Thursday, 21 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Meri Profile

Meri Profile

میری پروفائل

میری ذات کا ایک فن فوٹوگرافی ہے تو ایک نثرنگاری، ایک کالم کار ہوں تو ایک کوہ نورد یا سیاح بھی۔ آپ سب اس جگہ پر اس لئے ہیں کہ کسی کو میرا کوئی فن اچھا لگتا ہے۔ فنکار محض لوگوں کی انٹرٹینمنٹ کے لئے نہیں ہوتا۔ میں نے اکثر اوقات سوسائٹی کے سنجیدہ موضوعات پر بھی لائٹ موڈ تحاریر و کالمز لکھے تا کہ جنہوں نے کچھ حاصل کرنا ہے وہ تو سمجھ جائیں گے اور جن کو بین السطور چھوڑ صاف لکھے ہوئے سے بھی کچھ سبق نہیں ملتا وہ پڑھ کر ہنس کر گزر جائیں گے۔

آج تلک میں نے کسی انسان کے کام آتے یہ نہیں سوچا کہ اس کا عقیدہ کیا ہو گا؟ اس کی شناخت کیا ہے؟ اس کا صوبہ یا علاقہ تو معلوم ہو۔۔ ہم کیا کار خیر میں حصہ ڈالتے یہ سوچتے ہیں کہ جس انسان کے لئے کر رہے ہیں وہ کس مذہب، کس مسلک، کس قومیت، کس رنگ و نسل کا ہے؟ مگر جیسے ہی کوئی اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے (اچھا ہو یا برا) اس پر ہم فوری لیبل لگا دیتے ہیں۔

اصل المیہ تو یہ ہے کہ اگر آپ ایران کی پالیسیوں کے خلاف ہیں تو آپ استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اگر آل سعود کے خلاف ہیں تو آپ رافضی شیعہ ہیں۔ اگر امریکہ کے خلاف ہیں تو آپ کنرویٹیو مسلم ہیں۔ اگر آپ تینوں کے خلاف ہیں تو آپ تینوں طبقہ فکر کے انڈر اٹیک ہیں۔

اگر آپ تحریک انصاف کی پالیسیوں کے خلاف ہیں تو آپ پٹواری ہیں۔ اگر نون کے خلاف ہیں تو آپ یوتھیئے ہیں۔ اگر پی پی کے خلاف ہیں تو آپ دائیں بازو کے آلہ کار ہیں۔ اگر فوج کی دخل اندازی کے خلاف ہیں تو آپ ملک دشمن ہیں۔ اگر آپ ان سب کے خلاف ہیں تو آپ ان سب کی طرف سے انڈر اٹیک ہیں۔

اللہ کا شکر ہے دماغ ہیک نہیں ہو سکا اور ہر مسئلے کو دلیل کی کسوٹی پر پرکھنے کی صلاحیت باقی ہے۔ یقین مانیں یہ بڑا اذیت ناک ہوتا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ دماغ ہیک ہوا ہوتا تو سکون ہوتا۔ یا میں ایرانی ہوتا یا سعودی یا امریکی۔ یا نونی یا یوتھی یا جیالا یا پھر مارشل لاء کا سرخیل۔

جو بات مجھے ٹھیک لگتی ہے میں وہ سرعام برملا کرنے کا عادی ہوں اور اٹیک و گالیاں بھی سہتا ہوں اور کبھی کبھی دھمکیاں بھی۔ جس معاشرے میں اپنی سوچ کے اظہار پر اٹیک ہو وہاں لکھتے بولتے رہنا آسان نہیں ہوتا۔ باقی جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔

میں پہلے متحدہ ہندوستان میں تھا تو مجھے ہندووں سے ڈر تھا۔ آزاد ہوا تو شیعہ کو سنی سے ڈر ہے۔ سنی کو شیعہ سے۔ دونوں کو دیوبندیوں سے۔ دیوبندیوں کو بریلویوں سے۔ بریلویوں کو ان سب سے۔ مہاجر کو پٹھان سے۔ پٹھان کو پنجابی سے۔ پنجابی کو بلوچی سے۔ بلوچی کو فوجی سے۔ فوج کو ہندوستان سے۔ سیاسی لوگوں کو مذہبی جماعتوں سے۔ مذہبی جماعتوں کو لبرلز سے۔ لبرلز کو انتہا پسند لوگوں سے۔ نہیں ہے تو بس کسی کو خدا کا ڈر نہیں ہے۔ واقعی آزاد مملکت میں سب آزاد ہیں ! اور بلاشبہ ایک سے بڑھ کر ایک مومن بھی۔۔ ہم سب کچھ ہیں بس پاکستانی نہیں ہیں، بالکل بھی نہیں، رتی برابر بھی نہیں۔

ایسے مومنانہ پاکیزہ اور منافقانہ سیاسی ماحول میں میرے جیسے کچے ایمان والوں اور پارٹی بازی سے ماورا کو اللہ صبر عطا فرمائے۔ اپنی تو تلوار اور ڈھال کب کی گرہستی میں ڈھل چکی اور ایمان شیعہ سنی کے بیچ لٹکا رہ گیا۔ اب تو دن پورے ہوں تو اگلے جہان پہنچ کر گلہ بھی کریں کہ پروردگار تو نے کاہے کو مومنوں کے عین بیچ پیدا کیا جہاں ساری عمر سر پر تلوار لٹکے رہنا کا ہی خوف رہا۔

مجھے اپنے اطراف یا اپنی پروفائل پر سیاسی انتہاپسند و مذہبی انتہاپسند نہیں چاہیئے۔ اس پروفائل پر بیشک 4 لوگ باقی رہ جائیں مگر ان کا اپنا دماغ، اپنا بھیجہ اور شعور ہو۔ وہ ہر معاملے کو ایک ہی عینک سے نہ دیکھتے ہوں، ان کے پیٹ میں داڑھی نہ ہو، ان کا دماغ ہیک شدہ نہ ہو۔ کیونکہ میں تو لکھوں گا، کبھی کبھی سنجیدہ ہو کر مزاح سے ہٹ کر بھی رونا پڑ جاتا ہے۔ تنقید کیجیئے مگر نقطے نکال کر کیجئے کہ دیکھیئے یہ آپ نے لکھا تو یہ یوں نہیں کیونکہ اس کی دلیل یہ ہے جو میں دینے لگا ہوں۔ بدنصیبی سے سوشل میڈیا چونکہ ایک سمندر ہے لہذا اس پر ہر کوئی آزاد ہے اور کی بورڈ پر انگلی گھما کر اگلے کو بس کوئی لیبل، کوئی فتوی یا کوئی گالی ہی تو دینی ہوتی ہے۔ یہ کونسا بڑا کام ہے لہذا دے دیتے ہیں۔

آج تلک کسی سیاسی چمٹے نے اپنے قائد سے یہ نہیں پوچھا کہ مہنگائی کو مارو گولہ۔ اس کے جواب میں تو تمہارے پاس ہزار بہانے ہیں۔ مگر یہ تو بتاؤ کہ نظام مملکت درست کیا؟ ادارے مضبوط کر لئیے؟ نظام تعلیم یکساں کرنا تھا ہو گیا کیا؟ نظام صحت، نظام عدلیہ، تھانہ و پٹوار کلچر، ان میں بہتری لانی تھی۔ لے آئے کیا؟ میرٹ کا شفاف نظام نافذ کرنا تھا۔ کہاں کیا؟ رائٹ پرسن آن رائٹ پوسٹ لانا تھا۔ لگ گئے کیا؟ بلدیاتی محکمہ جات کی بحالی کرنا تھی تا کہ گلی محلے تک عوامی مسائل کی شنوائی کا نظام بن پائے۔ کر لی کیا؟ ٹیکس کا نظام درست سمت میں چل پڑا؟ کوئی ایک عالمی معیار کی یونیورسٹی بن گئی کیا؟ وی آئی پی کلچر کا سدباب ہونا تھا، ہو گیا؟ پروٹوکول کا خاتمہ کرنا تھا ناں ؟ گورنر ہاوسز کو کھولنا تھا درسگاہیں بنانا تھیں ؟

ارے بھاڑ میں جائے ٹریڈ ڈیفیسٹ، تجارتی حجم، سرکلر ڈیبٹ، خسارے، گوشوارے، بجٹ کے اعداد و شمار، فارن ریمیٹنس، جی ڈی پی، پٹرولیم مصنوعات کی مہنگائی وغیرہ وغیرہ۔ چولہے میں گئی مہنگائی۔ کورونا کا ذکر ہی چھوڑو۔ بس یہ بتا دیں کہ نظام میں تبدیلی لانے سے کون روکتا تھا؟ تبدیلی بھی گئی تیل لینے بس اپنے قائد سے اتنا تو پوچھ لو کہ کیا پوری طاقت سے کوشش بھی کی لچھ بدلنے کی؟ نظام تبدیل کرنے کی؟ کبھی سوچا ہے اس بارے بھی؟ کبھی سوال کیا ہے ان لیڈروں سے؟ کیا کورونا اور عالمی مہنگائی نظام بدلنے کی راہ میں رکاوٹ تھے؟ کیا نااہل وزراء و مشیران کو عہدے عالمی سازش کی وجہ سے نوازے گئے؟

نہیں۔ آپ نے کبھی یہ سوالات نہیں پوچھے۔ قائدین بھی ویسے ہیں جیسے آپ ہیں۔ بے شعور، بے سمت، بے ڈھنگے۔ کوئی سمت ہی طے نہیں اس ملک کی، ان کے عوام کی، ان کے سیاسی قائدین کی۔ خیر، مٹی پاؤ۔ ابھی صور پھونکے جانے کے انتظار میں رہو لوگو بس۔ اپنے حصے کی آکسیجن پوری کرو، اپنے سیاسی لیڈر، اپنے مذہبی و روحانی پیشوا کے گلا پھاڑ نعرے لگاو اور اگلے جہان پہنچو۔ یہی لائف سائیکل ہے آپ سب کا۔

Check Also

Buton Se Tujhko Umeedain, Khuda Se Na Umeedi

By Tayeba Zia