Miani Sahib
میانی صاحب
میانی صاحب لاہور کا قدیمی اور سب سے بڑا قبرستان ہے۔ یہ جگہ بہت سے رازوں سے بھری ہے۔ ہر تہذیب کے قبرستانوں کی اپنی کہانیاں ہوتیں ہیں۔ میانی صاحب کی کہانی شہنشاہ جہانگیر کے دور سے شروع ہوتی ہے۔ ایک صوفی بزرگ شیخ طاہر قادری نقشبندی اس خطے میں تشریف لائے۔ اس وقت مزنگ چونگی کے اطراف کا علاقہ غیر آباد ہوا کرتا تھا۔ سکون کی تلاش میں انہوں نے یہیں ڈیرہ ڈالا اور ایک چھوٹا سا مدرسہ قائم کیا۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ شاہی دربار کی توجہ ان کی جانب مبذول ہو۔ کچھ ہی عرصے میں ان کے شاگردوں کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی۔ ایک نئی بستی وجود میں آنے لگی۔ مزنگ کی شہرت کو عروج اسی مدرسے کے سبب ملا۔ پنجابی زبان کا لفظ "میانی" ہے۔ جس کے معنیٰ ہیں صاحب علم یا مبلغ۔ اسی سبب اس علاقے کو میانی صاحب کا نام عطا ہوا۔ شیخ طاہر قادری نقشبندی کی وفات کے بعد سکھوں کے ایک دستے نے مزنگ پر حملہ کر دیا۔
انہیں اطلاع ملی کہ مدرسے میں بیش بہا قیمتی خزانہ موجود ہے۔ خزانہ تو نہ مل سکا، البتہ نادر قرآنی نسخے ان کے ہاتھ لگے جن میں گرنتھ صاحب کے نسخے بھی شامل تھے۔ غصے سے لبریز ہو کر اس دستے نے تمام مقدس صفحات کو پھاڑ کر اس علاقے میں پھیلا دیا۔ صرف اسی پر اکتفا نہ کیا انہوں نے اس چھوٹی سی بستی کے گھروں کو بھی جلا ڈالا اور پھر اس باقی بچے کھنڈر نے میانی صاحب کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔
کافی عرصہ جب یہ مقام سنسان و بے آباد رہا تو اہلیان لاہور نے اسے مردے دفنانے کے لیے وقف کر دیا۔ اور یوں یہ لاہور کا ہر دلعزیز قبرستان بن گیا۔ میانی صاحب میں واقع جناب واصف علی واصف کے مزار پر فاتحہ پڑھ کر نکلا تو سورج ڈھل رہا تھا۔ میانی صاحب قبرستان کا گورکن قبروں پر چھڑکاؤ کر کے فارغ ہو بیٹھا تھا۔ میں اس کے پاس اس غرض سے چلا گیا کہ اس سے قبرستان کی حالت زار کے بارے معلوم کروں۔
ظاہر ہے گورکن سے بہتر اس بارے کون بتا سکتا ہے۔ باتیں شروع ہوئیں۔ موضوع بدلتے رہے۔ اس نے مجھے کئی ہستیوں کے بارے بتایا، جو یہاں اس تاریخی قبرستان میں دفن ہیں۔ بڑا دلچسپ کردار تھا۔ کہنے لگا "لوگ تو جنازے بڑے یا چھوٹے ہونے سے اندازے لگاتے ہیں کہ مرنے والا کتنا نیکو کار یا نیک نام تھا یا نہیں تھا۔ امیر کا جنازہ بڑا ہوتا ہے، غریب کا جنازہ چھوٹا لیکن ہم کو قبر کھودتے پتا چل جاتا ہے کہ یہاں دفن ہونے والا کیسا انسان ہوگا۔
میں نے حیران ہو کر پوچھا وہ کیسے؟ اس نے جواب میں ایک واقعہ سنایا جو میرے لئے بہت حیرت کا باعث تھا۔ (دروغ بر گردنِ راوی) ایک دن آٹھ نو سال پہلے مجھے ایک قبر کھودنے کا آرڈر ملا۔ مرنے والا ایک ٹھیکیدار کا بیٹا تھا اور اس کی موت بیرون ملک ہوئی تھی۔ میت پاکستان لائی جانی تھی اور میانی صاحب میں دفن ہونا تھا۔ میں نے قبر کھودنا شروع کی، شدید حبس کا دن تھا کہ سانس لینا محال ہو رہا تھا۔
جیسے جیسے میں قبر کھودتا گیا مجھے احساس ہونے لگا کہ قبر کے اندر عجب طرح کی کولنگ ہے۔ قبر کے اندر ایسی ٹھنڈ محسوس ہو رہی تھی، جیسے اے سی لگا ہو، جبکہ قبر سے باہر آتا تو وہی حبس اور شدید گرمی لگنے لگتی۔ مجھے اس پر تعجب ہوا اور سوچنے لگا کہ مرنے والا یقیناً کوئی نیک انسان ہوگا۔ کسی نیک ٹھیکیدار کا بیٹا ہوگا۔ حلال کی کمائی پر پلا بڑھا اور خود بھی نیک۔
مجھے قبر میں اتنی راحت ملی کہ تھکن کے مارے میں نے قبر میں چٹائی بچھائی اور سو گیا۔ ظہر سے عصر تک میں بیہوش وہیں سویا رہا۔ عصر کے وقت میری آنکھ کھلی۔ قبر سے باہر آیا تو وہی گرمی و حبس، جنازے کے وقت سے کچھ گھنٹے پہلے مجھے ایک شخص ملنے آیا اور بولا کہ اس قبر کو بند کر دو کیونکہ میت آنے میں ایک دن اور لگ جائے گا۔ کسی وجہ سے فلائیٹ وقت پر نہیں آ سکی اور ہمارے مولانا صاحب کہتے ہیں کہ اب اس قبر میں نہیں دفنانا۔
جب میت پرسوں آئے گی تو قبر بھی تب نئی کھودوائیں گے۔ مجھے اس شخص نے نئی قبر کے لئے ایڈوانس پیسے بھی دیئے اور چلا گیا۔ اس کے جانے کی دیر تھی کہ چھ لوگ ایک جنازہ لے کر آ گئے۔ جنازہ ایک بندے نے پڑھا۔ ان چھ سات لوگوں میں سے ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا یہ لاوارث میت ہے۔ اس کا کوئی اتا پتا نہیں، یہ شخص محلہ شیخاں کی مسجد میں ایک سال رہا، گونگا تھا، بول نہیں سکتا تھا۔
محلے والے اس کو کھانا پانی پہنچا دیتے تھے اور یہ مسجد میں ہی پڑا رہتا اور وہیں سو جاتا تھا۔ ایک سال کے بعد آج اس کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس کو دفنانے کے واسطے تم کوئی قبر کھود دو اور دوستوں سے مل کر دفنا دو۔ قبر جو میں نے پہلے ہی کھودی ہوئی تھی وہ اس کو نصیب ہوگئی۔ وہ اس کے مقدر میں تھی۔ ایسی ٹھنڈی قبر نہ اس سے پہلے کوئی دیکھی تھی نہ آج تک کوئی دیکھی ہے۔
قصہ سن کر باہر نکلا تو مغرب کی اذان گونج رہی تھی۔ میانی صاحب میں اگربتیاں جلنے لگیں، جن کی خوشبو سارے میں پھیلنے لگی۔