Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Mujhe Kaam Batao Mein Kya Karoon Mein Kis Ko Khaon

Mujhe Kaam Batao Mein Kya Karoon Mein Kis Ko Khaon

مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو کھاؤں

پتہ نہیں ہم کو گھیر کر گڑھے میں پھینکا گیا ہے یا بعد از حشر پھینکا جانا ہے۔ قیامت شاید آ گئی ہو اور ہم جہنم ہی کاٹ رہے ہوں یا اگر ابھی کاٹنا ہے تو یہاں کیا بھگت رہے ہیں؟ کبھی کبھی تو سمجھ نہیں آتی۔ کچھ دیر پہلے ایک صاحب نے پیغام بھیجا کہ وہ کچھ خیرات بھجوانا چاہتے ہیں مگر اس سے کسی احمدی گھرانے کی مدد نہ کی جائے۔ یہ پڑھ کر میں نے انہیں جواب دیا کہ سر جی آپ بالکل نہ بھجوائیں اور پہلے لوگوں سے عقیدے جان کر اپنی رقم خود خرچ کریں۔ میں نے تو ناں کسی کے عقیدے ٹٹولے ہیں نہ کلمے سنے ہیں۔ لہذا مجھے نہیں معلوم کہ کون کیا ہے۔ مسلم بھی ہے کہ نہیں۔ دہریا ہے یا نیم دہریا۔ مسلمان ہے یا مومن ہے۔ میں نے بس برائے انسانیت ہی پرکھا ہے سب کو اور اس مذہب کی رُو سے سب برابر اور اہل وطن ہیں۔

کچھ دیر خاموشی رہی پھر کال آ گئی۔ میں نے اُٹھا لی۔ خیر وہ سلجھے ہوئے انسان تھے اس واسطے شرمندہ ہو گئے اور غلطی کا احساس ہوگیا۔ میں نے لائٹ موڈ میں کہا " یہ رقم کسی ختم نبوت یوتھ فورس ٹائپ تنظیم کو دے دیں، وہ ان سے ڈنڈے سوٹے، پٹرول اور شیشیاں اور دیگر سامان لے لیں تاکہ بوقت ضرورت ریاست اور دائرہ اسلام سے خارج لوگوں کئی مرمت کرنے کے کام آ سکے"۔ جواب میں قہقہہ لگا کر بولے " اے ہُن تُسی غصہ کر گئے او"۔ بہرحال پندرہ بیس منٹ بات ہوئی اور مجھے انہوں نے ہی کہا کہ اس ایشو پر لکھ دیں کیونکہ یہ صرف میرا ہی نہیں نجانے میرے جیسے کتنوں کا مائنڈ سیٹ ہے جو بچپن سے ہمارے اندر انسٹال کیا گیا ہے۔

ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب ایک فرقے کے عالم دوسرے فرقے پر تنقید کرنا چاہتے تھے تو اس کام کے لیے ایک کتاب لکھتے تھے اور اس پر اپنا نام پتہ بھی چھپواتے تھے۔ آج کل کی طرح دو دو صحفوں کے بے نام کتابچے نہیں جن پر موجودہ دشمن اور متوقع مقتول کو کتابچے سے ملتے جلتے لفظ سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ بات کتابچوں سے بڑھتی بڑھتی اب تو اس نہج پر پہنچی ہے کہ لاہور کی سب سے بڑی آئی ٹی مارکیٹ حفیظ سینٹر میں جابجا اشتہار مل جاتے ہیں" یہاں قادیانیوں کا داخلہ منع ہے"

وہ وقت جب شیعہ، سنیّ، بوہری، اسماعیلی، یہاں تک کے قادیانی بھی مل جل کر رہا کرتے تھے "دور جاہلیت" کہلاتا ہے۔۔ تقریروں کی جگہ نعروں نے لے لی، اعتراض مغلظات میں بدل گئے، دلیل کو فتووں نے دیس نکالا دے دیا اور کتابیں سکڑ کر دو صفحوں کا پمفلٹ بن گئیں۔ مکالمہ ختم ہونے کے بعد ویسے بھی دلیل کے ضرورت نہیں تھی، فیصلہ ہو چکا تھا صرف اعلان باقی تھا جس کے لیے دو صفحے کافی تھے۔ ایک پر کفر کا فتویٰ اور دوسرے پر جنگ کا اعلان۔

تکفیر کا جن بوتل سے باہر آ چکا تھا اور "مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو کھاؤں" کا نعرہ بڑے زور و شور سے لگا رہا تھا۔ جن کی بھوک اتنے زوروں پر ہے کہ مذہب اور ریاست کی یکجائی کے علم بردار اہلِ مذہب نے افغان جنگ کے عطا کردہ صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے خود ہی ثواب کمانا شروع کر دیا۔ نو گیارہ کے بعد دنیا بھر سے نو دو گیارہ ہو کر آنے والے مجاہدوں سے مسلک کش فتووں کو تقویت ملی اور مجاہدوں کو تربیت۔

بات احمدیوں سے چلتے شیعوں تک پہنچی اور دوسرا نعرہ جو احمدی کُش مہم کے بعد اس ملک میں گونجا وہ شیعہ کاف* کا تھا۔ بات یہاں بھی رک جاتی تو خیر تھی رفتہ رفتہ سب ہی اس لپیٹ میں آنے لگے اور اب ہر کسی کے ہاں ہر دوسرا فرقہ جہنمی، مطعون اور قابلِ نفرین ہے۔

اگر آپ پوچھیں کہ ریاست اس ساری کہانی کے دوران طلسماتی کہانیوں کی شہزادی کی طرح سوئی ہوئی تھی تو میں کہوں گا کہ نہیں۔ اگر آپ پھر بھی سوال کرنے سے باز نہ آئیں اور یہ پوچھیں کہ پھر وہ کیا کر رہی تھی تو میں ہنس دوں گا اور آپ کو ٹالنے کے لئے یہ بتانا شروع کر دوں گا کے کسی زمانے میں سنی و شیعوں کے مافق پروٹسٹنٹ اور کیتھولک بھی رفع یدین پر آپس میں لڑا کرتے تھے۔ لاکھوں لوگوں کی موت اور کئی دہائیوں کی غارت گری کے بعد ایک کیتھولک پادری نے یہ اعلان کیا کہ پروٹسٹنٹ فرقے کے پیروکاروں کو مارنا نہیں چاہئے کیونکہ یہ تعداد میں اتنے ہیں کہ انہیں مار کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔

مجھے یہ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ اگر تکفیر اور معاشرے کی ان سے تطہیر کے بعد بھی کہانی کا جن "مجھے کام بتاؤ میں کیا کروں میں کس کو کھاؤں" پکارتا رہا تو کیا ہوگا۔ قتل گاہ میں اگلی باری کس کی ہوگی۔ کسی دن جن آپ کے حضور پیش ہو کر بولا کہ "میں کس کو کھاؤں" تو کیا جواب دیں گے آپ؟

Check Also

Eid Gah

By Mubashir Aziz