Mansoor Kahan Hai?
منصور کہاں ہے؟
عام آدمی تو پولیس، سرکاری کلرک، سڑک اور بند بنانے والے ٹھیکیدار، جعلی دواؤں اور بوتل بند پانی کے کاروبار، شوگر مافیا، قبضہ و بھتہ مافیا، نامعلوم قاتلوں، نامعلوم اغوا کاروں اور ان کے سرپرستوں کو ننگی گالیاں بھی دیتا ہے، آنکھوں کے سامنے سالم بندہ غائب ہوتے بھی دیکھ رہا ہے۔ اپنے محبوب قائد کے دفاع میں قائد کا گھیراؤ بھی کرتا ہے اور سڑک پر لاش کے ساتھ دھرنا بھی دے دیتا ہے لیکن یہ عام آدمی بھی خود غرض احتجاجی ہے۔ وہ اپنے جیسے دوسروں کے لیے نہیں چیختا بلکہ تب چیختا ہے جب کوئی اپنا مر جائے یا غائب ہوجائے، خود لائن میں لگنا پڑے، خود بھتا دینا پڑے، اندھیرے میں رہنا پڑے۔ خود مہنگائی کے ہاتھوں زندہ لاش بنے۔
کس لیڈر نے کتنی ٹیکس چوری کی، کس رکنِ پارلیمان نے کتنا گھپلا کیا، کس جنرل نے کس منصوبے میں کتنے پیسے کھائے، کس جج نے کیا مراعات لے لیں، کونسا صحافی یا صحافن کس کے خرچے پر حج کر آئے۔ یہ سب اعداد و شمار ہر ٹی وی اینکر و کالم نگاروں کو زبانی یاد ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ اینٹی کرپشن جہادی ہیں بلکہ اس لیے کہ چینل یا کالم کی ریٹنگ کا مسئلہ ہے اور روزگار ریٹنگ سے وابستہ ہے۔
یہاں کے دانشور فیض احمد فیض کی نظم پر جھومتے نظر آتے ہیں۔
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
مگر بابو انا الحق کا نعرہ بلند کرنے والا منصور کہاں ہے؟
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کہیں اگر کوئی منصور پیدا ہوتا ہو تو اسے آگے بڑھنے سے پہلے ہی گستاخ مشہور کرکے قتل کر دیا جاتا ہو، بھینس چوری کے الزام میں پولیس لاک آپ میں ٹارچر کرکے مار دیا جاتا ہو، ٹارگٹ کلنگ ہو جاتی ہو، غائب ہوجاتا ہو، چارج شیٹ مل جاتی ہو، تبادلہ ہوجاتا ہو، او ایس ڈی بن جاتا ہو، گھر بیٹھ جاتا ہو، ملک سے بھاگ جاتا ہو یا گاؤں، محلے اور محکمے میں پاگل، چریا، کھسکا ہوا مشہور ہوجاتا ہو۔
یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ پاکستان کی فضا اتنی تنگ ہوچکی ہو کہ کرپٹ نظام کے خلاف تشدد سے پاک قومی تحریک ابھرنے کا فیشن ہی نہ رہا ہو۔ یہ نظام دہشت گرد تو پیدا کر سکتا ہو مگر عقل کی آواز اور اجتماعیت کی پکار سننے سے قاصر ہو۔ انسانی ہجوم کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہ انسانی ریوڑ بن گئی ہے۔
تیسری دنیا کے ممالک میں کرپشن اور بد انتظامی کے خلاف اجتماعی جدوجہد سے کہیں آسان ہوتا ہے کہ خود اگر مالی نہیں تو اخلاقی کرپٹ ہو جاؤ۔ اپنے خول میں سمٹ جاؤ۔ ذاتی مفادات کے جائز ناجائز تحفظ میں لگ جاؤ۔ کسی کا داؤ لگ گیا، کوئی داؤ لگنے کے انتظار میں ہے اور کسی کے دل میں داؤ لگانے کی اگر صلاحیت نہیں تو حسرت ضرور ہے۔
میں جب مہنگائی کے ہاتھوں پسے لوگوں کا واویلا فیسبک پر دیکھتا ہوں تو سچ مانئیے مجھے ہنسی بھی آتی ہے۔ مہنگائی صرف بدن پر پھوڑوں کی صورت نظر آنے والا بیماری کا symptom ہے مرض کا root cause نہیں ہے۔ روٹ کاز سول و ملٹری اشرافیہ کی وسائل پر گرفت اور لوٹ مار ہے۔ برصغیر میں تحریک آزادی کی وجہ مہنگائی نہیں تھی۔ گورا سرکار تو مہنگائی پر سخت کنٹرول رکھتی تھی۔ لوگوں میں نفرت کی وجہ اس احساس کا جاگنا تھا کہ کمپنی ہمارے وسائل لوٹ رہی ہے اور ہماری زمین پر قابض ہے۔ اس دور کے لوگوں کو بھگت سنگھ، لالہ لاجپت رائے، منگل پانڈے، سبھاش چندرا بھوس، چندر شیکھر آزاد، نواب وقار الملک، سردار ولابھائی پٹیل، جھانسی کی رانی، بیگم حضرت محل یا بیگم آف اودھ، بیگم ارونا آصف علی، بیگم رعنہ علی خان سمیت کئیں حریت پسند لوگ مل گئے تھے۔
بس پاکستان میں ذرا لوچا یہ ہوگیا کہ ہمارا بھگت سنگھ توشہ خانہ کو پڑ گیا۔ ہمیں جو لاجپت رائے ملا وہ سرے محل کا کسٹوڈین تھا۔ منگل پانڈے نے مے فئیر لندن میں فلیٹ بنا لیے۔ سبھاش چندرا کشمیر کمیٹی کی صدارت پر قربان ہوگیا اور جھانسی کی رانی لندن تو کیا پاکستان میں بھی جائیداد بناتی رہی۔