Nisab Yehi Pao Ge
نصاب یہی پاؤ گے
بجلی کا بل دیکھ کر یقین ہوگیا کہ ہماری بجلی کا ایک یونٹ دشمن کے بیس یونٹس کے برابر ہے۔ آئی پی پیز سے چھٹکارے کا رونا روتے ہمارے آنسو خشک نہیں ہو رہے مگر کیا کیجیے اس سسٹم کا جس کے سارے مہرے اور پرزے خود رینٹل پاور پروڈکشن یونٹس کے مالکان ہیں اور پھر ہمارے "تجربہ کار" سیاستدانوں کی وہ مشقتی ٹیم جس نے سنہ 2013 تا 2017 انتھک محنت کرکے وطن عزیز سے اندھیروں کو دور کرنے واسطے اندھا دھند معاہدے کئیے۔ نتیجتہً آئی پی پیز نامی رینٹل ٹھیلوں کا بازار سجا۔ اندھیرے تو دور ہوئے پر عوام کے ساتھ نظام کے کپڑے اُتر گئے۔ اب ننگی عوام اور ننگا نظام اک دوجے کا منہ تاک رہے ہیں۔
بھلا ہو عمرانی حکومت کا جس کے اچھے کاموں میں ایک کام یہ تھا کہ اس نے رینٹل ٹھیلوں سے معاہدوں کو ری نگوشیئٹ کرکے کیپسٹی چارجز کے نام پر واجب الادا رقم فکس ڈالر ریٹ میں فکس کروا دی۔ مگر وہیں ان معاہدوں کی توثیق بھی فرما گئے۔ ندیم بابر صاحب رینٹل یونٹ کے مالک کو وزارت پٹرولیم پر براجمان کیا اور رزاق داؤد نامی انویسٹر کو تجارت کا سپیشل ایڈوائزر بنایا۔ میاں منشاء کے رینٹل یونٹ کو کیپسٹی چارجز پر اربوں کی ادائیگیاں ہوئیں اور پھر پی ڈی ایم آ گئی۔ گلشن کا کاروبار دراز ہوگیا۔
پچھلی ساڑھے سات دہائیوں سے یہاں ہر وردی اور شیروانی والا ننگ دھڑنگ لوگوں کو ڈیموکریسی کے نام پر الیکٹو کریسی بیچ رہا ہے۔ لوگ واقعی چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ لیکن مافیا، کارٹیل اور گلڈ کی سفاکی سے کیسے چھٹکارا پائیں جہاں سائے نے بھی سائے سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ جہاں وقت بھی اندر خانے پروفیشنل خرکاروں سے ملا ہوا ہے۔ رات اپنے شکار کو اگل کر دن کے حوالے کردیتی ہے اور دن پھر اس شکار کو نچوڑ کر رات کے سیاہ جبڑوں میں واپس دے دیتا ہے۔
یہ کروڑوں بے سکون و بے چہرہ لوگ اس بے چارے کی طرح ہیں جو بدفعلی کی خبر سن کر مدرسے پہنچا اور چیختے ہوئے کہا کہ اب میں اپنے بچے کو ایسی واہیات جگہ نہیں پڑھاؤں گا۔ مدرسہ انچارج مسکراتے ہوئے بولا "تھکنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ جہاں بھی داخل کراؤ گے نصاب کم وبیش یہی پاؤ گے"۔