Quetta Aur Main
کوئٹہ اور میں
کوئٹہ جب آنا ہو مجھے بچپن کا کوئٹہ یاد آنے لگتا ہے جو کہ کب کا کھو گیا ہوا ہے۔ والد جولائی، اگست کی چھٹیوں میں ہمیں مری آباد بذریعہ ریل لے آیا کرتے۔ یہاں ان کے جگری دوست اور بھائی رہتے تھے۔ ان کے آنگن میں سیب کے دو درخت تھے جن پر چڑھ کر میں سبزی مائل کچھ سیب اتار کر کھا جایا کرتا۔
وہ سب تو کب کے خاک ہو چکے۔ اب تو یادوں کے خاکے میں رنگ بھرتا ہوں۔ گزشتہ بیس روز سے مسلسل سفر میں ہوں۔ ورک لوڈ سے ذہنی طور پر اب تھک چکا ہوں۔ اسلام آباد، پشاور، لاہور، کراچی اور کوئٹہ کے بیچ فٹ بال بنا ہوا ہوں۔ مسلسل ہوائی سفر سے اکتا چکا ہوں۔ پر کیا کروں۔ کام بھی تو کرنا ہے۔ گھر بھی تو چلانا ہے۔
کبھی کبھی شدت سے خیال آتا ہے کہ اگر اکیس برس کی نادان عمر میں نادانی یعنی شادی ہی نہ کی ہوتی تو کیسی آسان زندگی ہوتی۔ پہلی ہی نہ ہوتی تو دوسری کی نوبت کیوں آتی؟ مجھ اکیلے کا تو خرچ بھی کیا ہے۔ ایک کمرہ، ایک بستر اور سگریٹ۔ اور بس۔ انسان پیسے کمانے کی مشین تو فیملی کے لیے بن جاتا ہے۔ ڈالرز کماتے کسے برا لگتا ہے مگر سچ پوچھیں اگر اکیلا ہوتا تو اس بھاگ دوڑ میں کون پڑتا۔ میں زندگی میں بس سکون چاہتا ہوں اور یہ کارِ روزگار تو سکون غارت کرتا ہے۔
کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ ہم کیا ہیں اور ہمارے جینے کا اصل مقصد کیا ہے۔ کتنا کمانا ہے اور اس کی لمٹ کیا ہے۔ کما کے کتنا چھوڑ کر مر جانا ہے؟ پیچھے اولاد لڑ جھگڑ کر حصہ بانٹنے میں لگ جاتی ہے۔ پھر یکدم ذہن جھٹکا کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ ربّ کا شکر ادا کرو جو اس ملک کے حالات ہیں اور جس طرف بحیثیت قوم ہم جا رہے ہیں ایسے حالات میں تم کروڑ ہا انسانوں سے بہتر لائف سٹائل جی رہے ہو۔ ہاں، مگر بھاگ دوڑ میں تھکا ہوا جسم باغی ہوا چاہتا ہے۔ دراصل میں اس معاشرے میں پیدا ہوا ہوں جہاں باہر بے یقینی کی فضا ہے اور اندر بے چینی کی فضا۔۔
ہائے کوئٹہ کا سرد موسم بھی کیا ظالم موسم ہوتا ہے۔ مری آباد کی گلیوں میں اکیلا بھاگا کرتا تھا۔ مقامی بچے وقتی دوست بن جاتے اور ہم فٹ بال کھیلنے نکل جایا کرتے۔ تب پنجابی و بلوچ و پشتون میں تمیز نہیں برتی جاتی تھی۔ تب کوئی کسی کو نہیں پوچھتا تھا کہ کون ہو، کہاں سے آئے ہو۔ نفرتوں کی بجائے کوئٹہ کی فضا میں خلوص و محبتیں سمائی تھیں۔
حنہ کی جھیل پانی سے بھری ہوا کرتی تھی۔ کوئٹہ شہر سے لے کر حنہ تک سڑک کے دونوں اطراف صاف ٹھنڈے میٹھے پانی صاف ستھری پکی نالیوں میں بہا کرتے تھے۔ حنہ کو جاتی سڑک کے دو طرفہ سیبوں کے باغات ہوا کرتے جن کی شاخیں پھل کے بوجھ سے سڑک پر جھکی ہوتیں۔ میں چلتی گاڑی سے ہاتھ بڑھا کر سیب اتار لیتا۔ حنہ جھیل پر پکوڑے ملا کرتے جن کا ذائقہ آج تک ذہن سے نہ نکل سکا۔ جھیل تو کب کی خشک ہو چکی۔ اب وہاں ایک چٹیل میدان ہے۔ بنجر پن ہے۔
کوئٹہ ہے۔ میں ہوں اور میرے ساتھ بھی میں ہوں۔