع و خارجہ تھے۔ بھٹو حکومت نے انہیں گھر میں نظربند رکھا۔ جنرل ضیا الحق نے ان کی نظربندی ختم کر دی۔ دس اگست 1980 کو اپنے بھائی محمد علی کے گھر میں انتقال ہوا اور آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔

جنرل عبدالحمید خان: یحیٰی خان کے ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔

لیفٹننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ: صدر کے پرسنل سٹاف آفیسر اور ناک کا بال تھے۔ وہ بھٹو اور یحییٰ کے درمیان رابطے کا مبینہ پل سمجھے جاتے تھے۔

میجر جنرل گل حسن: سقوط ڈھاکہ کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ تاہم بھٹو حکومت نے انہیں برطرف کرنے کے بجائے لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کردیا۔ اگرچہ کمیشن نے گل حسن پر بھی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی تاہم بھٹو حکومت نے انہیں آسٹریا میں سفیر مقرر کر دیا!

گل حسن پاکستان کے آخری کمانڈر انچیف تھے۔ ان کے بعد اس عہدے کو چیف آف آرمی سٹاف سے بدل دیا گیا۔ انہیں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔

میجر جنرل غلام عمر: نیشنل سکیورٹی کونسل میں یحیٰی خان کے نائب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے۔ اس زمانے میں فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ بریگیڈیر ریٹائرڈ اے آر صدیقی کے بقول لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع ہوئے۔ ضیاء الحق کے دور میں وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیرمین رہے۔

میجر جنرل اے او مٹھا: کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں پچیس مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ کی ٹکنیکل پلاننگ میں حصہ لیا۔ 1999 میں لندن میں انتقال ہوا۔ جنرل مٹھا نے ہی آرمی کے ایس ایس جی کمانڈو یونٹ کی بنیاد رکھی۔ انہیں آخری تعزیتی سلامی بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے ہی دی۔۔

لیفٹننٹ جنرل ارشاد احمد خان: 71 کی جنگ میں یہ ون کور کے کمانڈر تھے۔ جس کے کمانڈ ایریا میں کنٹرول لائن سے سیالکوٹ تک کا دفاع شامل تھا۔ کمیشن کی سماعت کے دوران الزام لگا کہ انہوں نے شکر گڑھ کے پانچ سو دیہات بلا مزاحمت دشمن کے حوالے کر دیے۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔

میجر جنرل عابد زاہد (کمانڈر 15 کور): ان کے پاس سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری تھی۔ الزام لگا کہ انہوں نے سیالکوٹ سیکٹر میں پھکلیا کے علاقے میں 98 گاؤں بغیر مزاحمت کے چھوڑ دیے اور جب جنگ بندی ہوئی تو بھارتی دستے مرالہ ہیڈورکس سے ڈیڑھ ہزار گز کے فاصلے پر تھے۔

میجر جنرل بی ایم مصطفی (کمانڈر 18 کور): ان کا ٹارگٹ ایریا راجھستان سیکٹر تھا۔ ان پر الزام لگا کہ رام گڑھ کی جانب بغیر منصوبہ بندی کے عجلت میں پیش قدمی کے فیصلے سے بھاری نقصان ہوا۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔

لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی: جنرل نیازی جب ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ بنائے گئے اس وقت تک وہ فوج کے سب سے زیادہ ڈیکوریٹڈ سولجر مانے جاتے تھے۔ کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں نے جنرل نیازی پر اخلاقی بے راہروی اور پان کی سمگلنگ کے الزامات بھی عائد کیے۔ میجر جنرل راؤ فرمان علی نے کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے جنرل نیازی سے یہ فقرے بھی منسوب کیے کہ "یہ میں کیا سن رہا ہوں کہ راشن کم پڑ گیا۔ کیا سب گائے بکریاں ختم ہوگئیں۔ یہ دشمن علاقہ ہے۔ جو چاہتے ہو لے لو۔ ہم برما میں ایسے ہی کرتے تھے"۔

میجر جنرل محمد جمشید (کمانڈر 36 ڈویژن): ان کے ڈویژن کو ڈھاکہ کا دفاع کرنا تھا۔ ان پر حمود الرحمان کمیشن نے پانچ فرد جرم عائد کیں۔ جن میں غبن، لوٹ مار اور ماتحتوں کی جانب سے نیشنل بینک سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے لوٹنے جیسے الزامات بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 16 دسمبر کے بعد ان کی اہلیہ کے قبضے سے خاصی کرنسی برآمد ہوئی۔ پاکستان واپسی کے بعد رئیٹائر ہو کر گوشہ نشین ہو گئے۔

میجر جنرل ایم رحیم خان (کمانڈر 39 ڈویژن): ان کا ڈویژن چاند پور میں متعین تھا۔ پسپائی اختیار کرتے ہوئے 13 دسمبر کو ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر برما کے علاقے اراکان میں اتر گئے۔ مگر قسمت مسلسل یاوری کرتی رہی۔ سیکرٹری جنرل وزارت دفاع اور چیرمین پی آئی اے رہے۔ الشفا آئی ٹرسٹ کے وائس پریذیڈنٹ رہے۔

بریگیڈیر باقر صدیقی (چیف آف سٹاف۔ ایسٹرن کمانڈ): وہ ڈھاکہ کے تحفظ کے ذمہ دار افسروں میں سے ایک اور جنرل نیازی کی ناک کا بال تھے۔ ان پر الزام ہے کہ دس دسمبر کو جب جی ایچ کیو نے یہ احکامات جاری کیے کہ پسپا ہونے والے دستے اپنے آلات اور رسد کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑیں تو باقر صدیقی نے اس ڈنائل پلان پر عمل نہیں کیا۔ بریگیڈیر باقر صدیقی کو بعد ازاں ملازمت سے برطرف کردیا گیا لیکن پھر مختصر عرصے کے لیے بحال کرکے باعزت ریٹائر کیا گیا۔ کچھ عرصے پی آئی اے شیور کے بھی سربراہ رہے۔

بریگیڈیر محمد حیات (کمانڈر 107 بریگیڈ۔ 39 ڈویژن): ان کا بریگیڈ جیسور سیکٹر کا ذمہ دار تھا۔ وہ 6 دسمبر کو ہی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے اور پوری سپلائی اور اسلحہ دشمن کے ہاتھ لگا۔ بعد ازاں ریٹائر کر دیا گیا۔

بریگیڈیر محمد اسلم نیازی (کمانڈر 53 بریگیڈ، 9 ڈویژن): ان کا بریگیڈ لکشم کے علاقے میں تعینات تھا۔ وہ 9 دسمبر کو ایک سو چوبیس بیمار اور زخمی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے اور سارا راشن اور ایمونیشن دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔

بریگیڈیر ایس اے انصاری (کمانڈر 23 بریگیڈ): ان کا نام ان ایک سو پچانوے افراد کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جن پر حکومت بنگلہ دیش جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔

بریگیڈیر عبدالقادر خان (کمانڈر 93 بریگیڈ۔ 36 ڈویژن): خان صاحب فوج میں مونچھوں کے سبب زیادہ مشہور تھے۔ ان کی ذمہ داریوں میں محب وطن اور غیر محب وطن بنگالیوں کی سکریننگ بھی شامل تھی۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔

ڈھاکہ ڈوبا، اس نے ڈوبنا ہی تھا۔ پٹ سن اور چاول پیدا کرنے والی زمین آج ہم سے بہتر حالات میں ہے، اکانومی سے لے کر تعلیم تک۔ کسی نے طاقت کے نشے میں شیخ مجیب کو کہا تھا "اوئے سن! تو دو ٹکے کا بھی نہیں"۔ اور آج ہم ایک ٹکے کے ڈھائی ہیں (ایک بنگالی ٹکا= ڈھائی پاکستانی روپے)۔

کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کہنا کسے ہے۔ "ہم کہ ٹھہرے اجنبی۔۔ "

Check Also

X-Wife Ki Tareef Kaise Ki Jaye

By Mohsin Khalid Mohsin