Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Mujhe Gujranwala Se Mohabbat Hai

Mujhe Gujranwala Se Mohabbat Hai

مجھے گوجرانوالہ سے محبت ہے

گوجرانوالہ کی بھی اپنی ہی پہچان ہے۔ بڑی داڑھیوں والے حاجی صاحب اور اس سے بھی بڑے ان کے پیٹ۔ کھاتا پیتا شہر ہے اور سارا کھایا پیا سر سے پاوں تک لوگوں کے وجود سے دکھتا بھی ہے۔ ٹریفک وارڈن بیچاروں کا بھی کوئی حال نہیں۔ گوجرانوالہ جی ٹی روڈ پر وارڈن نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ میں نے سیٹ بیلٹ نہیں پہنی ہوئی اسی لئے اس نے روکا ہے۔ غلطی تو اپنی تھی میں نے سوچا ذرا شغل ہی لگا لوں۔

وارڈن گاڑی کے پاس آ کر بولا " اپنا لائسنس دیں"۔۔ میں نے فل ٹائم انگریزی موڈ آن کر لیا۔ میں نے اسے کہا " وات؟"۔۔ بولا " لائسنس"۔۔ میں نے کہا " اوہ مین، آئی دونت ہیو مائی لائسنس رائت ناو۔ وات دو یو وانت؟"

بولا " یو ناٹ پاکستانی؟"۔۔ میں نے کہا " نو نو۔ آئی ایم نات پاکچتانی۔ آئی ایم صومالیئن۔ یو ناؤ افریقہ؟ ورکنگ ہیئر ان یونائیتد نیشنز"۔۔ بولا " اوکے جاؤ۔ گو گو"۔۔

بیچارے کی انگریزی ختم ہو چکی تھی۔ اس نے جان چھڑوانے کو کہا کہ جاؤ۔ پتا نہیں اسے کتنی سمجھ آئی کتنی نہیں۔ میں نے گاڑی تھوڑی سائیڈ پر لگائی اور نیچے اتر کر اس کے پاس واپس آیا۔ اس سے سلام لی تو وہ ہنس پڑا۔۔ میں نے کہا سیٹ بیلٹ کا چالان کرنا ہے ناں تم نے؟ کرو۔۔ میں ایسے ہی ٹیسٹ کر رہا تھا آپ کو۔ ہنستے ہوئے بولا" جاو پائین تسی چنگے ماخولیئے او پر بیلٹ بن لو"۔۔

تو میں کہہ رہا تھا گوجرانولہ کی ایک پہچان کھاتے پیتے لوگ اور پہلوان ہیں۔ کھانوں کے اس قدر شوقین ہیں کہ ان کی ہر بات سے کھانا ہی جھلکتا ہے۔ وہ گاڑی کی تعریف بھی یوں کرتے ہیں" پا جی بڑی مزیدار گڈی اے تہاڈی"۔ میرے سگے ماموں گوجرانوالہ کے رہائشی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہہ السلام کا تعلق بھی گوجرانوالہ سے تھا۔ انہوں نے جنت سے نکلنا گوارا کر لیا مگر کھانے پر کمپرومائز نہیں کیا۔ وہاں کے لوگ کبھی یہ نہیں کہتے کہ شادی پر جا رہا ہوں بلکہ یہ کہتے ہیں"ویاہ کھان چلاں"۔

آپ نے اگر شہر نہیں دیکھا تو کوئی بات نہیں مگر یہ تو سن رکھا ہوگا کہ وہاں کے چڑے اور بٹیرے بہت مشہور ہیں۔ چڑے کھاتے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ ایک بار میں نے جی ٹی روڈ پر واقع سیالکوٹی دروازے کے ایک ہوٹل پر بریک لگا دی۔ اس دن میں نے ڈنر میں زندگی میں پہلی بار اسی سوچ کے زیر اثر چڑے کھا لیئے کہ یہی تو گوجرانوالہ کی پہچان ہے۔ لاہور مال روڈ پہنچنے تک رات کے دس بج رہے تھے۔ میرے پیٹ میں چڑے کھانے کے بعد شدید مروڑ اٹھنے لگے۔ پینوراما سینٹر ان دنوں رات 10 بجے بند ہو جایا کرتا تھا۔ صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے پینوراما سینٹر کی ایک لیٹرین میں پناہ ڈھونڈ لی۔

صاحبو، اس رات سارے چڑے چوں چاں کرتے پینوراما سینٹر کی لیٹرین میں قطار اندر قطار اڑ گئے۔ جب کچھ افاقہ ہوا اور میں باتھ روم سے نکلا تو قیامت یہ ٹوٹ پڑی کہ پینوراما سینٹر کے سارے خارجی دروازے لاک ہو چکے تھے۔ میں تن تنہا اندر قید ہو چکا تھا۔ اس رات ایک گھنٹے بعد بلآخر ایک ایسا فرشتہ صفت گارڈ مل ہی گیا جس کے پاس گیٹ کی چابیاں تھیں۔ اس نے گیٹ کھولا اور مجھے غصے سے دیکھتے ہوئے بولا " توں اندر کی کرنا پیا سیں؟ تیری عقل کم نئی کردی؟"۔۔ میں نے نہایت ادب سے اس کے گوش گزار کیا " چچا جان! ایمرجنسی ہوگئی تھی۔ تسی کدی چڑے کھادے نیں؟"۔ اس نے حیرت میں ڈوبے ہلکا سا جواب دیا " نئیں کھادے"۔ میں نے پھر اسے کہا کہ چاچا فیر توں مکمل صورتحال بالکل نئیں سمجھ سکدا۔۔

اس دن کے بعد سے میں نے کبھی چڑے چکھے بھی نہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ چڑے کھانے والی شے ہی نہیں۔ اگر کھانے والے ہوتے تو گوجرانوالیوں نے انہیں ختم نہ کر دیا ہوتا؟ بیٹروں کی بابت بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ بٹیرے کھانے کی تاریخ ہمیشہ شریک حیات سے پوچھ کر رکھنی چاہیئے۔

گوجرانوالہ کی تیسری پہچان بزنس مین حاجی طبقہ ہے۔ زیادہ تر تو کھلے کپڑے کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ ربیع الاول کے کسی دن کا واقعہ ہے۔ گوجرانوالہ کینٹ میں میرے ایک عزیز حاجی نے محفل میلاد کا انعقاد کیا اور اس سلسلے میں اس نے بڑے بڑے نعت خواں و مقرر بلا رکھے تھے۔ مجھے یوں جانا پڑا کہ میرا تعلق اس کے ساتھ پرانا اور گہرا ہے۔ کئی جگہوں پر معذرت کرنا ممکن نہیں رہتا۔

محفل عروج پر تھی۔ میں چند احباب سے مل ملا کر حاضری لگوا چکا تو سوچا اب واپس ہوا جائے۔ سگریٹ پینے کو بنگلے کے لان سے نکل کر دروازے پر آیا۔ وہاں دو فینسی نوجوان سگریٹ نوشی میں مصروف تھے۔ سپیکروں سے آواز باہر تک آ رہی تھی۔ میں نے بھی سگریٹ سلگا لیا۔ ایک نوجوان نعت خواں نعت پڑھ رہا تھا۔ ایک فینسی بوائے جس کی زلفیں اس کے شانوں تک پھیلی ہوئی تھیں، سگریٹ کا کش آسمان کی جانب دیکھ کر بھرا اور دھواں چھوڑتے ہوئے سر ہلاتے بولا " wow bro awesome awesome"۔ وہ نعت خواں کو داد دے رہا تھا۔ اس کی داد پر میری ہنسی نکل گئی۔ ایک نوجوان سے گفتگو شروع کی تو انکشاف ہوا کہ وہ حاجی صاحب کا بھتیجا ہے جسے حاجی صاحب نے ڈگری کرنے برطانیہ بھیج دیا تھا۔ وہ دو چار روز قبل ہی واپس آیا ہے۔ دوسرا جوان اس کا دوست تھا جو چچھڑ والی گوجرانولہ کا رہائشی تھا اور اسی کے ہمراہ پڑھنے برطانیہ گیا تھا۔

نعت ختم ہوئی تو ایک صاحب فرط جذبات میں مائک پکڑ کر شیطان مردہ باد کے نعرے لگانے لگے۔ نجانے ان کو بیٹھے بیٹھے ابلیس مردود پر کیوں غصہ آ گیا تھا۔ دوسرا نوجوان جو ڈھیلی ڈھالی جینز کے نیچے ہوائی چپل پہنے کھڑا تھا بولا " lucifer par shit man، too much too much"۔۔ ان دونوں کو دیکھ کر لگا کہ گوجرانوالہ بدلے نہ بدلے یہ دو اہلیانِ گوجرانوالہ تو بدل چکے ہیں۔

گوجرانوالہ میرا ننھیال ہے۔ میری والدہ مرحومہ کا تعلق اسی شہر سے تھا۔ بچپن اس شہر کی گلیوں میں گھومتے گزرا۔ کھیالی سے لیکر فتومنڈ اور شیخوپورہ موڑ سے لیکر شاہین آباد تک مجھے گوجرانوالہ سے محبت ہے۔

Check Also

Jamia Tur Rasheed Nayi Raahon Ka Ameen

By Abid Mehmood Azaam