Makli Ki Dastan
مکلی کی داستان
یہ ہندوستان پر شہنشاہ جہانگیر کے دورِ حکمرانی کی بات ہے، اُس وقت، آج کے کراچی میں شامل علاقے ملیر میں ایک سنگ تراش تھے، جن کا فن اتنے کمال پر تھا کہ اُستاد کہلاتے تھے۔
کہیں دور سے ملیر آ کر بس جانے والے اُستاد عنایت اللہ مورتیاں نہیں، سنگِ زرد پر نقش تراشتے تھے۔ وہ مسلمان تھے، مگر اُس وقت کے بعض "عالموں" نے انہیں اور اُن جیسے کئی دوسرے سنگ تراشوں کو کافر قرار دے دیا تھا۔ ایک روز اُستاد ادھورا کام مکمل کرنے آرہے تھے کہ بغل میں خنجر دبوچے ایک شخص نے انہیں راہ میں جا لیا اور کافر کا نعرہ لگاتے ہوئے حملہ آور ہوگیا۔
اُستاد تو نہ رہے، مگر اُن کا نام، فن اور قبر۔۔ صدیوں گزر جانے کے بعد تینوں آج بھی ملیر میں، قومی شاہراہ کے کنارے موجود ہیں۔ آتے جاتے سب کی نظر ان پر پڑتی ہے۔ اُستاد کو گزرے لگ بھگ تین صدیوں سے زیادہ عرصہ گزر گیا، لیکن بطور فنکار وہ تاریخ میں زندہ ہیں۔ ان کے فن پر کتابیں لکھی گئیں، ان کے کام پر ایک تعمیراتی اصطلاح وجود میں آئی مگر قاتل بے نشاں ہے۔
مکلی کے بعد مشہور ترین چوکنڈی قبرستان ہے۔ چوکنڈی کے مرکزی مقبرے کو اُستاد عنایت اللہ اور ان کے فن کی سب سے اعلیٰ مثال قرار دیا جاتا ہے۔ اس عہد میں بھی اس طرح کی قبریں اور مقبرے تعمیر کرنے والوں کو وقت کے بعض علما کی تنقید کا سامنا رہا۔ اُستاد بھی ایسے ہی شدت پسندوں کے جنون کا نشانہ بنے تھے۔
کہتے ہیں کہ جب اُستاد پر اچانک حملہ ہوا تو وہ وار کھا کر بھاگے۔ حملہ آور بھی ان کے پیچھے تھا۔ وہ بھاگتے اور وار کھاتے ہوئے کئی جگہ گرے۔ چھٹی بار جب وہ اٹھ کر بھاگے تو پھر جس جگہ گرے تھے وہیں قاتل نے مہلک وار کرکے کام تمام کر دیا۔ بعد میں شاگردوں نے عین اس مقام پر اُستاد کی قبر تعمیر کی جہاں انہوں نے آخری سانس لی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے نشانی کے طور پر ہر اس جگہ زمین پر ایک ایک پتھر گاڑ دیا جہاں پر حملے کے بعد وہ گرتے اٹھتے گئے تھے۔
قاتل کون تھا اور اس کی قبر کہاں ہے؟ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے، مگر چوکنڈی کا مرکزی مقبرہ ان کے ہاتھوں کا تیار کردہ ہے اور ثبوت میں اُن کا نام بھی کنندہ ہے۔ زمانے اور تاریخ نے مذہب کے نام پر شدت پسندی کرنے والوں کو بھلادیا، مگر فن اور فن کار اب بھی زندہ ہے۔ یہ شدت پسندوں سے وقت کا بدترین انتقام اور اس کا نشانہ بننے والوں کے لیے تاریخ کا اعلیٰ اعزاز ہے۔
چوکنڈی سے نکلیں تو اکہتر کلومیٹر کی مسافت پر مکلی قبرستان واقع ہے۔
کچھ زمینوں کے بخت میں گورستان بننا لکھ دیا جاتا ہے اور کچھ گورستانوں کے نصیبوں میں طویل عُمری اور داستانوں کو دفن کرنے کا دُکھ تحریر کردیا جاتا ہے۔ مَکلی اُن چند قبرستانوں میں سے ایک ہے۔ جس کی اپنی الگ پہچان ہے۔ یہاں وقت کے حاکموں کے کمال اور زوال کی داستانیں ہیں۔ وقت کے وہ حاکم جو زبان سے جو کہتے وہ حُکم بن جاتا تھا، مگر وقت جو سب سے بڑا بادشاہ ہے، وہ اُن حاکموں کے منفی عوامل پر مُسکراتا اور خاموشی سے سب دیکھتا رہتا، دراصل جس کے پاس اختیار ہو وہ ہی مُسکراتا ہے۔
کچھ کو تو لوگوں نے اُن کے اپنے درباروں میں ہی مار ڈالا۔ چند کو اُن کے اپنوں نے اِس لیے وقت سے پہلے مار ڈالا کہ ان کو یہ ڈر تھا کہ اگر یہ نہ مرا تو ہمیں مار ڈالے گا۔ کچھ جنگوں کے میدانوں میں مر گئے اور کچھ بے گناہ معصوم لوگوں سے صرف اس لیے زندگی کا حق چھین لیا گیا کہ بادشاہ سلامت کا کہنا نہیں مانا۔ اس لیے "ناپسندیدہ" ٹھہرے اور زنداں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگئے یا پھر مار دیے گئے۔
دس کلومیٹر کے پہاڑی سلسلے میں پھیلا مکلی کا یہ پُراسرار قبرستان ساموئی سے شروع ہوتا ہے اور پیر پٹھو پر ختم ہوتا ہے۔ جس میں سات صدیوں کے راز دفن ہیں۔ نہ جانے کتنی لوک داستانوں کا شور ہے، جو اس شہرِ خموشاں میں دفن ہے۔
مکلی کی داستان سات صدیوں پر محیط ہے۔ یہاں ہر وہ شخص خستہ قبروں کے نیچے سو رہا ہے۔ جو سمجھتا تھا کہ وہ ناگزیر ہے اور اس کے ہونے سے ہی کاروبار دنیا چل رہا ہے۔ کبھی کبھی قبرستانوں کا دورہ کرتے رہنا چاہئیے تاکہ آپ کو احساس ہو کہ آپ ایک مسافر ہیں۔ جو دورانِ سفر تمام عقل و دانائی سمیٹ کر بلآخر رزق خاک ہوگا۔