Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Mitti Ka Bawa

Mitti Ka Bawa

مٹی کا باوا

ہر انسان کے اندر اس کا مُلا دھونی رمائے بیٹھا ہوتا ہے۔ ہر ایک کے پیٹ میں داڑھی ہوتی ہے۔ ہر کسی کا اپنا سیاسی رانجھا ہے جس کے ناموس کی پہرہ داری اس نے کرنی ہے۔ ہر کوئی تفریق کا شکار ہے۔ اوپر سے سب مہذب ہیں مگر جیسے ہی اندر کے مُلا، قائد یا پیر پر ضرب پڑتی ہے ویسے ہی باہر کا کچا رنگ اُتر جاتا ہے اور مشتعل ہو کر انسان ننگا سامنے آ جاتا ہے۔

ہمارے جیسے بے شعور معاشروں میں مہذب ہونا علامتی ہے۔ سوشل میڈیا کی کیا بات کریں۔ یہ تو فورم ہی ایسا ہے جہاں ہر انسان نے اپنا مثبت چہرہ سامنے رکھنا ہے۔ شخصیت کے وہ رنگ دکھانے ہیں جو دراصل اس کی اندرونی شخصیت سے میچ ہی نہیں کرتے۔ یہاں سب نیک ہیں، اصول پرست ہیں، حق گو ہیں۔ مجھے تو کوئی بد یہاں نہیں ملا۔ آپ کو کوئی ملا ہو تو آگاہ کریں۔ ملمع کاری کی دنیا ہے۔ مگر جیسے ہی اندر کی اصل پر کسی سبب چوٹ پڑے ویسے ہی اصل روپ بھی سامنے آ جاتا ہے۔

سیاسی و مذہبی معاملات چھوڑئیے۔ چلیں سماجی معاملات کی جانب دیکھ لیں۔ ہر مرد گھر میں ویسا ہی روائتی مرد ہے جیسا مردانہ معاشرے میں ہوتا ہے مگر مردوں کی اکثریت سوشل میڈیا پر عورت کے حقوق کی محافظ بھی ہے۔ اس کو جائیداد سے حصہ دینے کی متقاضی بھی ہے۔ نجی زندگی میں وہ حق غصب بھی کرتے ہیں اور بنامِ کلچر کرتے ہیں۔

یہاں ہر عورت ساوتری ہے۔ اپنے شوہر کی پاسداری کرتی ہے۔ دوسروں کو تلقین بھی کرتی ہے۔ مگر ان سب کے باوجود معاشرہ ہے کہ سدھار کی جانب جاتا نظر ہی نہیں آتا۔ گدھا گاڑی چلانے والے تا حکمران ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل ہے اور ہر کوئی انٹرنیٹ کے توسط سے ٹک ٹاک، یوٹیوب، فیسبک وغیرہ سے منسلک ہے۔

ہاں، مذمتی بیانات کی کوئی کمی نہیں۔ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ معاشرتی بگاڑ پر سب کا خون بھی کھولتا ہے۔ ہر کوئی سدھار چاہتا ہے۔ مجھے تو کوئی ایسا نہیں ملا جو اس کے برعکس ہو۔

پھر کیا وجہ ہے کہ کوئی تبدیلی نظر ہی نہیں آتی؟ دراصل تبدیلی ہمیشہ اندر سے آتی ہے اور اندر تو کوئی مُلا، کوئی لیڈر، کوئی پیر، دھونی رمائے پورے جاہ و جلال سے بیٹھا ہوتا ہے۔

عمر کے چالیس سال گزار کر میں نے یہ سیکھا ہے کہ جس انسان میں معاملات زندگی کو لے کر رواداری، برداشت اور حوصلہ نہیں وہ ابھی انسان بنا ہی نہیں۔ ہاں وہ جیتا جاگتا ایک پُتلا ہے یا کٹھ پُتلی ہو سکتا ہے جس کی بھاگیں کسی اور کے ہاتھ ہوتیں ہیں۔ جو اندر باہر سے ایک نہیں وہ چاک پر دھری مٹی کا باوا ہے جو گھومتا رہتا ہے۔

شاید کسی دن وہ حالات و واقعات سے سیکھتا انسان بن ہی جائے۔ میں نے یہ بھی سیکھا ہے کہ نان سینس یا بیہودگی کو برداشت کرنا بھی انسان کی توہین ہوتی ہے۔ اس واسطے میرے ہاں سوشل میڈیا ہو یا نجی زندگی انفرینڈ جیسا لفظ ڈکشنری میں رکھا ہی نہیں۔ میں مکمل کٹ آف ہوتا ہوں یا کٹ آف کرتا ہوں۔

Check Also

Thanda Mard

By Tahira Kazmi