Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Nafsiyati Bhook

Nafsiyati Bhook

نفیساتی بھوک

زارا کپڑوں میں دنیا کا مشہور برآنڈ ہے۔ بنیادی طور پر یہ مڈل کلاس کے لیے شروع ہوا تھا۔ مگر کوالٹی کے سبب اور وقت کے ساتھ مہنگا بھی ہوتا گیا اور اب یہ دنیا کی مڈل کلاس کی دسترس سے بھی باہر نکل رہا ہے۔ ابھی چند دن قبل ہی میں مراکو میں ایک مال میں داخل ہوا۔ زارا کے سٹور پر فلیٹ چالیس فیصد آف لگا ہوا تھا۔ سٹور میں معمول کا رش تھا۔ جیسا عام دنوں میں مالز میں ہوتا ہے۔ کوئی افراتفری نہیں۔ کوئی چھینا جھپٹی نہیں۔ بلکہ انتہائی سکون تھا۔

سن 2015 میں سیشلز میں پہلی بار ٹم ہارٹنز کی کافی پینے کا اتفاق ہوا۔ ایک عام سا دن تھا اور معمول کے مطابق لوگ تھے۔ سب پرسکون تھا۔ جن جن ممالک میں آج تلک گیا ہوں وہاں میں نے کبھی کسی برآنڈ کی سیل پر یا کسی فوڈ چین پر افراتفری و بدنظمی نہیں دیکھی۔ ٹم ہارٹنز کئی ممالک میں دیکھا، مگر کبھی ایسا دل ہی نہیں چاہا کہ یہاں کافی لازم پینا ہو۔ میرے اپنے خیال میں کافی میں starbucks اور Costa دو ایسے برآنڈز ہیں، جو بہت بہتر ہیں۔

دنیا بھر میں طبقاتی تقسیم دیکھی ہے۔ یہ حقیقت ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے۔ مگر خلیج اتنی گہری نہیں ہوتی جتنی ہمارے ہاں ہو چکی ہے۔ امیر و غریب میں فرق ضرور ہوتا ہے۔ مگر اتنا واضح نہیں ہوتا کہ آپ حال حلئیے یا اس کے کھانے سے پہچان لیں کہ امیر کون ہے اور غریب کون۔ ایک تو غربت کا مطلب بھی واضح کرنا ضروری ہے۔ غربت اسے کہتے ہیں جس میں انسان ہینڈ ٹو ماؤتھ ہوتا ہے۔ یعنی جتنا کماتا ہے، اتنا ہی خرچ ہو جاتا ہے۔

سرمایہ بچ نہیں پاتا۔ اثاثہ بن نہیں پاتا۔ ایسی کلاس کو دنیا غریب گردانتی ہے اور حقیقت میں غربت ہوتی بھی یہی ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ غربت تو ہے ہی مگر اصل مسئلہ بھوک ہے۔ بھوک میں اگلے پل کا بھروسہ نہیں ہوتا کہ اگلے پہر کھانے کو ملے گا بھی یا نہیں۔ بھوک انسان کو عزت نفس کا سودا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہم بھوکے لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں کروڑوں بھوکے لوگ ہیں۔ یہاں مسئلہ امیر اور غریب میں نہیں۔ یہاں مسئلہ مڈل اور اپر مڈل کلاس میں ہے۔

ایک حقیقی بھوک ہے دوجا مڈل و اپر مڈل کلاس کی نفسیاتی بھوک ہے۔ مثال کے طور پر، آپ ذرا تصور کریں کہ اگر زارا پاکستان میں ہو اور وہ چالیس فیصد سیل لگائے تو یہاں کیا حال ہو؟ یہ قوم جو کھاڈی، سفائر اور وغیرہ وغیرہ کے سٹورز پر سیل پر پِل پڑتی ہے یہ تو زارا کے سیلز بوائز و گرلز کے چیتھڑے بھی اڑا کے لے جائیں۔ اور ایسی حرکات امیر انسان نہیں کرتے، نہ ہی غریب انسان کرتے ہیں۔ یہ حرکات وہ طبقہ کرتا ہے، جو مڈل اور اپر مڈل کلاس کے بفر زون میں ہوتا ہے۔

جو کچھ خوشحال ہے، مگر مکمل خوشحال بھی نہیں۔ جو اتنا تو افورڈ کر سکتا ہے کہ سیل پر کسی طرح خرید لے مگر اتنا افورڈ نہیں کر سکتا کہ نارمل پرائس پر برآنڈز کو مسلسل خرید سکے۔ جس کا کاروبار میں کوئی جیک لگ جائے تو مڈل کلاس سے نکل کر اپر مڈل میں آ جاتا ہے اور کچھ نقصان ہو جائے تو اپر مڈل سے نیچے مڈل کلاس میں آ جاتا ہے۔ میکڈونلڈز، کے ایف سی، پیزا ہٹ وغیرہ وغیرہ وغیرہ پوری دنیا میں سستا فوڈ سمجھا جاتا ہے۔

مگر ہمارے ہاں پھیلی حقیقی و نفسیاتی بھوک اور پست معیار زندگی کے سبب یہ سٹیٹس سمبل ہے۔ یہ برآنڈز پر ٹوٹتا طبقہ صاحبو نہ امیر ہے نہ غریب۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ خبروں کی سرخیوں میں یا سوشل میڈیا پر ایسی حرکات پر مبنیٰ تصاویر کے نیچے لوگ امیروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں تو مجھے ہنسی آ جاتی ہے۔ یہ ہم ہی لوگ ہیں۔ صاحبو، اس ملک کا مڈل کلاس طبقہ، پڑھا لکھا، ڈگری یافتہ، وائٹ کالر۔ یہ نفیساتی بھوک ہے اور نفیساتی بھوک کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔

Check Also

Shayari Nasal e Insani Ki Madri Zuban Hai

By Nasir Abbas Nayyar