Sir Tusi Kithe Chale Gaye Sao
سر تسی کتھے چلے گئے سو
بہاولنگر ایسا ہی ہے جیسے باقی چھوٹے شہر ہوتے ہیں۔ سر شام ہی بجھ جاتے ہیں۔
ہر شہر میں دو باتیں مشترک ہوتی ہیں۔ کم سے کم پنجاب کی حد تک۔ ایک تو ایسا چوک ضرور ہوتا ہے۔ جس میں پلاسٹر آف پیرس سے بنا دیو ہیکل گھوڑے کا مجسمہ ٹانگیں اٹھائے کھڑا ہوتا ہے۔ چونکہ اسلامی جمہوریہ ہے، لہذا گھوڑے کا نچلا حصہ فنکار نے ایک دم قومی شعور کی مانند فلیٹ بنایا ہوتا ہے تا کہ بے حیائی پھیلنے کا خدشہ نہ رہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہر شہر میں نصب گھوڑا اصل میں گھوڑی ہو۔ بہاولنگر میں بھی گھوڑا چوک ہے۔ اور اکثر شہروں کی مانند گھوڑا چوک کے اطراف ہی کمشنر آفس بھی ہے۔
دوسری مشترکہ بات کہ ہر شہر میں کم سے کم ایک چوک ایسا بھی ہوتا ہے۔ جس کا اصل نام جو مرضی ہو مگر چونکہ پاکستانی مسلمانوں کو چودہ سو سال بعد بھی اس بات پر یقین نہیں آ سکا کہ نبوت ختم ہو چکی ہے اور ہمارے پیغمبر خاتم المرسلین تھے، لہذا یاد دہانی کو کسی نہ کسی چوک کا نام "ختم نبوت" چوک رکھ دیا جاتا ہے۔ بس نہ چلے تو چوک میں تختی نصب کر دی جاتی ہے یا پھر وال چاکنگ سے بھی اسلام زندہ ہوتا ہے۔ بہاولنگر کیسے فرار ہوتا؟
اس شہر کے نام سے ملتا جلتا شہر بہاولپور ہے۔ آپ اس شہر کے مقدر دیکھئیے کہ فوارہ تو دے ملکہ وکٹوریا اور چوک کا نام پڑ جائے "فوارہ چوک" مگر اگلے فوارے کے ختنے کرکے جگہ جگہ وال چاکنگ کر گئے "ختم نبوت چوک"۔ اب تو باقاعدہ اسی نام کی تختی لگ چکی ہے۔ وہیں فرید گیٹ ہے، جس کی ایک گلی پر تختی لگی دیکھی" گندی گلی"۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ گلی کا اصل نام تو گاندھی گلی تھا، مگر اب اسے گندی گلی کہتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ پہلے نام ٹھیک تھا یا اب ٹھیک ہوگیا ہے مگر اتنا معلوم ہے کہ اپنی تاریخ کو مسخ کرنے والی قوم خود بھی مسخ شناخت رکھتی ہے۔
بہاولنگر آنا ہو تو منچن آباد بائی پاس پر واقع بسم اللہ ہوٹل ٹرک اڈے سے لکڑی کی آگ پر بنی مٹن کڑاہی ضرور کھایئے گا۔ وہاں ایک نوجوان لڑکا ہے، جو بار بار آ کر ایک ہی بات پوچھتا ہے "چاء وچ کھنڈ ول پاونی اے کہ گھٹ؟"۔ (چائے میں چینی زیادہ ڈالنی ہے یا کم)۔
اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شہر ہو اور شہر میں چھاؤنی نہ ہو؟ بہاولنگر کینٹ کی کیا باتاں۔ بہترین چونا پھریں یونٹس اور مستعد جوان۔ رہائش کے واسطے صاف ستھرے کمرے۔ مگر ٹھہریں بہاولنگر کا قصہ چھاؤنی سے زیادہ میٹھا ہے۔
ایک منحوس دن میں بہاولنگر میں فیلڈ ورک پر تھا۔ ساتھ سیکیورٹی پروٹوکول تھا۔ ایک پولیس ڈالہ تھا۔ جس میں دو مسٹنڈے قسم کے پولیس والے تھے۔ فیلڈ ورک میں ہمارے پاس سیٹلائٹ فون "تھرایا" ہوتا ہے اور ہم کو ہر گھنٹے بعد اپنے سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کو اس سیٹلائٹ سیٹ سے کال کرکے اپنی لوکیشن نوٹ کروانی ہوتی ہے۔ یہ must due protocol ہے۔ کبھی کبھی تو سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ سے کوئی فارنر آپریٹر فون اٹھاتا ہے تو اسے مقامی جگہوں کے نام سپیلنگ کرکے بمعہ یونین کونسل نمبر بتانے پڑتے ہیں اور ہر گھنٹے بعد 5 منٹ کو دماغ کی لسی بنتی ہے۔
اچانک انباکس آیا "آپ ہمارے شہر آئے ہیں تو آئیے آپ کو گڑ والی چائے پلاؤں"۔ میں نے پروفائل دیکھی تو صاحبو ڈی پی میں گڑ کی ڈلی چمک رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ کام پر تُف بھیجتے ہوئے گڑ والی چائے تو پی جائے۔ محترمہ نے لوکیشن بھیجی جو میرے مقام سے 12 کلومیٹر دور شہر کے اندر واقع تھی۔
ایک مسٹنڈا پولیس والا آیا اور بولا " سر جی چاء نہ پی آوئیے؟"۔ میں نے اسے دیکھا اور سوچا اس کے ساتھ چائے پینے سے اچھا میں ایک گھنٹے کے لئے کھسک کر شہر سے ہی گڑ والی چائے پی آؤں۔ مگر ان کو بتاتا تو انہوں نے اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ساتھ ہی چل پڑنا تھا، لہذا سوچا ان کو مقامی ڈھابے پر بٹھا کر ان کو چائے پکڑا کر خود نکل لوں۔
وہاں نے نکل لیا۔ جیسے ہی ریسٹورنٹ پہنچ کر چائے پینے بیٹھا سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ سے کال آ گئی۔ آپریٹر فارنر تھا۔ مجھے کہنے لگا کہ تم کہاں ہو؟ میں نے کہا کہ ادھر ہی فیلڈ میں۔ اس نے کہا اچھا؟ نام بتاؤ لوکیشن کا اور یونین کونسل کا۔ میں نے اسے ڈاچ کروانا چاہا اور جہاں میں پہلے تھا، اس مقام کا نوٹ کروا دیا۔ اپنی شومئی قسمت کہ اگر وہ دیسی ہوتا تو مطمئن ہو کر کال بند کر دیتا۔ میرے ذہن سے نکل گیا کہ میرے پاس سیٹلائٹ فون ہے، جو تسلی بخش gps لوکیشن بھی رپورٹ کرتا ہے۔ اس نے لوکیشن دیکھی اور بولا " تم اپنے مقررہ روٹ سے 14 کلومیٹر دور ہو۔ کیا تم مجھے سچ بتا رہے ہو؟"
یہ سنتے ہی میرے طوطے اڑ گئے۔ میں نے اب چونکہ اس کے ترلے ڈالنے تھے اس لئے فون سنتے باہر نکل گیا اور باہر نکلتے ہی بولا " وہ اصل میں یہاں ایک ایمرجنسی ہوگئی تھی۔ میرے ایک دوست کے والد ہسپتال ایڈمٹ ہیں تو سوچا ایک گھنٹے کی بریک میں ان کی عیادت کر آؤں۔ نیور مائنڈ پلیز"
صاحبو وہ گورا تھا اور گورا اپنی ڈیوٹی پوری کرتا ہے۔ فون بند ہوتے ہی اس نے میری باس کو رپورٹ کر دی۔ ابھی چائے کا گھونٹ بھرتے گڑ کی ڈلی کو دیکھا ہی تھا کہ باس کی کال آ گئی۔ پھر باس کو explain کرنا پڑا۔ باس مصری خاتون تھیں اور انتہائی نفیس اور شغل مزاج۔ وہ سن کر بولیں" مریض کو میری جانب سے بھی get well soon کہہ کر فوری واپس پہنچو"۔۔
جلدی جلدی ٹینشن میں چائے پی اور فوری اٹھ گیا۔ چلنے لگا تو محترمہ بولیں" خیر ہے آپ اپ سیٹ لگ رہے ہیں؟"۔ میں نے جواب دیا کہ بس مریض کی حالت سیریس ہوگئی ہے، مجھے جانا ہے۔ اسے کچھ پلے نہ پڑا اور میں نکل آیا۔
واپس پہنچا تو دونوں پولیس والے ڈھیلم ڈھالے پیٹ لٹکائے کھڑے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی ایک بولا " سر تسی کتھے چلے گئے سو؟ اسی چار کپ چا پی لئی تواڈے انتطار وچ"۔ میں نے اسے کہا کہ تم نے چینی والی پی ہے میں گڑ والی پینے گیا تھا۔ ان دونوں نے مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا اور میں باقی کا دن آفس کو explanation ہی دیتا رہا۔