Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Rul Te Gaye Aan Par Chas Bari Ayi Aye

Rul Te Gaye Aan Par Chas Bari Ayi Aye

رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے

ڈاکٹر اسامہ ماعود سے میرا پہلا تعارف سیلاب زدگان کی امداد کے سلسلے میں ہوا اور پہلی ملاقات ڈیرہ غازی خان میں ہوئی جہاں وہ نوجوان خیموں اور راشن کے ٹرک بھر کر تقسیم کرتا پھر رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ روحیں اپنی جیسی روحوں کو تلاش کر ہی لیتی ہیں۔ تعلق دوستی میں بدل گیا۔ گزشتہ روز اس کی دعوتِ ولیمہ تھی۔ رات کا ایونٹ تھا۔ میں لاہور سے پھالیہ اس کے ولیمہ پر پہنچا۔ کل شام سے ہی منڈی بہاؤ الدین، پھالیہ، نوشہرہ ورکاں کے اطراف شدید دھند ہوگئی تھی۔ رات گیارہ بجے واپس لاہور نکلا تو حد نگاہ صفر تھی۔

خطیب احمد نے مجھے اپنی گاڑی آگے لگا کر ایک سڑک تک چھوڑا۔ اس نے مجھے بہت کہا کہ مہدی بھائی دھند ہے آپ میرے فلیٹ پر رک جائیں، صبح چلے جانا۔ مگر مجھے صبح آفس حاضری دینا تھی۔ دھند تو صبح سویرے بھی ہوتی۔ میں نے سفر کا فیصلہ کر لیا۔ دھند بھری راتوں میں سفر کرنے کا تجربہ ہے۔ سوچا کہ آہستہ آہستہ سفر کٹ ہی جائے گا۔ میں چل دیا۔ گاڑی چیونٹی کی رفتار سے چلتی رہی۔ ہر طرف دھند تھی۔ ٹریفک مکمل بند تھی۔ ڈراؤنا سا ماحول تھا۔

پتلی سی سڑک تھی جس کے اطراف کھُلے کھیت تھے۔ سڑک کھیتوں سے قدرے اونچی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں گاڑی سڑک سے نیچے نہ اُتر جائے۔ راہ میں کئی کتے پڑے جو گاڑی کے ہمراہ چند قدم بھاگتے اور پھر تھک کر ہانپنے لگتے۔ ان کے بھونکنے سے میں گاڑی کے اندر ڈر جاتا اور ایک دو بار تو کتے ایسے بھونکے کہ میں نے اندر بیٹھے ایکسلیٹر سے پاؤں اٹھا کر دونوں ٹانگیں ہی اٹھا لیں۔ کیا کریں صاحبو، ساری نوجوانی موٹر سائیکل پر کتوں سے بچتے گزار دی۔ لاشعور میں ہی ڈر بیٹھ چکا ہے۔

گوجرانوالہ شیخوپورہ روڈ تک آتے آتے تیس کلومیٹر کا فاصلہ دو گھنٹے میں بیتا۔ مرکزی سڑک پر پہنچ کر کچھ سکون تو ملا مگر حد نگاہ وہاں بھی صفر تھی۔ گوگل میپ کے سہارے چلتا جا رہا تھا کہ ایک جگہ پہنچ کر رکنا پڑا۔ دھند اندھا کر چکی تھی۔ نظر دھندلا چکی تھی اور مسلسل فوکس رہنے کے سبب ذہن چکرانے لگا تھا۔ گاڑی سے باہر نکل کر سڑک کو دیکھنا چاہ رہا تھا۔ موبائل کی ٹارچ آن کیے سڑک پر پیدل کھڑا تھا کہ ایک ٹرک آتا نظر آیا۔ ٹرک والے نے دھند میں دیکھنے کے واسطے طاقتور قسم کی لائٹس لگا رکھی تھیں۔ ٹرک بالکل پاس آ کر رکا اور اندر سے ایک آواز آئی جس کا لہجہ میانداد جیسا تھا۔ مجھے تو سچ مانو یوں لگا جیسے میانداد ہی ٹرک چلا رہے ہوں۔

"کدھل جانا ہے؟ دھند بہت ہے۔ "

میں نے ڈرائیور کو دیکھا صاحبو قسم خدا کی کہ اس کی صورت بھی میانداد سے ملتی جلتی تھی۔ مجھے بہت راحت ملی۔ لاہور کی سمت وہ بھی جا رہا تھا۔ پھر بولا

"گالی پیچے لگاؤ"۔

میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس کے پیچھے گاڑی لگا دی۔ میانداد چلتا رہا۔ ٹرک کی رفتار پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ وہ دھند کو چیرتا جا رہا تھا۔ چلتے چلتے ایک جگہ ٹرک رک گیا۔ یہ ایک ڈھابہ تھا۔ میں بھی رک گیا۔ ڈرائیور اُترا اور آواز دی

"آ داؤ تائے پی کر تلتے ہیں۔ "

ہم دونوں چائے پینے کو بیٹھ گئے۔ میں نے ڈرائیور کو کہا کہ چائے میری جانب سے ہوگی۔ وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا

"اتا تھیک ہے۔ مگل تم کو گالی پر پیلا لائٹ لگانا تاہئے۔ "

میں نے اسے بتایا کہ اس گاڑی میں وائٹ لائٹس ہی آتیں ہیں اور ابھی نئی ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس موسم میں بھی اتنی شدید دھند ہو جاتی ہے۔ ڈرائیور نے چائے کا کپ رکھا اور گاڑی کے پاس آ کر اس کا جائزہ لینے لگا۔ میں نے اسے گاڑی اندر سے دکھائی۔ وہ سب دیکھتا رہا پھر بولا

"تی تی تی۔ تا فائیتہ اتی مہنگی گالی کا؟ دھند میں تو بیتار ہے ناں" (چھی چھی چھی، کیا فائدہ مہنگی گاڑی کا۔ دھند میں تو بیکار ہے"۔

سفر پھر شروع ہوا۔ صبح کے سوا تین بجے اس نے مجھے شاہدرہ چوک میں نکالا اور آگے دھند نہیں تھی۔ میں نے اس سے رخصت ہونے سے قبل اس سے مصافحہ کیا۔ وہ چلا گیا۔ میں گھر کی سمت ہو لیا۔ صبح کے سوا چار بجے میں گھر میں داخل ہوا۔ بیگم انتظار میں تھی۔ اسے بتا چکا تھا کہ میں دھند کا شکار ہوگیا ہوں۔ اس نے مجھ سے پوچھا "چائے بنا دوں آپ کو کہ اب سوئیں گے؟" میرے منہ سے نکلا

"تائے بنا دو۔ اب سویا تو آفس تے تائم اُتھا نئیں تانا"۔

ڈاکٹر اسامہ ماعود خوش رہے۔ رل تے گئے آں پر چس بڑی آئی اے۔

Check Also

Teen Hath

By Syed Tanzeel Ashfaq