Mera Pakistan
میراپاکستان
اک سرد رات میرے کاکے نے زبردستی کمبل میں گھستے ہوئے کہا بابا آپ نے کبھی کہانی نہیں سنائی، آج کوئی اچھی سی کہانی سنائیں۔ میں نے کہا اس وقت مجھے کوئی اچھی تو کیا بری کہانی بھی یاد نہیں آ رہی۔ تم ہی بتاؤ کیا سناؤں؟ اس نے کہا یہ بتائیں کہ جب آپ میری طرح بچے تھے تو پاکستان کیسا تھا؟ میری آنکھیں چمک اٹھیں۔ جب میں چھوٹا بچہ تھا تو پاکستان صرف دیکھنے ہی میں نہیں محسوس کرنے میں بھی تمہاری طرح کا کیوٹ سا گول مٹول سا تھا۔
یہاں کوئی بھی گورا، کالا، بھورا، چٹا غیر ملکی بلا جھجک سائیکل پر سوار اندرون سندھ سے پنجاب اور صوبہ سرحد اور پھر قبائلی علاقوں سے ہوتا ہوا یا تو جلال آباد کی طرف نکل جاتا یا پھر واہگہ عبور کر لیتا یا سیدھا شاہراہ قراقرم پر چڑھتا چلا جاتا۔ راستے میں کہیں بھی رک جاتا، کہیں بھی راہ لیتا، کچھ بھی کھا پی لیتا۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ کسی کو ان اجنبیوں کی زبان نہیں آتی تھی مگر سب مسکرا کے اشاروں سے اور ٹوٹے پھوٹے جملوں سے ایک دوسرے کو سمجھ سمجھا لیتے تھے۔
یہی حال پاکستانی شہریوں کا بھی تھا۔ لو جی کار کی ڈگی میں سامان ڈالا یا ویگن کی چھت پر بستر بند لادا اور یہ جا وہ جا یا چار دوستوں نے پروگرام بنایا اور کار پر براستہ ایران، ترکی، یورپ کی سیر پر روانہ ہو گئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ یعنی GTS (گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروسز) اڈے سے بس میں سوار ہونے کے لیے لائن بنانا پڑتی تھی۔ بس کنڈیکٹر کی خاکی وردی ہوتی تھی اور وہ پیسے لے کر ہر ایک کو ٹکٹ اور بقایا پیسے بھی دیتا تھا۔ ٹرین کی سیٹوں اور برتھوں پر فرانس کا بنا ریگزین منڈھا ہوتا تھا۔
ہر بڑے ریلوے اسٹیشن پر پیتل کی موٹی سی چادر والا ٹھنڈے پانی کا ایک بہت بڑا کولنگ پلانٹ چلتا رہتا اور مسافر بھاگم بھاگ اپنے کولر اور تھرمس بھر لیتے تھے۔ بجلی تب ہی جاتی تھی جب بارش یا طوفان سے کھمبے کی تاریں ٹوٹ جائیں۔ اس زمانے میں محلے میں شاید کسی ایک گھر میں ٹیلی فون ہوا کرتا تھا مگر بارش تھمتے ہی واپڈا کی گاڑیاں خود ہی نکل پڑتیں اور ٹوٹی ہوئی تاریں جوڑتی چلی جاتیں۔ بلدیہ کی گاڑیاں گلیوں اور سڑکوں پر جمع بارش کا پانی بڑے بڑے پائپوں سے ٹینکروں میں بھر کے لے جاتیں تا کہ سڑک گلنے اور ٹوٹنے سے پہلے ہی خشک ہو جائے۔
ہر ہفتے دو ہفتے بعد گلی کی نالیاں صاف ہوتیں اور ان پر چونا ڈالا جاتا اور ڈی ڈی ٹی کا چھڑکاؤ بھی ہوتا۔ پکی سڑکوں کی ہر پندرہ دن بعد دھلائی ہوتی۔ ایک ماشکی پانی ڈالتا جاتا اور جھاڑو والا دھوتا جاتا۔ گلیوں میں بھی گرمیوں کے موسم میں دھول بٹھانے کے لیے ہر ہفتے ایک بار سرکاری ماشکی چھڑکاؤ کرتا تھا اور ہر تیسرے مہینے بلدیہ کی بند گاڑیاں آتیں اور آوارہ کتے پکڑ کے لے جاتیں اور سال میں دو دفعہ مچھر مارنے کا اسپرے بھی ہر گھر میں حکومت کی طرف سے مفت ہوتا تھا۔
ہر سال اسکولوں میں میونسپل کمیٹی کی ٹیمیں آتیں اور سب بچوں کو بیماریوں سے بچاؤ کے مفت ٹیکے لگائے جاتے اور دانتوں کا معائنہ بھی ہوتا۔ ٹیچر سبق یاد نہ کرنے یا ہوم ورک نہ کرنے یا گالیاں دینے والے بچوں کی چھڑی سے پٹائی کرتے اور جب ہم اپنے امی ابو سے شکایت کرتے تو وہ بھی الٹا ہمیں ہی ڈانٹتے کہ تم نے ضرور کوئی غلط حرکت کی ہو گی، اچھا ہوا ماسٹر صاحب نے تمہاری پٹائی کی۔ اور معلوم ہے اسکول کی میری ماہانہ فیس کتنی جاتی تھی؟ بتیس روپے۔ جس میں چھ روپے لائبریری چارجز بھی شامل ہوتے تھے۔
اور شاید تمہیں یقین نہ آئے۔ سرکاری اسپتالوں میں علاج کروانے یا ایڈمٹ ہونے کے لئے آٹھ آنے کی پرچی بنتی تھی۔ دوائیں اسپتال کی کھڑکی سے مفت ملتی تھیں۔ جب تمہاری دادی مجھے سبزی لینے کے لیے بھیجتیں تو سبزی والا ہری مرچیں، دھنئیا اور پودینا مفت میں ہی دے دیتا۔ پڑوس کے سب گھروں کی طرح ہمارے ہاں بھی روزانہ دال سبزی پکتی تھی اور ہفتے میں ایک دن گائے یا بکرے کا گوشت بھی پکتا تھا۔
اور ہاں، ہر روز گھر میں پکا کھانا ایک پلیٹ یا ڈونگے میں ہمسائیوں کے ہاں بھیجا جاتا اور ہمسائیوں سے بھی آئے روز کچھ نہ کچھ گھر پہنچا کرتا۔ ہر بچے کو سونے سے پہلے دودھ کا ایک گلاس ضرور پینا پڑتا ورنہ اماں کا تھپڑ کھانا پڑتا۔ تمہارے دادا روزانہ شام کو کوئی نہ کوئی پھل ضرور خرید کے لاتے۔ اور ہم جس محلے میں رہتے تھے وہاں کے سب گھروں میں ابا لوگ ایسے ہی تھے۔ کوئی کلرک، کوئی چپراسی، کوئی دکاندار، مگر شام کو بچوں کے لیے ہر کوئی کچھ نہ کچھ کھانے پینے کی چیز ضرور لاتا۔
پھر بھی ہر کوئی کہتا بھائی غریب ضرور ہیں مگر خدا کا بہت شکر ہے۔ ہم بچوں کو یہ بات بھی پلے نہیں پڑتی تھی کہ غریب ہیں اور خدا کا شکر بھی ہے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ میں اماں کے ساتھ ہر سال گرمیوں کی چھٹیوں میں نانو کے گھر جایا کرتا۔ نانی اور ماموں ہمیں زبردستی روک لیتے اور چھٹیاں ختم ہونے سے پہلے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس زمانے میں کوئی بچہ نہیں کہتا تھا کہ میں دو گھنٹے کے لیے اپنے ماموں یا چچا کے ہاں جا رہا ہوں یا ڈے اسپینڈ کرنے جا رہا ہوں۔
ہمارے تصور میں بھی نہیں تھا کہ کوئی کسی رشتے دار کے پاس صرف ایک دو گھنٹے کے لیے بھی جا سکتا ہے۔ ہم تو بس یہ جانتے تھے کہ ہم اتنے دنوں کے لیے فلاں کے ہاں جا رہے ہیں اور وہ اتنے دنوں کے لیے ہمارے ہاں آ کے رہیں گے۔ اور تمہیں شاید یقین نہ آئے ہم لوگ اسکول سے واپس آ کر کھانا کھاتے ہی پھر باہر دوڑ جاتے۔ ماں باپ کو پرواہ ہی نہیں تھی کہ بچے کہاں کھیل رہے ہیں اور کس آنٹی کے گھر میں ہیں؟ سب گھروں کے بچے سب گھروں کے بچے تھے۔
بھوک لگی تو جس کے ہاں کھیل رہے ہیں اسی کے ہاں کھانا کھا لیا یا کھیلتے کھیلتے وہیں سو بھی گئے۔ ہاں مغرب کے بعد سوال ہی نہیں تھا کہ کوئی بچہ بغیر بتائے گھر سے باہر رہے۔ ورنہ کان کھینچے جانا یا ڈانٹ پڑنا لازمی تھا۔ اور ہاں، اگر کسی کے ہاں اچانک سے مہمان آ گئے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ فوراً بچے کو ہمسائے کے گھر دوڑا دیا جاتا جاؤ خالہ سے ایک برتن آٹا لے آؤ۔ کہنا پرسوں واپس کر دیں گے۔ جاؤ ندیم کی امی سے کہنا دو پیاز اور کچھ مرچیں اور مٹھی بھر ماش کی دال دے دیں۔ شام کو واپس کر دیں گے۔ پورے محلے کا سسٹم بس ایسے ہی چلتا۔
ہر گلی میں ایک سرکاری نلکا ہوتا تھا اور پانی کی چار ٹونٹیاں۔ صبح شام دو وقت باقاعدگی سے پانی آتا۔ سب لوگ سرکاری نل کا پانی بے دھڑک پیتے۔ مجال ہے کوئی بیمار ہو جائے یا پیٹ خراب ہو جائے۔ ہر شام پانی کی گیلن بھرنے نلکوں پر رش لگا رہتا۔ یہ محلے داروں کا آپس میں ملاقات کا بہانہ بھی تھا۔ اس وقت انیس لیٹر کی شفاف پانی کی بوتل آن کال گھر پر نہیں آیا کرتی تھی اور محلے میں ایک مولوی صاحب بھی تھے احمد دین صاحب۔ سب لوگ ان کی بہت عزت کرتے اور ہر طرح سے خیال رکھتے۔
وہ سب بچوں کو مفت سپارہ پڑھاتے اور مسجد میں پنج وقتہ نماز بھی۔ سوائے اللہ رسول اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے سے اللہ میاں خوش ہوتا ہے جیسی باتوں کے ان کے منہ سے کوئی دوسری بات ہی نہیں نکلتی تھی حالانکہ سن 92 میں برادر اسلامی ممالک درہم، دینار و ریال مدارس میں بانٹ چکے تھے اور شیعہ سنی ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم ہو چکا تھا مگر میرے محلے میں، میرے شہر میں اندھی گولی کی آواز نہیں سنائی دی تھی۔
ہم جب میٹرک میں آئے تب پتہ چلا کہ برابر والا افتخار شیعہ ہے اور پچھلی گلی والے احمد لوگ قادیانی ہیں اور سڑک پار کٹیا میں اکیلا رہنے والا لطیف چاچا اصل میں لطیف مسیح ہے اور کمیٹی میں صفائی کا کام کرتا ہے۔ مگر یہ سب معلومات ہمیں پہلی بار ان مولوی صاحب نے دیں جنہوں نے مولوی احمد دین صاحب کے انتقال کے بعد مسجد میں امامت کروانی شروع کی اور بیٹا پتہ ہے جب میں دس سال کا تھا تو۔ میں نے اچانک دیکھا کہ کاکا کہانی سنتے سنتے جانے کب سو گیا۔
کچھ دنوں بعد ایک رات وہ پھر میرے پاس آن کے لیٹ گیا اور فرمائش کی کہ بابا کہانی سنائیں۔ میں نے کہا تم تو کہانی سنتے سنتے سو جاتے ہو اب نہیں سناؤں گا۔ کہنے لگا بابا آج میں بالکل نہیں سوؤں گا۔ لیکن آپ بھی پرامس کریں کہ سچی والی کہانی سنائیں گے۔ اس دن جیسی گپیں نہیں سنائیں گے۔