Qanooni Aur Aeeni Pehlu
قانونی اور آئینی پہلو
ہر فیصلے کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ایک قانونی ایک آئینی۔ قانونی طور پر تحریک انصاف سے ان کا انتخابی نشان واپس لینا ٹھیک ہے۔ میں یہاں صرف اس کیس کی بات کروں گا۔ ہاں مجھے معلوم ہے کہ سب سیاسی جماعتوں کو چھُوٹ دے کر صرف تحریک انصاف کو ہی کیوں فوکس کیا گیا۔ یہ بحث الگ ہے اور اس کی وجہ آپ جانتے ہیں۔ مالکان کو جس پر گرفت کرنا ہوتی ہے اسی پر ہوتی ہے۔ آج گرفت میں تحریک انصاف ہے۔ تو میں کہہ رہا ہوں کہ قانونی طور پر یہی فیصلہ آنا تھا، اس کی جائز وجوہات ہیں۔
تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نت نئے بیانئیے بنانے اور مٹانے میں تو ساری توانائیاں خرچ کر دیتی ہے، مگر عدالتوں میں ان کے وکلاء بنا تیاری کے پیش ہو جاتے ہیں اور چونکہ عدالت میں سوشل میڈیا بیانئیے یا ٹرینڈز کی بجائے ٹھوس شواہد درکار ہوتے ہیں اس سبب کیس ہار جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر آپ یہی ملاحظہ کریں کہ چیف جسٹس پوچھتا ہے "آپ کی پارٹی چئیرمین کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ جواب آتا ہے" وہ نیوز و میڈیا میں اعلان ہوگیا تھا کہ بیرسٹر گوہر چئیرمین بن گئے"۔ چیف جسٹس کہتا ہے "باقاعدہ نوٹیفکیشن کہاں ہے؟ کل کو پارٹی چئیرمین (عمران خان) اگر کہہ دے کہ اس نے تو نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا تو پھر کیا صورتحال ہوگی؟"۔
یہ میرے لیے حیران کُن انکشاف تھا۔ پی ٹی آئی نے باضابطہ چئیرمین کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا؟ بس میڈیا میں اعلان کر دیا؟
پھر سوال ہوتا ہے کہ آپ نے انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کروائے اس کی کوئی تصویر کوئی فوٹیج کوئی سیشن تو ہوگا؟ جواب میں آتا ہے کہ بلا مقابلہ منعقد ہوئے۔ یعنی اتنا تکلف بھی نہیں کر سکے کہ برائے نام یا خانہ پُری واسطے انتخابات کروا ہی لیتے اور گونگلوں سے مٹی جھاڑ کے سرخرو رہتے۔ تحریک انصاف نے بھی وہی کارروائی ڈالی، جو اس کی مخالف جماعتیں کرتیں ہیں۔ ایسے حالات میں جب "طاقتیں" آپ کے خلاف ہوں تو آپ کو حد سے زیادہ احتیاط برتنا ہوتی ہے مگر یہ نہیں برت پائے اور یوں قانونی طور پر ناک آؤٹ ہو گئے۔
دوسرا پہلو ہے آئینی۔ اس فیصلے نے ایک بڑی جماعت اور اس کے کروڑوں ووٹرز کو انتخابی سیاست سے بھی ناک آؤٹ کر دیا جو آئینی طور پر درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کسی سیاسی جماعت سے اس کا سیاسی حق نہیں چھین سکتے۔ اس کے فالورز کو انتخابات میں ووٹ دینے سے نہیں روک سکتے۔ یہ جمہوریت کی روح نہیں ہوا کرتی۔ اس فیصلے نے ایک پوری نسل ایک پوری جماعت اور کروڑوں لوگوں سے حق رائے دہی چھینا ہے۔
اب ہوگا کیا؟ ہوگا یوں کہ نظام اور مالکان سے نفرت مزید بڑھے اور پھیلے گی۔ دل باغی ہوں تو جسم بھی ردعمل پر اُترتا ہے۔ نو مئی نہ سہی مگر کل کو یہ فیصلہ ایک اور سولہ دسمبر کی راہ ہموار کرنے لگا تو؟ کب تلک آپ جبر کا نظام چلا سکتے ہیں اور کب تلک کسی جماعت یا گروہ یا نظرئیے کو دبا سکتے ہیں؟ بد دلی پھیلتی ہے تو پھر ہوتے ہوتے عوامی بغاوت پنپنے لگتی ہے۔ افراد کا ریاست سے ایک معاہدہ ہوتا ہے جس کو آئین کہتے ہیں۔ جب آئین سے اعتبار جاتا رہے تو پھر انار کی ہوتی ہے۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ دیتے اس کے دور رس نتائج کو مدنظر رکھا گیا ہے ناں ہی آئین پاکستان کی روح کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
یہ فیصلہ تاریخ میں برا یاد رکھا جائے گا۔ آج ہم بھٹو کی پھانسی، سنہ پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات اور ان جیسے کئی فیصلوں کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتے ویسے ہی اس فیصلے کو دیکھا جائے گا۔ شارٹ ٹرم میں شاید یہ نظام اور اس نظام کے مالکان اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیں مگر لانگ ٹرم میں خسارہ ہے۔
یہ بات درست سمجھتا ہوں کہ ہم جیسے ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت کنٹرولڈ جمہوریت ہوتی ہے۔ جو آمریت کی ہی ایک شکل اختیار کئے رہتی ہے۔ فیصلہ ساز قوتیں پیچھے رہتیں ہیں۔ سول حکومت فرنٹ مین کا کردار نبھاہتی رہتی ہے۔ مگر پھر بھی عوام کو یہ دکھاوا دل بہلانے کو کافی ہوتا ہے کہ ایک مقننہ ایک حکومت چل رہی ہے، جو انہوں نے خود منتخب کی ہے۔ جب یہ ڈھکوسلا بھی کھُل جائے تو پھر کوئی ریاست اپنا وجود پوری طاقت سے بحال نہیں رکھ سکتی۔ ریاست کا عوام کے ساتھ جو عمرانی معاہدہ آئین کی صورت ہے۔ اسے زندہ اور جاندار رہنے دینا ہی ریاست کی فلاح ہے۔
پولیٹیکل انجینئرنگ کرتے سات دہائیاں بیت چکی ہیں۔ اب انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ جس میں انفارمیشن کا پھیلاؤ روکنا کسی طاقت کے بس کا نہیں رہا۔ اس دور میں نوجوانوں کو پروپیگنڈا سے گمراہ کرکے اپنے مقصد کے واسطے استعمال تو کیا جا سکتا ہے مگر ان کو جبر سے دبایا نہیں جا سکتا۔ جو آج بول نہیں سکتے وہ دل میں نفرت پالیں گے۔ جو بول سکتے ہیں وہ بغاوت پر اُتر سکتے ہیں اور بغاوت پر پہلے سے ہی اُتر چکے ہیں وہ اپنے ریاست مخالف بیانئیے کی افزائش کریں گے۔ حالات و ماحول ریاست نے ان کے واسطے خود سازگار بنا دیا ہے۔
میں ہمیشہ سے ایک ہی خیال کا رہا ہوں کہ اس ملک میں دستیاب جو بھی سیاسی مال موجود ہے۔ وہ سب ایک میز پر ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہونا چاہئیے اسی میں ان سب کی فلاح ہے۔ وہ یہ کہ غیر آئینی اقدامات نہیں کریں گے۔ غیر جمہوری طاقت کو اپنا کاندھا پیش نہیں کریں گے اور نہ ہی ان سے سہارا مانگیں گے۔ آج تحریک انصاف جو کچھ بھگت رہی ہے اس میں ان کے ماضی کا بہت بڑا کردار ہے۔ کچھ ہاتھوں کو یہ مضبوط کرکے مزید آہنی بناتے گئے اور کچھ وہ اختیارات جو لینا تھے وہ اپنی منشاء سے ان ہاتھوں کے سپرد کرتے گئے۔ ان کی رخصتی کے بعد پی ڈی ایم حکومت نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ماضی میں دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی آہنی ہاتھوں کو بھگتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے سبق سیکھنے کو کوئی آمادہ نہیں ہوا۔ ایک سرکس پھر سے جاری ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ اس سرکس میں کچھ کو باہر کرنا پڑا ہے اور کچھ کو اندر۔
جس دن ان تمام سیاسی جماعتوں نے سبق سیکھ کر میز پر بیٹھنے کا تہئیہ کر لیا اور ان کے ووٹرز نے یہ تہئیہ کر لیا کہ احتساب بھی اس کا کریں گے، جس کو ووٹ دیتے ہیں۔ اس دن سے سمت درست ہو جائے گی۔ مگر ہنوز دلی دور است۔ افسوس۔
میں نہیں سمجھتا کہ ایک جماعت کو باہر کرکے آنے والے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو پائے گی یا لمبا عرصہ چل پائے گی۔ حالات سُدھرنے کی بجائے بگاڑ کی جانب جائیں گے۔ معیشت کا جنازہ پہلے ہی اُٹھ چکا ہے۔ اس فیصلے کے بعد مجھے بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی اور میرے لیے یہ تشویشناک صورتحال ہے۔ میں اس ملک کا باسی ہوں اور مجھے یہیں جینا مرنا ہے۔ میں تین یا ایکسٹینشن لے کر چھ سال بعد رئیٹائر ہو کر بیرون ملک منتقل ہونے والے "محب الوطنوں" میں سے نہیں ہوں اور میری طرح کے چوبیس کروڑ لوگ بھی ایسے ہی ہیں۔ اس لیے تشویش بھی ہم کو ہی ہو سکتی ہے۔
نوٹ: میرا کلام سنجیدہ اور سینس ایبل لوگوں سے ہے۔ برائے مہربانی اپنی اپنی جماعت کا ہر حال میں دفاع کرنے والے دور رہیں۔ آپ جس ڈگر پر چل رہے ہیں چلتے رہیں۔