Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Nai Nasal Ki Uljhanein

Nai Nasal Ki Uljhanein

نئی نسل کی الجھنیں

ایک استاد کی حیثیت سے میں دو سال ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا رہا ہوں اور باقی یونیورسٹیوں میں کسی نہ کسی کام یا کسی تقریب کے سلسلے میں جانا رہتا ہے۔ ہماری نئی نسل گھریلو مسائل کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہے۔ ایسے ایسے گھریلو مسائل ہیں کہ بیان نہیں کیئے جا سکتے۔ ڈپریشن سے چھٹکارے کے لئے ڈرگز کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جن کو کوئی مسئلہ نہیں وہ کمپنی کی وجہ سے یا بطور فیشن "کول" لگنے کے لئے ڈرگز استعمال کرتے ہیں۔ چرس تو بہت عام اور معمولی بات ہے۔ چرس سے آگے جہان اور بھی ہیں۔۔

جس عمر میں اب نئی نسل "بریک اپ" کا سوگ مناتی ہے اس عمر میں ہمیں یہ فکر ہوا کرتی تھی کہ قلیل پاکٹ منی سے مہینہ بھر کیسے گزرے گا۔ فرینڈ شپ کی جگہ "بوائے فرینڈ" اور "گرل فرینڈ" جیسے الفاظ نے لے لی ہے اور تعجب اس پر ہوتا ہے کہ نئی نسل کو ایسا بولتے شرم بھی نہیں آتی۔

ہماری نئی نسل کے ڈپریشن کے سبب بہت سے مسائل ہیں جن کے زیرِ اثر تین ہی الفاظ ذہنوں میں سمائے ہیں اور یہی ان کی priority ہے۔۔ سیکس، ڈرگز اور ہینگ آوٹ۔۔

ایک یونیورسٹی میں لیکچر کے لئے جانا ہوا۔ کیفے ٹیریا میں بیٹھے ہوئے ایک نوجوان لڑکیوں کا گروپ آیا اور مجھ سے تعارف کروانے کے بعد فینسی انگریزی میں پوچھا گیا " سر آپ straight ہیں یا bisexual یا homosexual "۔ میرے لئے یہ سوال بہت حیران کن تھا۔ میں نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا " بچو! میں happily married ہوں اسی میں آپ کا جواب ہے"۔۔ گروپ میں سے ایک لڑکے نے کہا " سر مائینڈ نہ کیجیئے گا ہمارا یہ رواج ہے کہ اجنبی سے پہلے تعارف میں یہ پوچھا جاتا ہے۔ یہ آپ کو جانتے نہیں اس لئے فری ہو کر پوچھنے لگے۔۔ اوپن مائنڈڈ ہیں سر"۔۔ میں نے جواب دیا کہ بچو! انسان کو اوپن مائنڈڈ ضرور ہونا چاہیئے لیکن اتنا بھی اوپن مائنڈ نہ ہو کہ مائنڈ ہی گر جائے۔۔

یونیورسٹیاں بچوں سے بھری ہوئی ہیں کسی بھی یونیورسٹی میں داخل ہو کر دیکھ لیں آپ کو لباس اور میک اپ سے لے کر حجاب کے نت نئے فیشن بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ بطور استاد میرا جتنا مشاہدہ ہے وہ یہی ہے کہ والدین کی لاپرواہی، توجہ اور وقت کی کمی نے نئی نسل کو ایسی غار میں دھکیل دیا ہے جس کے دھانے پر کوئی روشنی نہیں۔ پیسے کمانے کی دھن میں اولاد کا سودا کر لیا ہے اور ان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔

کچی عمر کے ذہن اپنا برا بھلا کیا سوچ سکتے ہیں ؟ جو جس راہ لگ جاتا ہے لگا رہتا ہے۔ نہ جانے ہم کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ جسمانی بیماری کے لئے جنرل فزیشن کو دکھانا جتنا ضروری ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری نفسیاتی مسائل کے حل کے لئے ماہر نفسیات کو دکھانا ہے۔

یہ سب کیونکر ہوا؟

وقت کا پہیئہ تیز ہوا تو سماجی و معاشی حالات اور بدامنی کے سبب ہم لوگ اپنے اپنے ڈبوں میں بند ہوتے چلے گئے، ہمارا بچہ میرے بچے میں بدل گیا، ہمارا محلہ صرف میرے گھر تک رہ گیا۔ باہر نہیں نکلو گے باہر خطرہ ہے، محلے کے بچوں میں نہیں اٹھو بیٹھو گے، وہ ہمارے اسٹینڈرڈ کے نہیں بلکہ گنوار ہیں۔ نہیں فٹ بال نہیں کھیلنا چوٹ لگ جائے گی، ہاکی کون کھیلتا ہے اس زمانے میں۔ یہ لو وڈیو گیم، یہ لو ٹیبلٹ، یہ لو انٹرنیٹ۔ اس بار صرف اسی پرسنٹ نمبر آئے اگلی بار نوے پرسنٹ لائے تو موبائل ملے گا۔ کھیل کود میں وقت ضائع نہ کرو، یہ عمر زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی ہے ورنہ پیچھے رہ جاؤ گے۔

جب پلے گراؤنڈز کا کوئی والی وارث نہ رہے تو وہ کچرے کے ڈمپنگ گراؤنڈ بنتے چلے گئے، خالی فلاحی پلاٹوں پر راتوں رات مساجد و مدارس نمودار ہوتے چلے گئے، دکانیں پھوڑوں کی طرح ابھرنے لگیں، بلڈرز ہر کھلی جگہ ڈکار لیے بنا ہڑپ کرتے چلے گئے۔ اسکول صرف کلاس رومز کی قطار کا نام ہوگیا۔ پلے گراؤنڈز صرف پرانے اسکولوں کے قصے کہانیوں میں رہ گئے۔

مگر بچے تو بچے ہیں، ہر گلی میں شام کے وقت اینٹ کے اوپر اینٹ رکھ کے گول پوسٹ یا وکٹ بنا کر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے بچتے ہوئے فٹ بال اور کرکٹ کھیلنے والے ان معصوموں کو اگر بتاؤں کہ ہمارا بچپن کیسا گزرا تو وہ رشک کرنے کے بجائے گول گول دیدے گھماتے ہوئے ایک دوسرے سے سرگوشی کرتے ہیں "انکل چریا ہیں، پتہ نہیں کیا کیا الٹی سیدھی کہانیاں ہانکتے رہتے ہیں "۔

اس وقت پاکستان کی پینسٹھ فیصد آبادی کی عمر تیس برس سے کم ہے۔ ہم نے اپنے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ کیا کیا ہے؟ اس کی ایک جھلک اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی نیشنل ہیومین رپورٹ دو ہزار سترہ میں مل جائے گی۔ سات ہزار نوجوانوں کی سماجی مصروفیات اور سرگرمیوں کے سروے سے اندازہ ہوا کہ 78 فیصد کی پارکس تک رسائی نہیں، 95 فیصد کو کسی لائبریری میں جا کے مطالعے کا کوئی تجربہ نہیں، 97 فیصد نے کبھی آمنے سامنے بیٹھ کر کسی گلوکار کو یا لائیو میوزک نہیں سنا، نہ کبھی سینما جا کر فلم دیکھی، 94 فیصد نے کوئی میچ پلے گراؤنڈ میں جا کر نہیں دیکھا۔

پھر بھی مجھ سمیت تمام چرئیے سر پکڑے غور فرما رہے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اسٹریٹ کرمنل ہونے، آئس، چرس اور شراب وغیرہ، چھوٹی چھوٹی بات پر غصے سے بے قابو ہو جانے، کسی انتہا پسند گروہ کا خام مال بننے، گھر کے اندر بیگانہ بن کے رہنے اور صحت مند تفریحات میں دلچسپی نہ لینے کی عادت سے کیسے بچائیں۔ اے چریو! آپ نے ان کے لیے بچا کے رکھا ہی کیا ہے جس کے چھوڑے جانے کا غم آپ کی نیند حرام کیے ہوئے ہے؟

Check Also

America, Europe Aur Israel (1)

By Muhammad Saeed Arshad