Sehwan
سیہون
میں جب سیہون کا نام سُنتا ہوں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آخری بار کورونا سے قبل اپنی زوجہ ماجدہ کے ہمراہ جانا ہوا اور اس کے بعد میں نے قلندر سے حاضری کی معافی مانگ لی ہے۔
اگر آپ کا سہیون شریف جانا ہوا ہے تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ سیہون کی کل آبادی ایک لاکھ سے بھی کم ہے، مگر فقیروں کی تعداد پانچ لاکھ ہے۔ لال شہباز قلندر کے مزار پر میں پانچ دفع جا چکا ہوں۔ سیہون بس برائے عادت جاتا رہا۔ بچپن میں اک بار اماں ابا کے ساتھ جانا ہوا تھا بس پھر وہ Visuals نہیں بھولتے تو انہی کی یاد میں پھر جاتا رہا۔۔
جب جب بھی جانا ہو فقیروں کی ٹولیاں وقفے وقفے سے حملہ آور ہوتی ہیں۔ کوئی مائی کا لال ایسا نہیں جو لال شہباز قلندر کے مزار سے ان فقیروں سے اپنی عزت بچا کے آ سکے۔ آپ کچھ نہ دو تو یہ آپ کے کپڑے کھینچنے لگتے ہیں۔ کسی کو جھڑکو تو چار اور آ جاتے ہیں جو پینٹ کو چمٹ جائیں گے۔
آخری بار سنہ 2019 کا ماجرا ہے۔ میں اپنی شُدھ بریلوی بیگم کے ہمراہ کراچی سے لاہور آ رہا تھا۔ حیدر آباد آیا تو بیگم کی مذہبی و عقیدتی حِس بیدار ہوئی۔ اس نے حکم صادر کرتے فرمایا " مجھے قدم گاہ مولا علی جانا ہے۔ آئی سمجھ آپ کو؟ چلیں مجھے لے کر"۔ میں نے لاکھ سمجھانا چاہا کہ بیگم روٹ سے ہٹ کر وہاں کہاں گاڑی لے جاؤں۔ جانے دو۔ مگر اس میں قبلہ رضوی مرحوم کی روح حلول کر گئی اور پھر میں اپنا سا منہ لئیے رہ گیا۔ گاڑی اس جانب مڑ گئی۔ حاضری کے بعد بیگم صاحبہ جذباتی رہیں۔ گاڑی میں چلتا میوزک بند ہوا اور نعت شریف چل پڑی۔ مجھے یہ تسلی ہوگئی کہ چلو اب میری جان سُکھ میں آ گئی مگر عین اسی لمحے مجھے نیا حکم ملا۔
" مجھے سیہون شریف لال شہباز قلندر جانا ہے۔ آئی سمجھ آپ کو؟"
یہ سُنتے ہی میرا دل از خود پکار اُٹھا " واٹ دا ف *"۔ یوں نہ کرو بیگم۔ سیہون جانے کو گاڑی روٹ سے کافی ہٹ کر لے جانا پڑے گی اور وہاں بندہ ذلیل ہو جاتا ہے۔
" میں نے منت مانگی ہوئی تھی۔ آئی سمجھ آپ کو؟ مجھے وہاں جانا ہے ورنہ یہیں گاڑی روک دیں مجھے لاہور نہیں جانا۔ "
میں نے دل پر بھاری پتھر رکھ لیا۔ جامشورو کے بعد گاڑی سیہون کو مڑ گئی۔ اب تک مجھے یہ یقین تھا کہ پانچ منٹ کو اندر جا کر فاتحہ پڑھے گی اور بس پھر لاہور کو چل پڑیں گے۔ جیسے ہی گاڑی مزار کے پاس ایک پیڈ پارکنگ میں رکی۔ ایک جم غفیر اُمڈا اور فقیر و فقیرنیوں کے جلوس نے ہم دونوں کو گھیر لیا۔ اس صورتحال کو دیکھتے میں نے بیگم کو واپس گاڑی میں بٹھا کر دروازہ بند کیا اور نہتا اس جلوس میں گھِر گیا۔
فقیروں کے جمگھٹے میں کھڑا ایک بار سب کو دس دس روپے بانٹ رہا تھا کہ کسی طرح یہ رخصت ہوں اور راہ بنے تو میں یہ فقیروں کا حلقہ توڑ کر نکلوں۔ اتنے میں کسی نے میرے دائیں ٹخنے پر گدگدی کی۔ میں نے گھبرا کے دیکھا تو دونوں ٹانگوں سے معذور فقیر میری ٹانگ کے ساتھ چمٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اسے ہٹانے کو دس روپے دیئے تو اس نے بچوں کی طرح نہ نہ میں سر ہلاتے ہوئے میری بائیں ٹانگ کو جپھی ڈال لی۔
میں نے گھبرا کے پوچھا کہ کیا چاہییے بابا میری جان چھوڑو۔ بولا "سو روپیہ سو روپیہ"۔ اس بلیک میلنگ پر مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے جھٹکے سے اپنی ٹانگ چھڑوائی اور دوڑ لگا دی۔ پارکنگ چونکہ پرائیویٹ تھی، اس لیے وہاں کھڑے شرابی گارڈ کو شاید مجھ پر رحم آ گیا یا شاید اس کو زیادہ چڑھ چکی تھی۔ الکوحل کی بدبو سے بھرا منہ میرے قریب لا کر سندھی زبان میں چِلایا۔ فقیروں کا جلوس تتر بتر ہونے لگا اور میں نے ناک پر ہاتھ رکھ لیا۔ راستہ صاف پا کر میں نے بیگم کو گاڑی سے نکالا اور مزار کی جانب چلنے لگے۔ ابھی پارکنگ گیٹ پر پہنچا ہی تھا کہ ایک مست انسان بھاگتا مجھ سے آ کر بغلگیر ہوگیا۔ میں نے اسے پیچھے ہٹانا چاہا مگر وہ مجھے جپھی ڈال کا باقاعدہ چمٹ چکا تھا۔
آخر مجھے اس پر چیخنا پڑا۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹا۔ میں بیگم کا ہاتھ تھام کر واپس بھاگ کر گاڑی میں جا بیٹھا اور گاڑی لاک کر لی۔ وہ گاڑی کے آگے آ کر کھڑا ہوگیا۔ میں نے سوچا کیا مصیبت ہے۔ شیشہ اتار کر دس روپے باہر پھینک دیئے۔ وہ اٹھا کر پیچھے ہٹ گیا۔ ابھی گاڑی سے پھر نکلنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ دو فقیرنیاں میرے بونٹ پر آ کر گر پڑیں۔ شرابی گارڈ کہیں غائب ہو چکا تھا۔ ہم دونوں اب نہتے اور تنہا مسلح فوج کے مدمقابل تھے۔ ان فقیرنیوں سے پچاس روپے میں جان چھوٹی۔
نصر من اللہ و فتح قریب کا ورد کرتے، بھاگم بھاگ، تیزی سے ہم دونوں بھاگے اور مزار کے احاطے میں پہنچ کر ہی دم لیا۔ ہمارا پیچھا دو مختلف مقامات پر دو مسلح ٹولیوں نے کیا جن میں ایک ٹولی ننگے بچوں کی بھی تھی۔ مزار کے احاطے میں پہنچ کر فرحت کا احساس ہوا۔ میں نے مزار کی جانب منہ کرکے بابا جی کا شکریہ ادا کیا۔ دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ اب جان چھوٹی۔ اسی اثناء میں ایٹم بم سر پر آن گرا۔
"بات سنیں۔ حاضری کے بعد آپ نے یہاں دیگ بانٹنی ہے۔ آئی سمجھ آپ کو؟ پلیز پلیز میں نے آپ سے کبھی کچھ مانگا ہے؟ میری منت تھی کہ جب شادی کے بعد یہاں آئی تو شوہر سے دیگ چڑھاؤں گی۔ "۔
صاحبو، اب آپ کیا کر سکتے ہیں؟ یہ حکمنامہ سن کر میں نے کہا کہ اچھا اچھا۔ یہاں باورچی ہیں باہر دیگیں بکتیں ہیں ایک دیگ کے پیسے ان کو دے دیتے ہیں وہ ہمارے سامنے ہی بانٹ دیں گے۔ مگر پلیز اس کے بعد اب بس اوکے؟ اب سیدھا لاہور جانا ہے۔ اب میں یہ نہ سنوں کے ملتان میں فلاں مزار پر جانا ہے۔ اس نے یہ سُن کر وعدہ کیا کہ ہاں بس، اس کے بعد گھر، مگر ساتھ ہی بولی
" دیگ آپ خرید لیں مگر بانٹنا خود ہے۔ یہی منت تھی۔ دیکھیں مجھے معلوم ہے۔ آپ ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے اور تنگ ہو رہے ہیں پر میرے لیے یہ کام کر دیں۔ ورنہ آپ پر ہی مصیبتیں نازل ہوں گی۔ منت آپ کی سلامتی و رزق واسطے ہی مانگی تھی۔ پلیز پلیز"۔
واٹ دا ف *؟ پھر میں نے بابا جی سے معافی مانگی کہ غصے میں منہ سے نکل گیا۔ پلیز اگنور
فاتحہ ہو چکی۔ باہر نکل کر ایک دیگ خریدی۔ دیگ والا پہنچا ہوا بندہ تھا۔ یہ جان کر کہ دیگ میں خود بانٹوں گا وہ بولا" سائیں، تمہاری مرضی ہے پر میں ساتھ کھڑا ہوں گا ورنہ لوگ دھکے دیں گے۔ اور اپنی بیوی کو سامنے ہجرے میں بٹھا دو۔ اندر اے سی لگا ہوا ہے اور پرائیویٹ کمرہ ہے۔ اس کے ساتھ دیگ نہیں بانٹی جا سکتی۔ رش میں دھکے پڑیں گے۔ "۔ اس کی بات مناسب تھی۔ میں نے سامنے ایک کمرہ لیا اور بیگم کو اس میں چھوڑ آیا۔
دوستو، میں یہ بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ بس اتنا یاد ہے کہ مجھے ہوش آئی تو میرا گریبان اُدھڑا ہوا تھا۔ بال بکھرے ہوئے تھے اور دیگ کی کالک میرے ماتھے اور رخسار پر لگ چکی تھی۔ اللہ بھلا کرے اس بندے کا جس نے فقیروں کے قدموں تلے روندے جانے سے مجھے بچا لیا اور پھر کرچھہ خود سنبھال کر چاول بانٹنے لگا۔ مجھے بس اتنا ہی یاد ہے کہ میری شوگر ڈاؤن ہوگئی تھی اور لڑکھڑاتا ہوا بیگم کے پاس ہجرے میں پہنچا تو اس نے مجھے دیکھ کر چیخ مار دی اور گھبرا کے بولی " ہائے اللہ، آپ ٹھیک تو ہیں؟"۔
مجھے ٹھیک سے یاد نہیں کہ دیگ بانٹ کر میں نے اس ائیر کنڈیشنڈ ہجرے میں چار گھنٹے آرام کیا یا چھ گھنٹے۔ بس یہ یاد ہے کہ آنکھ یوں کھُلی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ہجرے والا کھڑا کہہ رہا تھا " ٹائم پورا ہوگیا ہے۔ زیادہ رکنا ہے تو چارجز زیادہ ہوں گے"۔ یہ سن کر میں نڈھال بدن سمیٹ کر اُٹھا۔ بیگم نے مجھے سہارا دیا اور بولی
"شکر ہے ایک ہی دیگ کی منت مانگی تھی۔ اگر دو دیگوں کی مانگی ہوتی تو یہاں سے خدانخواستہ آپ کا جنازہ ہی اُٹھتا"۔
یہ سن کر میں نے بھی شکر ادا کیا اور شکرانے کے دو نفل بھی مان لئیے۔ پارکنگ تک پہنچتے بڑے سخت مقام آئے۔ بہت سی ٹولیوں نے گھیرا بندی کرنا چاہی مگر میں زخمی شیر بن چکا تھا۔ غصے سے رہ رہ کر دھاڑتا۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے۔ بیگم کو تو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا مگر اندر خون اُبل رہا تھا۔
سیہون شہر سے نکلا تو شام ڈھل رہی تھی۔ سیہون ٹول پلازے والے نے تیس روپے مانگے۔ میرا بٹوا خالی ہو چکا تھا اور مجھے اس کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میں نے ٹول والے کو کہا کہ بھائی ابھی یہاں کوئی ATM نہیں اور میرے پاس کچھ نہیں۔ مجھے خود اپنے لیئے پیسے نکلوانے ہیں کہ آگے میرا لمبا سفر ہے۔ میری پائی پائی فقیروں نے لوٹ لی۔ باقی منت لے بیٹھی اور بچا کچھا وہ ہجرے والا لے گیا۔ لہذا مجھے جانے دو۔ مگر ٹول پلازے والا کوئی سخت دل انسان تھا۔ مجھے بولا " چار کلومیٹر پیچھے سیہون جا کر اے ٹی ایم سے لے آؤ پھر جاؤ جہاں جانا ہے"
سیہون واپسی کا نام سن کر مجھے غش پڑ گیا۔ میں نے اسے لاکھ کہا کہ بڑی مشکل سے نکلا ہوں مجھ پر رحم کرو مگر وہ ڈھیٹ انسان تھا۔ چار و ناچار ڈرتا ڈرتا سیہون آیا۔ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوا کر نکلا ہی تھا کہ باہر پھر دو فقیر کھڑے مجھے چمکتی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ایک نے میری کلائی پر لال دھاگا باندھنا چاہا جس کے بدلے وہ پیسے مانگ رہا تھا۔ میں نے کلائی چھڑوا کے پھر دوڑ لگائی اور گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی بھگا دی۔۔
ٹول پلازے پہنچا۔ پیسے دیئے۔ بقیہ پیسے لے کر چلنے لگا تو ٹول پلازے کے برابر میں پھر ایک ٹانگوں سے معذور فقیر اپنی چھوٹی سی ریڑھی پر بیٹھا تھا۔ وہ گاڑی کے سامنے آ کر بولا "اے بابو! ہمیں بھی دے جا"۔۔ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا " گاڑی میں آ کر میری لے لو"۔
لاہور تک بیگم افسوس کرتی آئی۔ میں نے اسے کئی بار کہا کہ ٹاپک چینج کرو مگر اس کو میری حالت پر افسوس ہوتا رہا۔ راہ میں ایک ہوٹل پر کھانا کھانے رکے تو اسی کے واش روم میں میں نے ٹوٹے بٹنوں والی اپنی اُدھڑی ہوئی شرٹ بدلی۔ باقی بائیں پسلی کے ذرا سا اوپر ایک چھوٹا سا نِیل نظر آیا جو نجانے کیسے پڑ گیا۔