Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Pikore Aur Hum

Pikore Aur Hum

پکوڑے اور ہم

شاہراہ ریشم کو نلت کے قریب چھوڑتے ہوئے نلت گاؤں کی جانب چلیں تو دریائے ہنزہ کا پُل عبور کرتے ہی خوبصورت گاؤں آتا ہے۔ یہ راستہ کچا ہے مگر گاڑی کے لئے ہموار ہے۔ شاہراہ ریشم کے برابر، دریا کے پار، نلت گاؤں کے اندر سے یہ کچی سڑک دریا کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور بہت آگے جا کر پھر سے پُل عبور کرکے شاہراہ ریشم سے جا ملتی ہے۔

ایک صبح میں بنا ناشتہ کیئے سفر کر رہا تھا۔ دوپہر کے 2 بج رہے تھے اور نجانے کیوں میرا پکوڑے کھانے کا من ہو رہا تھا۔ کئی بار خیال آیا کہ دنیور بازار سے شاید پکوڑے مل جائیں، اسی واسطے وہاں سے گزرتے ہوئے پکوڑوں کو بہت تلاشا مگر سارے بازار میں ایک بھی پکوڑے والا نہیں ملا۔ خدا بھی بڑا مسبب الاسباب ہے۔ جیسے ہی میں نے شاہراہ ریشم کو چھوڑتے ہوئے نلت گاؤں کی جانب گاڑی موڑی تو دریا کا پُل عبور کرتے ہی سڑک کنارے چار جوان نظر آئے جو سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے باغ میں گھاس پر چٹائی ڈالے، چولہے پر کچھ تل رہے تھے۔

جیسے ہی میں قریب سے گزرا تو کیا روح پرور منظر دیکھتا ہوں کہ سلنڈر پر دھری کڑاہی میں تیل کڑھ رہا ہے۔ ایک نوجوان پتیلے میں آلو بیسن گوندھ رہا ہے۔ باقی دو اس کی مدد کر رہے ہیں اور ایک نوجوان چٹائی پر گاؤ تکیہ ڈالے سکون سے لیٹا سگریٹ پھونک رہا ہے۔ یہ منظر دیکھتے ہی میرے اندر پکوڑوں کی حوار نے تباہی مچا دی۔ میری نظر میں قدرتی مناظر آؤٹ آف فوکس ہونے لگے اور پکوڑے کی تھال فوکس ہوگئی۔ خدا نے من کی مراد تو سُن لی تھی مگر اجنبیوں سے پکوڑے کیسے مانگ سکتا تھا؟ مایوسی کے ساتھ گاڑی کو چیونٹی کی رفتار سے ان نوجوانوں کو دیکھتے آگے بڑھانے لگا کہ شاید ان میں سے کوئی آواز ہی دے کر بلا لے۔۔ مگر۔۔ وادی میں قیامت کی خاموشی طاری رہی، کچھ فاصلے پر صرف دریا کے بہنے کی مدھم سی آواز ہی آ رہی تھی یا پھر کڑاہی میں تیل کڑھنے کی "شڑ شڑ" کی آواز ایکو کرتے گونج رہی تھی۔

انتہائی دلبرداشتہ ہوتے ہوئے میں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ بھوک نے یکدم چوتھا گئیر لگا لیا تھا۔ افسردہ سی صورت بنائے میں گاڑی چلا رہا تھا کہ یکایک ابلیس مردود نے کان میں آواز دی " تم تو فوٹوگرافر ہو ناں؟ نکالو کیمرا اور لوٹ لو پکوڑے"۔ یہ خیال آتے ہی میں نے ابلیس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی کی بریک لگا دی۔ کیمرا نکالا۔ گاڑی پارک کرکے باہر نکلا۔

باہر نکل کر میں نے یونہی ایک کلک دائیں جانب کیا، ایک بائیں جانب۔ پھر کچھ چلتا عین ان کے قریب پہنچا۔ وہ چاروں مجھے دیکھ رہے تھے۔ کڑاہی میں پکوڑوں کی پہلی کھیپ تلی جا رہی تھی۔ وہ جو ایک نوجوان گاؤ تکیئے پر ٹیک لگائے سگریٹ پی رہا تھا مجھے لگا کہ وہی ان کا سرغنہ ہوگا۔ میں اس کے پاس پہنچا۔ سلام لی۔

"بھائی، آپ کی تصویر بہت اچھی آ سکتی ہے۔ بڑا ہی فوٹو جینک فیس ہے آپ کا ماشاءاللہ۔ کیا میں تصویر لے لوں؟"۔ یہ سنتے ہی وہ سانولا سلونا اجے دیوگن یکدم چہکا۔ " ہاں ہاں۔ جتنی مرضی لے لو، بتاؤ کہاں کھڑا ہوں؟"۔

بس بھائیو، فوٹو شوٹ شروع ہوا۔ ان چاروں کی باری باری تصاویر لیں۔ ابھی تک ظالموں نے پکوڑوں کی دعوت نہیں دی تھی۔ میں پکوڑوں کے لالچ میں تصاویر لے کر تھک گیا تو بلآخر مجھے غصہ آنے لگا۔ مزاج میں چڑچڑا پن اُتر آیا۔ ایک خیال آیا کہ بس فوری یہاں سے چلا جائے۔ پھر خیال آیا کہ ان کو اپنا تعارف کرواتا ہوں شاید ان میں سے کوئی مجھے نام سے پہچانتا ہو۔ ٹرائی کرنے میں کیا حرج تھا؟

میں نے باآواز بلند کہا تاکہ بات مبہم نہ رہ جائے " میرا نام سید مہدی بخاری ہے۔ فوٹوگرافر ہوں اور نارتھ کا چپہ چپہ گھوم چکا ہوں"۔ بس یہ کہنا تھا کہ معجزہ ہوگیا۔ ان میں سے ایک نوجوان آگے بڑھا اور میرے گوڈوں کو ہاتھ لگاتے بولا " پیر جی، آپ تو سید ہیں۔ میں ملتان سے ہوں۔ سادات کا غلام ہوں"۔ یوں تو مجھے سخت کوفت ہوتی ہے کہ کوئی انسان کسی کی تعظیم محض اس کی ذات کو جان کر کرنے لگے۔ عام صورتحال ہوتی تو میں اسے لازمی کہتا کہ بھائی میں گنہاگار انسان ہوں، دم درود والا پیر نہیں ہوں۔ مگر اس وقت پکوڑوں نے مت مار رکھی تھی جن کے تلے جانے کی خوشبو اب نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔

"اچھا۔ ماشاءاللہ۔ خوش رہو بھائی۔ آپ سب ملتان سے ہو؟ پہلی بار آئے ہو؟"

"ہاں ہم دوست ہیں۔ کیری ڈبہ پر ٹور کرنے نکلے ہوئے ہیں۔ پہلی بار آئے ہیں۔ " ان میں سے دو نوجوان یک زبان ہو کر بولنے لگے۔ باقی دو پکوڑے تلنے میں مشغول تھے مگر انہوں نے گردن گھما کر ان کی تائید کی۔

"اچھا۔ چلو آپ سب کھاؤ پیو۔ میں چلتا ہوں اب"۔ میں نے مسکراتے ہوئے ان سے مصافحہ کرنے کو ہاتھ بڑھایا۔

"نہ نہ پیر جی! بے ادب نہ بناؤ ہمیں۔ آپ کھائے بنا نہیں جا سکتے۔ ادھر بیٹھیں۔ "۔ وہ جو گاؤ تکییے پر بیٹھا تھا اس نے میرا ہاتھ کلائی سے تھام لیا اور مجھے اپنے پیچھے چلانے لگا۔ مجھے اور کیا چاہیئے تھا؟ اندر انتہائی کمینی خوشی محسوس ہوئی جو میری گالوں سے پھوٹ پھوٹ نکلی۔ میں گاو تکیئے سے ٹیک لگائے اسی انداز میں بیٹھ گیا جس انداز میں کچھ دیر قبل اجے دیوگن بیٹھا ہُوا تھا۔ سگریٹ سلگایا۔

پکوڑوں کی پہلی کھیپ کڑاہی سے اُتری۔ پلیٹ لبالب بھر کر ایک نوجوان میرے سامنے لایا۔ ساتھ کوکا کولا آئی۔ املی کی چٹنی آئی۔ خدا بڑا مسبب الاسباب ہے۔ میں نے ان سب کو باتوں میں لگا لیا۔ وہ مجھ سے شمال کے قصے سنتے حیرت سے شمال کے قصبوں و وادیوں کی معلومات لیتے رہے۔ میں تن تنہا ساری پلیٹ پھڑکا گیا۔ پھر کوک پھڑکائی۔ ایکدم سکون آ گیا۔ مزید کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ پیٹ بھرا گیا۔ سبحان اللہ کیا ہی بے مثال پکوڑے تھے۔ خدا ان کو بہترین اجر عطا فرمائے۔

جب کام ہوگیا تو ابلیس مردود کی پھر آواز آئی "چلو شاہ جی۔ دیر ہو رہی ہے۔ منزل پر پہنچنا ہے"۔ میں نے لاحول پڑھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ان چاروں کا شکریہ ادا کیا۔ وہ مجھے رخصت کرنے پر راضی نہ تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ میں کچھ دیر اور یہاں بیٹھا رہوں۔ ملتانی جوان مجھے "پیر جی" کہہ کر مخاطب کرتا رہا۔ میں نے مرید کو بھرپور تسلی دی۔ اسے اپنا موبائل نمبر دیا اور کہا کہ واٹس ایپ پر رابطہ رہے گا۔

رخصت ہو کر ابھی دو قدم چلا ہی تھا کہ یکایک عقب سے ایک نوجوان کی آواز آئی " شاہ جی! رک جاتے تو کچھ دیر میں ہمارا بار بی کیو کا پروگرام تھا"۔ یہ سنتے ہی مجھے اپنی رخصتی پر بہت افسوس ہُوا اور کان میں اب کے ایک غیبی آواز آئی "جلدی کا کام شیطان کا"۔ میں نے ابلیس مردود پر لعنت بھیجی۔ اب کیا ہو سکتا تھا۔ باقی کا راستہ منہ میں ملائی بوٹی گھُلنے کی پرلطف ساعتوں کو سوچتے شیطان پہ تھُو کرتے گزرتا رہا۔ مگر وہ کیا ہی شاندار پکوڑے تھے۔ کاش کوئی اور مراد بھی مانگ لی ہوتی۔ فبائی آلاء ربکما تکذبان۔

Check Also

Siyah Heeray

By Muhammad Ali Ahmar