Ruby
روبی
تیزی سے بدلتے زمانے میں دوستی کے معنیٰ بدل چلے ہیں۔ انسان دوسرے انسان کے ساتھ ہمیشہ مفاد کے رشتے سے جڑا ہے مگر دوستی ایسا ناطہ تھا جس میں دل جڑتا تھا۔ وہ بھی اب گئے زمانوں کا قصہ لگتا ہے۔ اب پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ سامنے والے کی نیٹ ورتھ کیا ہے، اس کے تعلقات کی جڑیں کہاں تک پھیلیں ہیں اور اس سے جڑنا کتنا مفاد میں اور کتنا نقصان میں ہو سکتا ہے۔ کیا یہ بوقت ضرورت میرا کام کر سکتا ہے (چاہے کام اگلے کے اختیار سے باہر ہی ہو)۔
دوستی کے لغوی معنیٰ دکھ درد کا ساتھی، اونچ نیچ کا ہمدرد ہونے کے ساتھ دوست کی ذاتی یا پرائیویٹ سپیس کا خیال رکھنا ہے۔ چچا غالب کہتا ہے ناں
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غمگسار ہوتا
بدقسمتی سے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ کئی دوست بالکل سعودی عرب جیسے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے جن سے تعلقات خراب ہیں تو آپ بھی ان سے سارے تعلقات ختم کر دیں اور جب ان کے تعلقات اچھے ہوں تو آپ بھاڑ میں جائیں۔
کچھ دوست ایران جیسے بنتے ہیں۔ جذبہ شر سگالی کے تحت منہ سے داغے میزائلز کا تبادلہ کرتے ہیں اور پھر اگلے دن بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ کچھ دوست یہ چاہتے ہیں کہ وہ جو کام کہہ دیں وہ ہر صورت ہونا چاہئیے، چاہے اگلا وہ کام سرانجام دینے سے قاصر ہو یا اس کے اختیار سے باہر ہو۔
کچھ دوست صرف مالی تبادلے کے مطمع نظر دوست ہوتے ہیں۔ یعنی ان کو آپ سے صرف مال چاہئیے وہ بھی غیر معینہ مدت کے واسطے یا ان کی معین کردہ مدت کے واسطے جو کبھی نہیں آتی۔
آپ کسی دوست کے کام سے معذرت کرکے دیکھ لیں۔ اسی لمحے وہ ناراض ہو جائے گا (چاہے ناراضگی کا اظہار کرے یا نہ کرے)۔ دل میں بدگمانیاں پالنے لگے گا اور کچھ تو یہاں تک سوچنے لگتے ہیں کہ خود تو آسودہ حالی سے جی رہا ہے میرا کام کیوں نہیں کر سکتا تھا۔ یعنی وہ یہ چاہنے لگتے ہیں کہ ان کا کام کر دیا جائے چاہے تم اپنا کچن کمپرومائز کرو یا اپنا لائف سٹائل۔
مجھے نہیں معلوم ایسی دوستیاں کتنا عرصہ اور کہاں تک چل سکتیں ہیں البتہ یہ معلوم ہے کہ انجام بالخیر نہیں ہو سکتا۔ ایسے تعلقات کو کوئی بھی اچھا سا خوشنما نام دے لیجئیے مگر اسے دوستی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ میں اس دور میں اگر دوستیاں کرنے، تعلقات پالنے اور ملنے ملانے سے ریزرو رہتا ہوں تو اس کی وجوہات ہیں اور جو شاید قدرے جائز ہیں۔ سات سمندر دیکھے ہیں، گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے، دیکھا ہے بہت کچھ اور بھگتا ہے بہت کچھ۔ پھر بھی میں چپ رہ کر دوستی کا بھرم نبھاہتا ہوں کہ چلو خیر ہے۔ چلو کوئی بات نہیں۔ چلو نئے زمانے کے یہی معیار ہیں۔
گئے برسوں کی بات ہے۔ میں نے جرمن شیفرڈ نسل کا ایک کتا پالا تھا۔ تین ماہ کا بچہ ملا تھا۔ اس کا ساتھ چھ ماہ رہا۔ وہ بیمار پڑا، ہر ممکن علاج کروایا مگر جانبر نہ ہو سکا۔ اس کی موت پر میرا دل ٹوٹ گیا تھا۔ اس کو گھر سے دور ایک خالی پلاٹ میں دفن کرتے میرے آنسو تھمتے نہیں تھے۔ چار دن اداسی ڈیرہ لگائے رہی۔ اس کا گھر جو میں نے خود بنایا تھا وہ جب خالی نظر آتا میری آنکھیں نم ہو جاتیں۔ چار دن بعد میں نے اس کا سارا ساز و سامان بمعہ گھر اکھاڑ دیا۔ اس کی ساری نشانیاں مٹا دیں۔ اس دن قسم کھائی کہ آئندہ کوئی جانور نہیں پالنا اور پھر میں نے آج تک کوئی جانور نہیں پالا۔
میرے اس پالتو کتے کا نام میں نے "Ruby" رکھا تھا۔ وہ یوں کہ جس دن وہ گھر میں آیا اس کے گلے میں اس کو بیچنے والے نے ایک لاکٹ پہلے سے ہی ڈال رکھا تھا۔ جس میں روبی جم سٹون چمک رہا تھا۔ اس نے وہ اتارنا مناسب نہیں سمجھا اور یونہی میرے حوالے کر دیا۔ جب اسے دفنا رہا تھا تو اس کے گلے میں لٹکتا لال سرخ پتھر سورج کی کرنوں سے چمک رہا تھا۔ آج بیٹھے بیٹھے وہی چمک آنکھوں میں پڑنے لگی۔
بقول یوسفی" انسان کتے کا بہترین رفیق ہے۔ " اور مجھے دوستوں کے ذکر میں کتا یونہی یاد نہیں آیا۔ آپ کا جانور سے باہمی مفاد، پند و نصوح کی بجائے دوستی کا تعلق بنتا ہے اور وہی خالص دوستی ہوتی ہے۔ اس موضوع پر میری زندگی کے کچھ نچوڑ ہیں۔
۔ میں اس بات کا حامی ہوں جو حضرت علی ابن ابی طالب کا قول ہے " جو ذرا سی بات پر دوست نہ رہے وہ کبھی دوست تھا ہی نہیں۔ "
۔ جو آپ پر حاوی ہونا چاہے، آپ کو اپنے زیر اثر رکھنے پر تُلا ہو، آپ پر یکطرفہ حق جماتا ہو وہ دوست ہے ہی نہیں۔
۔ جو صرف کام پڑنے پر رابطہ کرتا ہو اس سے ایک ہی دفعہ ہمیشہ کے لیے معذرت کر لیں۔
۔ جو حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے آپ کو آپ کے مفاد میں پند و نصوح کرے اسے ضرور سنو، پرکھو اور ہو سکے تو عمل کرو۔ لیکن اگر وہ ہر دم آپ کو بچہ اور خود کو بڑا سمجھتے ہوئے پند و نصوح ہی کرتا رہے تو پھر اسے اگنور کرو۔ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں اور تعلق بچانا چاہتے ہیں تو بس چپ رہیں۔ عقلمند ہوا تو خود سمجھ جائے گا وگرنہ ایک دن خود ہی تھک کر خاموش ہو جائے گا۔
۔ جو دوست آپ کو اے ٹی ایم سمجھتے ہوئے صرف پیسوں کے لین دین کو معمول بنانے لگے اس سے ریزرو رہو۔
۔ جو آپ کو کوئی ایسا کام کہہ دے، جو آپ کے بس میں نہ ہو اور انکار پر الٹا ناراض ہو جائے تو اسے جانے دو۔ اس کی پرواہ کرنا بے سود ہوگا۔ جو آپ کو نہیں سمجھ سکتا وہ آپ کا ہے ہی نہیں۔
اپنی ساری عمر میں میں نے جانا تو یہ جانا کہ دوست وہ ہے جو آپ کی ناکامیوں میں دُکھی، آپ کی اچیومنٹس میں خوش، آپ کے بلنڈرز میں ہنس مُکھ ناصح، آپ کی کنفیوژن میں کلئیر مائنڈ کا مالک، اندھیرے میں روشنی، نااُمیدی میں اُمید دلانے والا، ذاتی مفاد کو دوستی پر قربان کرنے والا، آپ کے راز کو اپنا راز سمجھ کر پردہ پوشی کرنے والا اور آپ کی ہر حالت میں آپ کا حسبِ حال ہو۔ اگر کوئی ایسا مل جائے تو خود کو واقعی خوش نصیب جانیں۔
باقی سب چل چلاؤ کا میلہ ہے۔ جہاں تک چلے چلاتے رہئیے۔ آخر انسان نے دنیا میں وقت بھی تو گزارنا ہے ناں۔ نئے زمانے کے تعلقات پر محسن بھوپالی کا شعر یاد آ گیا
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری