Seychelles (1)
سیشلز (1)
ناریل کے درختوں میں گھرا، سفید شفاف ریت کے اجلے ساحلوں اور سبز اتھلے پانیوں کا حسن سمیٹے یہ سیشلز ہے۔ دنیا کے نقشے پر آسانی سے نظر نہیں آتا اور ہمارے امیگریشن والوں کو اس کا نام بھی معلوم نہیں۔ لاہور ائیرپورٹ پر امیگریشن کی لمبی قطار میں کھڑے جب میری باری آئی تو آفیسر نے پاسپورٹ کھنگالا، پھر حیران ہو کر اپنی عینک اتارتے ہوئے اس نے میری ریٹرن ٹکٹ کا بغور جائزہ لیتے پوچھا "سیشلز؟ ویزا کہاں ہے اس کا؟ یہ کہاں واقع ہے؟"۔
میں نے اس کی حیرانگی دور کرتے ہوئے جواب دیا "جناب، یہ چھوٹے چھوٹے 115 جزیروں پر مشتمل بحر ہند میں واقع ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے ایک طرف مڈغاسگر لگتا ہے اور دوسری جانب ماریشئیس اور ری یونین جیسے چھوٹے ممالک ہیں۔ یہ ویزا فری ملک ہے۔ اس کا ویزا لینڈ ہونے پر 30 دن کا ملا کرتا ہے۔ ریٹرن ٹکٹس اور ہوٹل بکنگز آپ کے ہاتھ میں ہیں، باقی جو چاہیئے بتا دیں"۔
اس نے مجھے گھور کے دیکھا، عینک چڑھائی، اپنی سیٹ سے اٹھا اور عقب میں بنے ایک کیبن میں اپنے آفسر کے پاس جا پہنچا۔ دو منٹ بعد ایک صاحب کیبن سے نکل کر میرا پاسپورٹ ہاتھ میں تھامے تشریف لائے اور مجھ سے استفسار کرنے لگے "آپ سیشلز کیوں جا رہے ہیں؟"۔ میں نے فلیٹ چہرے سے جواب دیا "اس لئے کہ مجھے وہاں گھومنا ہے، میں ٹورسٹ ہوں"۔ اس نے پاسپورٹ کا ایک ایک ورق پھر سے دیکھنا شروع کیا اور اس پر لگے پہلے سے موجود دیگر ممالک کے ویزے غور سے دیکھتا رہا۔ مجھے کہا گیا کہ آپ اس قطار سے نکل کر کیبن میں آجایئے۔
کیبن میں پہنچ کر کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ آفیسر نے پھر سوال دہرایا "آپ یہاں سیر و تفریح کے لئے جا رہے ہیں؟"۔ میں نے اب کے ہنستے ہوئے جواب دیا "سر، بڑا خوبصورت ملک ہے اور یقین مانیئے میں سیر و تفریح کے لئے ہی جا رہا ہوں"۔ اس نے اپنے لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کیا۔ پانچ منٹ سکرین کو دیکھتا رہا پھر بولا "آ جایئے"۔ میں اس کے پیچھے چلتا واپس امیگریشن ڈیسک پر آیا۔ میرے پاسپورٹ پر exit کی مہر لگی اور مجھے پاسپورٹ بمعہ ٹکٹس تھما دیا گیا۔ امارات کی فلائٹ مجھے دبئی لے گئی اور وہاں سے پانچ گھنٹے کی لمبی فلائٹ نے مجھے سیشلز کے دارلحکومت "وکٹوریا" لا اتارا۔
کیلا اور ناریل یہاں پر ایسے لگتا ہے جیسے پاکستان میں رشوت لگتی ہے، جگه جگه، چپے چپے پر۔ سیشلز کے ساحلوں پر دنیا کے سب سے بڑے کچھوے اُترتے ہیں۔ کچھوں اور یہاں کے مقامی لوگوں میں دو باتیں مشترک ہیں، ایک تو رنگت، دوسرا کچھوں کی مانند ماں کے پیٹ سے تیرنا سیکھ کر آتے ہیں۔
موسم کا کوچهء جاناں کی مانند کوئی اعتبار نہیں۔ پل میں تیز بارش ہونے لگتی ہے اور اچانک ہی سورج جھانکنے لگتا ہے۔ دنیا کا سب سے چھوٹا دارلحکومت رکھنے کا اعزاز بھی اسی ملک کے پاس ہے۔ وکٹوریا کو میں دو گھنٹوں میں پیدل گھوم کر ختم کر گیا۔
ساحلوں پر غیر ملکی سیاحوں کا رش رہتا ہے۔ کئی ساحل جو شہر سے ہٹ کر ہیں وہاں انتہا کا سکوت و سکون ہے۔ نیلے سبز پانی ہیں۔ کناروں پر کچھوؤں کے بچے، کیکڑے، سنیل، رنگین سیپیاں اور مچھلیاں نظر آتی رہتی ہیں۔ سفید ریت کے ساحل نیلے سبز پانیوں کے ساتھ کناروں پر لگے ناریل کے درختوں کے بیچ بہت دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں۔ مہنگائی کا حال پاکستان سے بھی چار گنا زیاده برا ہے۔ سیشل کی درآمدات بہت زیاده ہیں، اس ملک کی برآمدات صرف ٹُونا مچھلی اور ناریل ہیں، تیسرا کمائی کا ذریعہ سیاحت ہے۔ اس ملک کی معیشت کا اصل دارومدار سیاحت پر ہی ہے۔ دنیا بھر سے جوڑے یہاں پہنچ کر شادیاں کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے چرچز میں ایونٹ کی آن لائن بکنگ کروائی جاتی ہے۔ شادی کی تقریبات ساحل سمندر پر منعقد ہوتی ہیں۔ بشپ یا پادری اچھے خاصے دام وصول کرتے ہیں۔
محض اسی ہزار آبادی والے ملک میں ستر ہزار کیتھولک عیسائی ہیں چنانچہ چرچ جگہ جگہ دِکھتے ہیں۔ سات ہزار ہندو ہیں جو بھارت سے یہاں آباد ہو کر تجارت کر رہے ہیں۔ تقریباً ہر سُپر سٹور انڈین کا ہے۔ باقی ڈھائی تین ہزار مسلمان آباد ہیں جن کے لئے ایک بڑی مسجد دارلحکومت میں نظر پڑی، شاید مزید بھی ہوں۔
ایک سو پندرہ جزائر پر مشتمل یه ملک پہلے فرانس کے قبضے میں رہا پھر برطانیہ کے زیرِ تسلط چلا گیا، اسی لئے فرانسیسی اور انگریزی زبان مقامی لوگ اچھی طرح بول سمجھ لیتے ہیں۔ زیاده تر مقامات اور ساحلوں کے نام فرانسیسی زبان میں ہی ہیں۔ اس کے جزائر جنت نظیر ہیں۔
میرا قیام دو ہفتے رہا۔ میں اس دوران فیری کے ذریعے سیشلز کے مختلف جزیروں پر آتا جاتا رہا۔ فیری کا سفر خوشگوار ہوا کرتا۔ یورپئین سیاحوں کی بھرمار ہوا کرتی۔ اس دوران کسی نہ کسی سیاح سے گپ شپ چل پڑتی۔ ان دو ہفتوں میں کھانے کے واسطے بڑی تگ و دو کرنا پڑتی۔ حلال کھانے کا بہت مسئلہ رہا ہے۔ سپر سٹور سے چھان پھٹک کر بریڈ اور انڈے وغیرہ کے ساتھ جام، دہی، فروٹ لے آیا کرتا۔ زبان کا ذائقہ یہی اشیا روز روز کھا کر عجب ہوتا رہا۔ ایک دن وکٹوریا میں بلا مقصد آوارگی کرتے مجھے ایک مندر دکھا۔
مندر کے نقش و نگار انتہائی دیدہ زیب تھے۔ دروازے پر عمدہ رنگوں میں نقوش تراشے گئے تھے۔ ہندومت کے دیوتاوں کی کشیدہ کاری کی گئی تھی۔ مندر کا مینار نیلے، سرخ و زرد رنگوں والی تشبیہات سے مزین تھا۔ کرشن، شیو، ہنومان، سیتا سمیت بہت سے دیوی دیوتاوں کو تراشا گیا تھا۔ ایسے خوبصورت رنگ و نقوش تھے کہ میں کچھ دیر رک کر انہیں دیکھتا رہا۔ مندر کا مرکزی دروازہ کھلا تھا۔ اندر جھانکنے کی غرض سے میں دروازے کے قریب چلا گیا۔ میرا ارادہ تھا کہ اندر سے مندر کو ایک نظر دیکھا جائے۔
سفید سنگ مر مر کی سیڑھیاں چڑھتے دروازے کے بھیتر جا کھڑا ہوا۔ دیواروں پر اردگرد بکھرے رنگوں کو دیکھنے میں مگن تھا کہ اتنے میں ایک شخص لنگی پہنے اور بدن پر شال ڈالے قریب آن پہنچا۔ اس نے سر کے بال منڈوا رکھے تھے۔ پہلی نظر میں ہی مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ شخص مندر کا پجاری ہے۔ اس نے میرے سامنے آ کر ہاتھ جوڑتے ہوئے سر جھکا دیا تو میں نے بھی آداب کی خاطر اپنا سر ہلا دیا۔
پجاری اس کے بعد دبے پاوں پلٹا اور چلتا چلتا مندر کے اندر کہیں گم ہوگیا۔ کچھ لمحوں بعد باہر نکلا تو اب اس کے ہاتھ میں پیتل کا تھال تھا جس میں موتی چور کے دو لڈو دھرے تھے۔ سیشلز میں دس دنوں سے بے سوادا کھانا کھا کر حلق کا ذائقہ عجب ہو چکا تھا۔ موتی چور کے لڈو دیکھتے ہی دل میں خوشی کی لہر سی اٹھی۔ ایسی آشنا شے کافی دنوں بعد دیکھی تھی۔ میں نے چپ کرکے لڈو اٹھا لئے۔