Sahibzada Bahut Jaldi Bara Ho Raha Hai
صاحبزادہ بہت جلد بڑا ہو رہا ہے
صاحبزادہ بہت جلد بڑا ہو رہا ہے۔ مجھے اس کا بچپن یاد ہے جب یہ سکول سے کوئی پھسپسا لطیفہ سن کر آتا تو گھر آتے ہی میرے پاس بیٹھ جاتا اور وہ بچگانہ سا لطیفہ بہت جذباتی ہو کر سنانے لگتا۔ اب ظاہر ہے، وہ لطیفے ہی پھسپھسے سے ہوتے تھے ان پر کیا خاک ہنسی آتی، مگر صاحبزادے کا مسئلہ یہ تھا کہ اگر میں نہ ہنسوں تو وہ رونا شروع کر دیتا اور بولتا " بابا آپ ہنسیں"۔ مجھے ہر بار باچھیاں پھیلا کر ہنسنا پڑتا کیونکہ معمولی ہنسی سے وہ چپ نہیں ہوتا تھا، جب تلک فلگ شگاف قہقہہ نہ برسا لوں اسے تسلی نہیں ہوا کرتی۔ مجھے یاد ہے ایک بار وہ سکول سے آیا اور بیگ رکھتے ہی بولا " بابا ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا ون لائنر لطیفہ سنیں"۔ میں نے پہلے سے ہی ہنسنے والا منہ بنا لیا، مگر دل میں ہمیشہ فلم Jolly LLb کے جج والا یہی جملہ آتا "اب یہ نہ کرو یار"۔ اس نے لطیفہ سنایا
"بابا! جب چیونٹی نے ہاتھی کو مسلا تو وہ ہاتھی کے اوپر تھی"
اب ظاہر ہے، اس کے بعد مجھے کھِلکھِلا کر ہنسنا تھا وگرنہ وہ منہ کھول کر رونا شروع کر دیتا۔ نجانے اس کو کس نے کہہ رکھا تھا کہ گھر جا کر بابا کو لطیفہ سنانا فرض ہوتا ہے۔ بہرحال، ایسے ہی لطائف میں نے بہت بار سنے۔ آئے دن سنے۔ کئی بار اس کو سمجھایا کہ بیٹا تمہارے پاس یقیناً شاندار لطیفے ہوتے ہیں، مگر دوستوں میں شئیر کیا کرو مجھ سے شئیر کرنا ضروری نہیں۔ اور جب جب سمجھانا چاہا وہ روہانسا سا منہ بنا کر کہتا " بابا! آپ کو میرے جوک اچھے نہیں لگتے؟"۔ پھر مجھے جواباً ہنسنا پڑ جاتا کہ ہی ہی بیٹا ایسی بات نہیں یونہی کہہ رہا تھا۔
ایک دن اس نے گھر میں بیٹھے اچانک لطیفہ سنانے کا سنسنی خیز اعلان کیا۔ اس وقت میں کھانا کھا رہا تھا۔ میں نے اسے روکتے ہوئے کہا کہ بیٹا پہلے میں کھانا کھا لوں پھر سنوں گا، کیونکہ تمہارا لطیفہ ایسا شاندار ہوتا ہے کہ ہنسے بنا رہا ہی نہیں جاتا۔ اس نے میری ایک نہ سنی اور لطیفہ شروع کر دیا
"بابا ایک بچہ اپنی دادی کے پاس جا کر پوچھتا ہے کہ دادی تمہارے دانت ہیں؟ دادی کہتی ہے نہیں۔ بچہ کہتا ہے اچھا دادی پھر میرے اخروٹ اپنے پاس رکھ لیں"۔
اس دن مجھے کھانا روک کر ہنسنا پڑا۔ اور جب وہ سنا کر چلا گیا تو بیگم مجھ پر ہنستی رہی۔ میں نے بیگم کو کئی بار کہا کہ اس کے بکواس لطیفوں پر اور کیا کروں؟ بچہ ہے۔ مگر وہ ہر بار مزید ہنسنے لگتی۔
ایک دن تو حد ہی ہوگئی۔ گھر میں میرے دو دوست مہمان آئے بیٹھے تھے۔ یہ گلی میں کرکٹ کھیل رہا تھا۔ عمر ہوگی اس کی کوئی آٹھ نو سال۔ اچانک بھاگتا ہوا بیٹھک میں داخل ہوا اور دوستوں کے سامنے بولا
"بابا ایک بندہ مچھروں سے تنگ آ کر کمرے کی لائٹ بجھا دیتا ہے کہ ان کو نظر نہیں آئے گا تو کاٹیں گے کیسے؟ کمرے میں جگنو آ جاتا ہے۔ بندہ کہتا ہے او شِٹ اب تم ٹارچ لے کر مجھے ڈھونڈنے آ گئے ہو"۔
بس صاحبو مجھے تو ہنسنا تھا ہی۔ وہ بھی اونچا اونچا۔ میں خوب ہنسا۔ جب وہ تسلی بخش ذہنی ٹارچر کرکے خوشی خوشی باہر نکل گیا تب میرے دونوں دوست میری حالت پر قہقہے لگانے لگے۔ اور باہر سے بیگم کی آواز آئی جو بیٹے سے مخاطب تھی " حسن تم کو کتنی بار سمجھایا ہے جب بابا کے دوست بیٹھے ہوں ان کو لطیفہ نہ سنایا کرو پھر سارے ہنستے ہیں"۔
بس وقت تیزی سے گزر ہی جاتا ہے۔ اب وہ گو کہ پری ٹین ایج میں آ چکا ہے۔ تیرہ سال کا ہوگیا ہے۔ لطیفے تو اب نہیں سناتا مگر کبھی کبھی ایسی بات کر جاتا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی یہ کیا تھا۔ جوک کوئی یا مجھے شش و پنج میں مبتلا کرنے کا طریقہ۔ کچھ دن پہلے آیا۔ بیٹھے بیٹھے باتوں میں کہنے لگا
بابا! مجھے لگتا ہے میرے اندر بہت سے ہِڈن ٹیلنٹس ہیں۔
میں نے حیران ہوتے کہا " اچھا؟ مثال کے طور پر کیا کیا؟"
بولا "او ہو بابا، کہا ناں وہ ہِڈن ٹیلنٹس ہیں تو مجھے کیسے پتہ؟"
مولا کا شکر ہے، کہ اب مجھے جواباً ہنسنا نہیں پڑتا۔ ان اذیت ناک سالوں سے گزر چکا ہوں۔ دو دن پہلے خود کہنے لگا
"بابا آپ بچپن سے مجھے بتاتے آ رہے ہیں کہ آپ کے بابا بہت ٹف تھے۔ وہ آپ سے کم باتیں ہی کرتے تھے اور بہت زیادہ سختی کرتے تھے۔ میں تو آپ سے اس لیے باتیں کرتا ہوں کہ دادا ابو کی کمی آپ کو فِیل نہ ہو۔ پھر میں کالج چلا جاؤں گا۔ یونیورسٹی چلا جاؤں گا۔ بزی ہو جاؤں گا سٹڈی سے وقت ہی نہیں ملے گا۔ پھر ملک سے باہر چلا جاؤں گا تو آپ مجھے یاد کریں گے۔ میں تو آپ کی میموریز بنا رہا ہوں۔ "
یہ سن کر میں نے اسے مسکرا کے دکھا دیا مگر سچی بات یہ ہے کہ جب وہ اٹھ کر چلا گیا تب میری آنکھ بھیگی۔ یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ صاحبزادہ بہت جلد بڑا ہو رہا ہے۔ بچوں میں یہی تو بڑی خرابی ہوتی ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔