Sao Jootay Aur Sao Piyaz Ka Khel
سو جوتے اور سو پیاز کا کھیل
کیا عجب بات ہے کہ جب ہم کسی تقریب کے لیے تنبو، قنات، کراکری، کرچھے، دیگیں، دریاں، پنکھے، واٹر کولر، کرسیاں اور میزیں کرائے پر لیتے ہیں تو انہیں گن کے واپس کرتے ہیں۔ لیکن جب اقتدار کا منڈپ سجانے کے لیے "فور سٹارز سپورٹ" کرائے پر لیتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ امدادی سامان واپس بھی لوٹانا ہے۔
کرنا خدا کا یوں ہوا کہ پی ٹی آئی نو مئی کی چھری تلے آ گئی اور پھر ریورس انجینیئرنگ شروع ہوئی۔ جس کو جہاں سے لیز یا کرائے پر اٹھایا گیا تھا اسے وہیں واپس بھیجا جانے لگا۔ اس سے قبل نون لیگ سے ق لیگ نکلی اور پیپیلز پارٹی میں فارورڈ بلاک بنا۔ پر ایک بات طے ہے۔ سو جوتے اور سو پیاز کا کھیل فی الحال چلتا رہے گا۔
جب کوئی جماعت جڑیں پکڑنے لگے تو اس کی جڑیں اور شاخیں چھانٹ دو۔ جب کوئی لیڈر پاپولر ہونے لگے تو پیروں تلے سے قالین کھینچ لو۔ جب معیشت قابو میں نہ آئے تو الزام سیاستدان کو دے دو۔ جب قابو میں ہو تو کریڈٹ اپنی فہم و فراست کے نام کر لو۔ جب کسی کا منڈپ اجاڑنا ہو تو ایک ہڈی ہوا میں اُچھال دو۔ حزب مخالف کو کھُلا چھوڑ دو۔
بس یہی ہے ہم جیسوں کی کہانی، جب تک چل رہی ہے تب تک چل رہی ہے۔ وطن کے سیاسی و سماجی حالات پارا چنار تا دارلحکومت نحیف ہیں۔ نون لیگ کی اتحادی حکومت پر سائے منڈلانے لگے ہیں۔ اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ کے دو بڑوں میں خلیج کا پیدا ہونا ہے۔ اس خلیج کی وجوہات پر میں ابھی کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتا یہ میرے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہ خلیج عمران خان صاحب کے لیے ایک بہترین موقع ثابت ہو سکتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی کوکھ سے جنمیں حکومتوں کی یہی کہانی ہوتی ہے۔ کسی بچے کی عمر ڈھائی سال سے زیادہ نہیں ہو پائی۔ اب تو بڑے آپریشن کروا کے وہ حالت ہوگئی کہ زچہ و بچہ دونوں کی حالت خطرے میں ہے۔
میں ذاتی طور پر مسلسل کھپ رہا اور کب سے کھپ رہا ہوں کہ عمران خان صاحب کو اگر کوئی شکست دے سکتا ہے تو وہ عمران خان صاحب ہیں۔ یہی بات ہمارے بزرگ صحافی سہیل وڑائچ نے آج کالم میں لکھی ہے "پاپولر عمران خان کو حکمران عمران خان ہی شکست دے سکتا ہے"۔ چلو شکر ہے یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے۔ میں اس بات کا حامی ہوں کہ جس کو ووٹ پڑتے ہیں، جیسے بھی پڑتے ہیں، اس کو حکومت بنانے دی جائے۔ یہی جمہوریت ہے اور میں اس بات کو بھی سمجھتا ہوں کہ یہاں کوئی پھنے خان چھوڑ آسمان سے فرشتہ بھی آ جائے تو اس ملک کا نظام درست نہیں کر سکتا اور یوں وہ آپ اپنی نیچرل ڈیتھ کی جانب چلا جائے گا۔
یہی حل ہے۔ تحریک انصاف کو ووٹ ملے اسے حکومت دیں۔ وہ اسی نظام میں حکومت چاہتے ہیں جو نظام مگرمچھ کے شکنجے میں مضبوطی سے جکڑا ہوا ہے۔ اس نظام میں وہ پہلے جتنا ڈلیور کر پائے اور آئندہ جو ڈلیور کر پائیں گے ہر باشعور جانتا ہے۔ "مفاہمت" یا "سمجھوتے" کا نظام عوام کو کچھ نہیں دے سکتا۔
معیشت پر قرض کا حجم کُل جی ڈی پی کا 70 فیصد ہو چکا ہے۔ ہمارے پاس گلیمر نہیں، موسیقی نہیں، فیسٹیولز نہیں، کھیل نہیں، لیبارٹریز نہیں، تحقیق نہیں، ادب نہیں، بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول نہیں، امپورٹ ایکسپورٹ کے درمیاں آسمان جتنی خلیج، اور سب سے بڑھ کے گولز نہیں اور ان کو پانے کے لیے کوئی سمت یا روڈ میپ نہیں۔
ہمارے پاس صرف فرقہ پرست ملا، دیہاڑی دار کتب فروش قلمی دلال، وڈیروں کی نااہل ظالم اولادیں، جاہل سیاستدان اور کمپنی ہیں اور یہ سارا وراثتی نظام کوئی ڈھول بنا کر خود اپنے گلے میں ڈالنے کو بیتاب ہے تو ویلکم۔