Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Parhi Likhi Jahalat

Parhi Likhi Jahalat

پڑھی لکھی جہالت

پروردگار نے انسان کو دو آنکھیں عطا فرمائیں تاکہ وہ بہتر دیکھ سکے مگر کئی لوگ ہر معاملہ زندگی کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتے ہیں اور پوری عمر کانے ہی گزار دیتے ہیں۔ دو کان ملے مگر ایک سے سنتے ہیں، دوسرے سے بہرے رہتے ہیں، دماغ کے بھی دو حصے ملے۔ دائیں اور بائیں۔ کریٹیکل تھنکنگ والا پارٹ دماغ کا بائیاں حصہ ہے مگر اس کو استعمال میں ہی نہیں لاتے۔ پروردگار نے اپنے عطا کردہ ہر شے کا حساب مانگنا ہے کہ تجھے مکمل بنایا تھا تو کانا، بہرہ اور ذہنی مفلوج کیوں رہا؟

کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کیا مرنے کے بعد ہم سب سے سوال جواب ہوگا؟ کیا اس معاشرے کا دوزخ بھگت کر اوپر بھی دوزخ بھگتنا ہے؟ یومِ الست کو خدا نے روحوں سے وعدہ لیا تھا "بتاؤ تمہارا ربّ کون؟" سب یک زبان ہو کر بولیں"تو ہی ہمارا ربّ ہے"۔ مجھے لگتا ہے ایسا بولتے جن کی زبان میں ذرا سی لرزش رہی ہوگی یا دل میں رتی برابر یقین کی کمی ان سب روحوں کو خدا نے جسموں میں ڈھال کر مملکت خداداد پاکستان میں بھیجا کہ جاؤ وہاں بھی بھگتو اور واپس بلا کر بھی پوچھوں گا۔

مسئلہ یہ نہیں کہ جہالت ہے۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ پڑھی لکھی جہالت ہے۔ باعلم جہالت ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ان پڑھ شخص جاہل بھی ہو۔ جاہل ہونے کے لیے تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ عمرو ابن ہشام قریش میں ابو الحکم (دانش کا باپ) کے لقب سے جانا جاتا تھا۔ مگر اسی ابوالحکم نے اپنی کور چشمی کے سبب دربار رسول سے ابوجہل کا لقب پایا۔ ایسا ہٹیلا کہ مرتے مرتے بھی کہہ مرا کہ میرا سر گردن سمیت کاٹنا تاکہ دیگر سروں کے درمیان ممتاز رہے۔

ان پڑھ لاعلم ہوتا ہے مگر حصولِ علم سے لاعلمی کا مداوا کر لیتا ہے۔ جاہل باعلم ہوتا ہے مگر اس کا باعلم ہونا اس سمیت کسی کے کام نہیں آتا۔ ان پڑھ جانتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ جاہل سمجھتا ہے کہ وہ سب جانتا ہے۔ علم حلم پیدا کرتا ہے۔ جہل غرور علم پیدا کرتا ہے۔ ان پڑھ اکبر اعظم (مہابلی اکبر) ہو سکتا ہے مگر جاہل ترقی کر کے جاہل اعظم ہو جاتا ہے۔

ان پڑھ اگر پڑھ لکھ جائے تو امکان ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اس راہ پر لگا دے لیکن جاہل کو پیر رکھنے کی بھی جگہ مل جائے تو وہ علم کی ہری بھری کھیتی اجاڑنے کے لیے بہت ہے۔ اور اگر کسی قوم کو سیاستدان، سپہ سالار، قلمکار و منبر و محراب والے ہی عقل سے پیدل مل جائیں تو پھر ایسی قوم کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہی نہیں۔ ان کے مریدین، فالورز یعنی سپاہِ جہلت ہی کام تمام کرنے کے لیے کافی ہے۔

مغرب کو تو چھوڑیں، آپ پاکستان کا موازنہ برادر اسلامی ممالک سے کر کے دیکھ لیں۔ تُرکیہ، ملائیشیا، انڈونیشیا، مراکو، عرب امارات سمیت خلیجی ممالک کا ریاستی نظام دیکھ لیں۔ وہاں مطلق العنان حکمرانوں کے ہوتے بھی نظام پورے اعتماد سے کھڑا اور رعایا کے انسانی حقوق کا محافظ ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت نما کوئی شے انسٹال ہو کر بھی malfunction کر رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ جب آپ بغور مشاہدہ کریں گے تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ سیاسی، مذہبی اور سماجی جہالت نے ہمارے گلے میں طوق ڈال رکھا ہے کہ ایک قدم چلنا بھی محال ہے۔

اس قوم کو بہت مشقت سے جاہل بنایا گیا ہے، پالا گیا ہے، پوسا گیا ہے۔ سب سے بڑی ایکسپورٹ ہماری خوف ہے۔ ہم اپنے لیے بھی ڈر کاشت کرتے ہیں اور بیرونی دنیا کے واسطے بھی ڈر ایکسپورٹ کرتے ہیں۔ افغان وار سے آج تلک ہم نے ڈر ہی تو بیچا ہے۔ ڈر ہی تو اگایا ہے۔ اندرونی طور پر ہم دنیا سے ڈرے ہوئے لوگ ہیں اور بیرونی طور پر دنیا ہم سے ڈری ہوئی ہے۔ کروڑ ہا کروڑ کی سپاہ جہلت ہے جس کا سالار باوردی ہے۔ طاقت کا مرکز سٹک ہے۔ اور سٹک تو پھر ریوڑ کے لیے ہی ہوتی ہے۔ سٹک والا پھر جس سمت بھی ریوڑ ہانکنا چاہے۔

Check Also

Mukalmat Zindagi Badal Dene Wali Kitab

By Abid Hashmi