Nikaal, Band Hai, Khol Do
نکال، بند ہے، کھول دو
جب کوئی تیز رفتار مسلح موٹرسائیکل سوار آپ کے بالکل برابر آن کر کہے "نکال" تو یہ نکال سُنتے ہی آپ کا ایک ہاتھ خود بخود پینٹ کی پچھلی جیب میں پڑے بٹوے اور دوجا ہاتھ دوجی جیب میں پڑے موبائل کی جانب چلا جانا چاہئیے۔ بصورتِ دیگر عجلتی ڈاکو آپ کو اس جہان سے نکال کر خود پتلی گلی سے نکل لے گا۔ واردات کے بعد روتے دھوتے یا پریشان حالی میں کسی باوردی کے پاس شکایت لے کر جانا چاہئں تو سو بسم اللہ۔ مگر وہ بھی یہی کہے گا کہ کچھ نکال۔ ٹریفک سگنل پر کھڑے فقیر سے لے کر اعلیٰ و ارفع حکومتی شخصیات تک کسی کے بھی منہ سے کسی بھی وقت "لا نکال" نکل سکتا ہے۔
اگر آپ کی خوش قسمتی نے کسی بھی طرح آپ کو "نکال" سے بچا بھی لیا تو اس دو حرفی جملے سے کیسے بچیں گے "بند ہے"؟ کسی بھی شاہراہ یا گلی یا چوک میں ایک ڈنڈا بردار باوردی یا بے وردی نمودار ہو کر بس اتنا ہی کہے گا" آگے بند ہے" یعنی بلا چوں چراں راستہ بدل جا۔ ہمت ہے تو اس سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ بھائی کیوں بند ہے۔ اس بند کا کچھ بھی مطلب ہو سکتا ہے۔ سڑک کے بیچ لگا کسی مقامی کن کٹے کے بیٹے کی شادی کی تقریب کا شامیانہ یا چوک کے عین بیچ دو جلتے ہوئے ٹائر یا گلی کے آر پار رسی تھامے چار پانچ لونڈے یا سڑک کے بیچ دھرے پانچ چھ بڑے پتھر۔ آپ کو اُلجھے، بڑبڑائے اور ماتھے پر ایک بھی شکن ڈالے بنا واپس پلٹنا ہوگا۔
مجھے یہ نہیں معلوم کہ بند کا لفظ حکومت نے نجی گروہوں سے سیکھا یا نجی گروہوں نے حکومت سے۔ مگر حکومت یہ اصطلاح نافذ کرنے میں سب پر بازی لے گئی۔ بس دو ضبط شدہ کنٹینر آڑے ترچھے ہی تو کھڑے کرنے ہیں۔ شاہی پروٹوکول گزارنے کو ایک سنتری ہاتھ کے ہاتھ کا اشارہ بھی کافی ہے۔ یہاں کسی بھی سڑک پر کوئی بھی " یہ شارع عام نہیں" لکھ سکتا ہے۔ اپنے گھر کے باہر دو مسٹنڈے گارڈز بٹھا کر بیرئیر لگا سکتا ہے۔ سپیڈ بریکر بنا سکتا ہے۔ یہ راز اب کھُل چکا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان نہ اردو ہے نہ انگریزی بلکہ طاقت ہے۔ کوئی بھی گروہ سو ڈیڑھ سو لاروا نما لونڈے نکال کر شاہراہ بند کر سکتا ہے۔
یہ قوم "لا نکال" اور "بند ہے" کی اس قدر عادی ہوتی گئی کہ گام گام پر جیب خالی کرنے کا فن سیکھ لیا اور پوچھ گچھ کی بجائے راستے بدلنے کی ماہر ہوگئی۔ ہوتے ہوتے اس کا حال ایک تیسرے دو حرفی لفظ سا ہوگیا ہے جو منٹو کے افسانے کا عنوان ہے "کھول دو"۔ کھول دو افسانے کی سکینہ کو ایک سے دوسرا، دوسرے سے تیسرا یا اللہ جانے آٹھواں بارہواں بردہ فروش کبھی منہ بولا بھائی کبھی پرہیزگار مولوی کبھی اچھے ہمسائے کا روپ دھارے ایک سے دوسرے کو سونپتا گیا۔ کبھی وزرائے اعظم و وزراء، کبھی باوردی افسران کبھی معزز ججز نے اس سکینہ کو ایسا کھدیرا کہ اب بے جان و بے حس سکینہ کے شعور و لاشعور میں ایک ہی جملہ رہ گیا ہے "کھول دو"۔ جیسے ہی یہ جملہ سننے کو ملتا ہے اس نیم جان سکینہ نامی قوم کا ہاتھ خود بخود نیچے چلا جاتا ہے۔
یہ سب لکھتے مجھے ایک خبر سنائی دی کہ بجلی کے بلز کے سبب اب تک پانچ افراد خودکشی کر چکے ہیں۔ نجانے کیوں یہ خبر سنتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ یہ پانچ چھ لوگ "لا نکال" اور "بند ہے" کو بھگتتے ہوئے بھی زندہ تھے جو اب مر گئے ہیں۔ باقی قوم تو "کھول دو" کی عملی تفسیر بنے نیم جاں پڑی ہے۔