Mazhabi Haize Ka Shikar Nojawan
مذہبی ہیضے کا شکار نوجوان
پچھلے دنوں دو عدد مذہبی ہیضے کا شکار نوجوانوں نے میری تحریر کا سکرین شاٹ لے کر اپنے مذہبی نوعیت کی فالونگ میں لگایا ہوا تھا۔ اس تحریر میں یہ درج تھا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو سپارکو کا چئیرمین جب تک رکھا گیا اس عرصے میں سپارکو نے خلا میں مشن بھیجے اور پھر سپارکو کی چوکی بھی فتح کر لی گئی۔ مدعا یہ تھا کہ سائنسدان کو لگایا جائے تو وہ رائٹ پرسن آن رائٹ جاب کے مصداق ہوتا ہے اور نتائج دیتا ہے۔
ان لونڈوں نے اس سکرین شاٹ کے اوپر لکھا "یہ ورلڈ بینک کا ایجنٹ قادیانیوں کی حمایت میں ہی بولتا ہے"۔ دوسرے نے لکھا ہوا تھا "اس بھڑوے نے مجھے اس لیے بلاک کر دیا ہے کہ یہ عبدالسلام قادیانی پر تنقید برداشت نہیں کر سکا"۔ نیچے جو کمنٹس آ رہے تھے ان میں سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ نام سے ہی ایک مخصوص مسلک کا لگتا ہے اور ایسوں کو سبق سکھانا ضروری ہے۔ نقاب شدہ خواتین بھی تھیں جو یہ کہہ رہی تھیں کہ ورلڈ بینک کا ایجنڈا پاکستان میں قادیانیوں کو سپورٹ فراہم کرنا ہے اور یہ بندہ نام سے ہی خارجی کتا لگتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب کمنٹس میں نے بغور پڑھے۔ وہ جو ایک بندہ اپنی وال پر "بھڑوے" کے ہاتھوں بلاک ہو کر واویلا کر رہا تھا اس کا نام حافظ تھا اور سینے تک اس کی داڑھی تھی۔ اس کو بلاک اس کی گالمانہ کمنٹ کے سبب کیا گیا تھا۔ خیر، میں یہ سب دیکھنے پڑھنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ جہالت بہت بچے جنتی ہے اور وہ بھی تیزی سے۔
ایک طرف میں مذہبی انتہا پسند طبقے کے نشانے پر ہوں، دوسری طرف لبرل انتہاپسندوں کے نشانے پر۔ ایسے گھمسان کے رن میں بیچوں بیچ کھڑا میں اسی میں عافیت جانتا ہوں کہ ایسے تمام لوگوں کی شکلیں غائب کی جائیں۔ پھر جب کہیں میرا نام آئے یہی لوگ واؤ واؤ کرتے نکلیں تب مجھے ان کو اذیت میں دیکھ کر تسلی ہو جاتی ہے کہ ان سے بالکل ٹھیک جان چھڑوائی تھی۔
المیہ یہ ہے کہ اگر آپ ایران کی پالیسیوں کے خلاف ہیں تو آپ استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ اگر آل سعود کے خلاف ہیں تو آپ رافضی شیعہ ہیں۔ اگر امریکہ کے خلاف ہیں تو آپ کنرویٹیو مسلم ہیں۔ اگر آپ تینوں کے خلاف ہیں تو آپ تینوں طبقہ فکرکے انڈر اٹیک ہیں۔
اگر آپ تحریک انصاف کے بلنڈرز پر نالاں ہیں تو آپ پٹواری ہیں۔ اگر نون کی کرتوتوں کے ناقد ہیں تو آپ یوتھیئے ہیں۔ اگر پی پی کی پالیسیوں سے متفق نہیں ہیں تو آپ دائیں بازو کے آلہ کار ہیں۔ اگر فوج کی سیاست و انتظامیہ میں دخل اندازی کے خلاف ہیں تو آپ ملک دشمن ہیں۔ اور پھر آپ ان سب کی طرف سے انڈر اٹیک ہیں۔
پہلے متحدہ ہندوستان میں تھا تو مجھے ہندووں سے ڈر تھا۔ آزاد ہوا تو شیعہ کو سنی سے ڈر ہے۔ سنی کو شیعہ سے۔ دونوں کو دیوبندیوں سے۔ دیوبندیوں کو بریلویوں سے۔ بریلویوں کو ان سب سے۔ مہاجر کو پٹھان سے۔ پٹھان کو پنجابی سے۔ پنجابی کو بلوچ سے۔ بلوچ کو فوجی سے۔ فوج کو ہندوستان سے۔ ہندوستان کو لشکر اور اس جیسی دوسری جماعتوں سے۔ سیاسی لوگوں کو مذہبی جماعتوں سے۔ مذہبی جماعتوں کو لبرلز سے۔ لبرلز کو انتہا پسند لوگوں سے۔ نہیں ہے تو بس کسی کو خدا کا ڈر نہیں ہے۔ واقعی آزاد مملکت میں سب آزاد ہیں ! اور بلاشبہ ایک سے بڑھ کر ایک مومن بھی۔۔ ہم سب کچھ ہیں بس پاکستانی نہیں ہیں، بالکل بھی نہیں، رتی برابر بھی نہیں۔
ایسے مومنانہ پاکیزہ ماحول میں میرے جیسے کچے ایمان والوں کو اللہ صبر عطا فرمائے۔ اپنی تو تلوار اور ڈھال کب کی گرہستی میں ڈھل چکی اور ایمان شیعہ سنی کے بیچ لٹکا رہ گیا۔ اب تو دن پورے ہوں تو اگلے جہان پہنچ کر گلہ بھی کریں کہ پروردگار تو نے کاہے کو مومنوں کے عین بیچ پیدا کیا جہاں ساری عمر سر پر تلوار لٹکے رہنا کا ہی خوف رہا۔
میری کوئی تحریر وائرل ہوتی ہے۔ جہاں جہاں پوسٹ ہوتی ہے وہاں وہاں سے کبھی سیاسی تو کبھی مذہبی، کبھی فیمنسٹوں تو کبھی اینٹی فیمنسٹس نابینوں کا جھنڈ آتا ہے اور بنا کسی سوچ سمجھ کے حملہ آور ہو جاتا ہے۔ جن کا بس نہیں چلتا وہ انباکس میں مغلظات بھیج دیتے ہیں۔ لوگ اس حد تک گر چکے ہیں کہ ان کو گالی کے سوا کچھ لکھنا آتا ہی نہیں۔ اب تو ایسا ہوتا ہے کہ اگر دو چار دن بنا مغلظات سنے بیت جائیں تو اندر اُلجھن ہونے لگتی ہے کہ خدایا خیر ہو، کہیں کچھ گڑبڑ تو نہیں، کہیں کچھ مس ہے، کہیں لوگ سدھر تو نہیں گئے۔ پھر کوئی دو چار مردِ مجاہد فی سبیل اللہ آن کر تسلی کرواتے ہیں کہ ہاں سب خیر ہے۔ ہم یہی ہیں۔ تم بے چین نہ ہو۔ اور ایسا سوچنا بھی مت۔
کبھی کبھی میں سوچنے لگتا ہوں کہ میں نے تو جو لکھا انتہائی diluted لکھا۔ مزاح کا تڑکا لگا کر لکھا۔ سیاسی و مذہبی طور پر میں نے کسی جماعت کے سیاسی ایجنڈے کو پھیلانے یا کسی مسلک کے عقیدے کی ترویج یا کسی کے ناجائز دفاع کا کام نہیں کیا ہے۔ پھر بھی یہ حال ہے تو معاشرے کے افراد کس حد تک اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد کے قیدی بن چکے ہیں۔ دروازے کھڑکیاں بند کر چکے ہیں۔ حبس کا شکار ہو چکے ہیں۔ اور حبس میں انسان صرف چیختا اور جھنجھلاتا ہے۔
میں یہ جانتا ہوں کہ میں طبقہ بندی کا شکار معاشرے میں سانس لے رہا ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ کسی دن کوئی نامعلوم کسی نامعلوم وجہ کے سبب میرا کام تمام کرنے آ سکتا ہے۔ مگر مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ میرا کلام خالی کرسیوں سے نہیں ہوتا۔
آئینیسکو نے ایک ڈرامہ لکھا تھا "دی چئیرز" (کرسیاں)۔ اس میں وہ شہر کے ہر طبقہ ہائے فکر سے وابستہ لوگوں کو دعوت پر بُلاتا ہے۔ سٹیج پر خالی کرسیاں رکھی جاتی ہیں جن پر ہر طبقے کی عکاسی کرتے لیبل چسپاں ہوئے ہوتے ہیں۔ ان خالی کرسیوں سے میزبان گفتگو کرکے کہتا کہ درحقیقت تم تو صرف خالی کرسیاں ہو، تم اپنی پہچان کھو چکے ہو، تم طبقاتی تقسیم کا شکار ہو کر اپنے ماتھوں پر اپنی جماعت، اپنے رُتبے اور اپنی کٹر سوچ پر حرفِ آخر کا لیبل لگا چکے ہو۔