Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Tarasheedam, Parasteedam, Shikastam

Tarasheedam, Parasteedam, Shikastam

تراشیدم، پرستیدم، شکستم

ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ساٹھ فیصد لٹریچر ویسا ہی ہے جس نے قوم کو لاشعوری طور پر مذہبی و سماجی جنونی بنایا ہے۔ ہماری نسل کی قسمت دیکھیئے کہ آنکھ کھولتے ہی نسیم حجازی مل گئے، لڑکپن جعلی صوفی ازم کا پرچار کرتے ادیبوں کی نذر ہوا، جوانی حلال و حرام محبت کا سبق سکھاتے لکھاری کھا گئے اور جب حقیقی شعور آیا کہ آج تک جو لکھا پڑھا سب کھوٹے سکوں جیسا تھا تو زندگی کاوشِ روزگار میں مصروف ہوگئی۔

تاریخ کو توڑنے مروڑنے اور جنت و جہاد کی راہ دکھانے کا ٹھیکہ نسیم حجازی کو دیا گیا۔ حجازی صاحب نے ایمان پرور حسیناؤں کا کافرانہ حُسن یوں ناولوں میں کھینچا کہ حور بھی شرما جائے۔ دوجی جانب جنگجو ہیرو کی زلفیں و داڑھی دراز کرتے رہے۔ ابن انشاء نے ان کے بارے اشاریوں کنایوں میں کہا تھا" آپ کو کونسا ناول چاہئیے؟ 35 فیصد رومانس اور 65 فیصد غلط تاریخ والا یا 65 فیصد رومانس اور 35 فیصد غلط تاریخ والا"۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ لکھاریوں نے ہر سمت سے قوم کی جمالیاتی حِسوں پر حملے کیئے۔۔

ہماری ایک پوری نسل رجعت پسند بنائی گئی ہے۔ ان کی جمالیاتی حِس کے ساتھ سوچنے، سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت کو بڑی محنت سے تباہ کیا گیا ہے۔ قدرت اللہ شہاب اینڈ کمپنی یعنی اشفاق احمد، ممتاز مفتی، اور بعد ازاں بابا یحیی خان وغیرہ کو ریاست یعنی اس زمانے کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا اور یہ استعمال ہوتے رہے۔ ریاست نے ان کو ریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسے اکلوتے ذرائع ابلاغ کے فورمز کھل کر فراہم کیے اور میگزین و ادبی رسالوں میں کھل کر چھپوایا گیا تا کہ قوم کے بھیجہ میں"اللہ ہو اللہ ہو" ڈال کر ان کی سوچ کو اتنا رجعت پسند بنا دیا جائے کہ قوم اہم ملکی اموار پر نہ سوچے نہ احتجاج کرے۔ ریاست کے خلاف آواز اٹھانے کی ممانعت، ہر حال میں صبر شکر کرکے ریاستی پالیسیوں پر آنکھیں بند کیئے رکھنے اور عورت کو تیسرے درجے کی مخلوق بنانے کے باب میں کھل کر تبلیغ کی گئی اور خود ساختہ صوفی ازم کا پرچار کیا گیا۔

قدرت اللہ شہاب نے اشفاق احمد اور ممتاز مفتی سمیت اپنے حلقہ احباب کو جو ان کی ٹی سی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے ریڈیو و دیگر محکموں میں سرکاری نوکریاں دیں۔ شہاب صاحب نے صدر ایوب خان سے قربت اور ذاتی مراسم کا فائدہ اٹھایا۔ صدر ایوب خان کے پرسنل سیکریٹری اور بعد ازاں پریس سیکریٹری رہے۔ اس زمانے کی اسٹیبلشمنٹ میں قدرت اللہ شہاب کا ڈنکا بجتا تھا۔ نوکری انہوں نے ابن انشا کو بھی دی اور انشا کو اپنے ہم خیال گروپ میں شامل کرنے اور اس سے اپنے مطلب کا کام لینے کی بھی کوشش کرتے رہے مگر انشا نے اس خاص گروپ سے ایک خاص فاصلہ رکھا اور ڈپلومیسی سے کام لیتے ہوئے اپنے فن کو کسی کے زیر اثر لانے سے بچاتا رہا۔۔

بانو آپا نے راجہ گدھ لکھا تو اشفاق صاحب کو اس کے مواد پر اعتراض تھا چنانچہ انہوں نے راجہ گدھ کے مواد کی کافی کانٹ چھانٹ کی۔ بانو آپا اچھی بیوی کی طرح بتاتی رہیں کہ اشفاق صاحب نے راجہ گدھ پر نظر ثانی کرکے اسے کامیاب ناول بنا دیا ورنہ شاید میں اتنا بہتر نہ لکھ سکتیں پر درحقیقت اس ناول کے وہ باب کاٹے گئے جو انہوں نے پیچیدہ انسانی نفسیات و جنس کے باب میں کھل کر لکھے تھے۔

قدرت اللہ شہاب کے بنائے پلیٹ فارم "رائٹرز گلڈ" کو ریاستی سپورٹ دی گئی اور جو جو "رائٹرز گلڈ" کے حلقہ احباب میں نہیں آیا اسے ذلیل کیا گیا۔ کئی قابل لکھاری اس زمانے میں پست پشت ڈالے گئے اور ان کی خوب حوصلہ شکنی کی گئی۔ قوم کو بس چار "بابوں" یا "صوفیوں" کے پیچھے ہی لگایا گیا۔

ساری عمر سرکاری سکولوں کا ٹیمپرڈ جعلی نصاب و تاریخ، نسیم حجازی ٹائپ لکھاریوں کی کتابیں اور نوائے وقت اخبار پڑھتے آئے۔ مطالعہ وسیع کیا تو معلوم ہوا کہ دنیا وہ نہیں جو ہمیں بتائی پڑھائی جاتی رہی ہے۔ اکثر حیرت کا بت بنے سوچتا ہوں کہ ہم پاکستانیوں کو کس قدر چالاکی سے جاہل مطلق بنایا اور رکھا جاتا ہے۔ اک خاص انداز سے ایسے ذہن سازی کی جاتی ہے کہ بندہ ایک لیول سے آگےسننے، سوچنے، سوال کرنے کو گناہ سمجھتا ہے۔ حقائق کو پرکھنا، ماننا پسند ہی نہیں کرتا ہے۔

یوسفی صاحب نے لکھا "کھلونا ٹوٹنے سے اچانک بچے نے روشنی کی طرف دیکھا تو آنسوؤں میں دھنک جھلمل جھلمل کرنے لگی تھی۔ پھر وہ سسکیاں لیتے لیتے سو گیا تھا۔ وہی کھلونا بڑھاپے میں کسی جادو کے زور سے اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو وہ بھونچکا رہ جائے کہ اس کے ٹوٹنے پر بھی بھلا کوئی اس طرح جی جان سے روتا ہے۔ "

یہی حال ان کھلونوں کا ہوتا ہے جن سے آدمی زندگی بھر کھیلتا رہتا ہے۔ ہاں، عمر کے ساتھ یہ بھی بدلتے اور بڑے ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ کھلونے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ کو دوسرے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ کھلونے پروموٹ ہو کر دیوتا بن جاتے ہیں اور کچھ دیویاں پھر ایک ابھاگن گھڑی ایسی آتی ہے جب انسان ان سب کو توڑ دیتا ہے۔ اس گھڑی وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔۔ تراشیدم، پرستیدم، شکستم۔۔

ٹوٹا تو میں اس وقت تھا جب کنوئیں کے مینڈک نے کنوئیں سے باہر نکل کر دُنیا دیکھی۔ سمندر جتنی وسیع دُنیا جو اس کو پڑھائی گئی کتابوں سے یکسر مختلف تھی۔ یہ دلیل، شعور اور سوال اُٹھانے کی دنیا تھی۔ میں ایسے بازار میں کھڑا تھا جہاں کرنسی بدل چکی تھی۔ اور پھر مطالعے، مشاہدے اور سفر کی جبلت نے مجھے پہلے مکمل مسمار کیا اور پھر نئے ڈھب سے تعمیر اُٹھائی۔ سارے دیوی دیوتا اور کھلونے خود ہی ٹوٹ گئے۔

آپ اپنے گھر کی بیٹھک، اپنے روزمرہ کے ملنے والوں، دوستوں کے حصار، اپنے شہر کی حدود، اپنے صوبے کی حدود، اپنے ملک کی سرحد سے باہر نکل کر دنیا کو دیکھیں۔ مختلف رنگ و نسل و مذاہب کے لوگوں سے ملیں۔ مختلف زمان و مکان میں سفر کریں۔ مختلف خطوں میں بسنے والے انسانوں کی تہذیب و تمدن کا مشاہدہ کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ دنیا وہ نہیں جو گھر کی بیٹھک سے نظر آتی تھی۔ دنیا وہ نہیں جو ارد گرد کے ملنے والوں نے دکھائی تھی۔ دنیا وہ نہیں جو ہمیں تھمائے گئے مخصوص لٹریچر اور ہمارے ماتھے منڈھے گئے اسٹیبلشمنٹ کے من پسند بابوں نے دکھائی تھی۔ دنیا تو دنیا حتیٰ کہ مذہب بھی وہ نہیں جو گھُٹی میں گھوٹ کر پلایا گیا تھا۔ جو محلے کی مسجد کے مولوی نے سکھایا تھا۔ نہ ہی وہ ہے جو یوٹیوب پر فلاں سکالر نے تعلیم کیا ہے۔ انسان جب تک ایک دائرے کے سفر میں رہتا ہے وہ وہی دیکھتا ہے جو دائرے کے اندر اسے دکھائی پڑتا رہتا ہے۔ آپ خلا سے زمین کو دیکھنا سیکھیں گے تو پھر آپ سوچ و فکر میں مبتلا ہو کر زمین سے خلا کو ہی گھورتے رہیں گے۔

میں سمجھتا ہوں کہ جو آج تلک کنوئیں کے مینڈک ہیں اور تمام عمر اسی حصار میں بسر کر رہے ہیں وہ اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔ ان کی بصارت، سوچ و فکر بھی ٹھیک ہے۔ ہر ایک کا جو بابا ہے وہ اس نے آگے رکھنا ہے۔ ہر ایک کا جو قائد ہے وہی معصوم عن الخطا ہے۔ شاید میں یکسر بدل چکا ہوں اور شاید اسی سبب میں سماج و سماجی افکار سے بیزار ہوں۔

کمالِ شوق کا حاصل یہی ہے

ہمارا شہر سے بیزار ہونا

Check Also

Siyah Heeray

By Muhammad Ali Ahmar