Main Nahi Peeta
میں نہیں پیتا
آج سے کئی برس پہلے سنہ 2005 تا 2006 میں میری عمر 23 سال تھی یعنی نوجوان تھا۔ نئی نئی فوٹوگرافی شروع کی تھی۔ دو چار تصویریں FLICKR پر مشہور ہوگئیں تھیں جو فوٹوگرافرز کا فورم تھا۔ جب انسان نیا نیا فوٹوگرافر ہوتا ہے تو وہ ہر شعبہ کو کور کرنا چاہتا ہے۔ وہ وائلڈ لائف ہو، فیشن ہو، لینڈ اسکیپ ہو، پورٹریٹ ہو الغرض کچھ بھی ہو۔ اسے اپنی "پرؤفائل" میں ہر آئیٹم چاہئیے ہوتی ہے۔ بس ایسا ہی تھا۔ ان دنوں ٹینٹ پیگنگ، پولو، فیشن، وائلڈ لائف وغیرہ وغیرہ وغیرہ کا شوق تھا۔
مجھے ایک بار ایک فیشن فوٹوگرافر دوست نے رابطہ کرکے کہا کہ تم ریمپ والک شوٹ کر سکتے ہو تو تمہارا پاس بنوا دیتا ہوں۔ اس کام میں پیسے بھی ملنا تھے۔ شوٹ ایک فیشن میگزین کے واسطے ہونا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ تو سونے پہ سہاگا ہے۔ یعنی پیسے بھی مل رہے ہیں اور فوٹوگرافی میں ایک نئی صنف بھی شوٹ ہو جائے گی تو چلو پروفائل کے لیے اچھا ہوگا۔ میں نے فوراً ہاں کر دی۔
ایک سال تک میں نے لاہور اور اسلام آباد میں Bridal couture Weeks اور PFDC Sunsilk Fashion Weeeks شوٹ کئیے۔ پیسے مل جاتے تھے۔ جیب خرچ نکل آتا تھا۔ اور جوانی میں کیا چاہئیے ہوتا ہے؟ یہی کہ بس خرچہ پانی چلتا رہے شوق پورا ہوتا رہے۔ اس زمانے میں میں نے مہرین سید، جیا علی، نادیہ حسین وغیرہ وغیرہ جیسی ٹاپ ماڈلز کو شوٹ کیا۔ فیشن انڈسٹری کا حصہ بنا تو کئی نامور لوگوں سے جان پہچان ہوئی۔ حسن شہریار، دیپک پروانی، میرا ہم نام مہدی، ونیزا احمد (کئیوں کے میں اب نام بھی بھول چکا ہوں)۔ ڈیپلکس کی مالکہ مسرت مصباح صاحبہ، ہئیر سٹائلسٹ ٹونی اینڈ گائے کے شمل قریشی۔ الغرض اس انڈسٹری سے وابستہ بہت لوگوں سے پہچان بنی۔ ان کو فوٹوگرافرز سے بہترین تصاویر چاہئیے ہوتیں تھیں اس واسطے یہ فوٹوگرافرز سے ہیلو ہائے رکھتے تھے۔
دام اچھے ملنے لگے تو میں لگا رہا۔ اس انڈسٹری کو ایک سال اندر باہر سے دیکھا۔ بہت سے واقعات کا عینی شاہد ہوں مگر ان تفصیلات میں نہیں جاتا۔ کسی کی پرائیویٹ لائف کو ڈسکس نہیں کر سکتا۔ یہ سب اس واسطے بتا رہا ہوں کہ میں نے یہ فیلڈ کیوں چھوڑ دی۔ جب کہ اس میں پیسے بھی تھے اور شاید میں جاری رکھتا تو آج نامور فیشن فوٹوگرافر ہوتا۔ آزو بازو جلوے ہوتے۔ ایک فارم ہاؤس لیا ہوتا۔ بہت مہنگی گاڑی بھی ہو سکتی تھی۔
ریمپ پر تو والک ہوتی مگر بیک سٹیج یہ سب ستارے جمع ہوئے ہوتے اور آپس میں گوسپس یا خوش گپیاں چل رہی ہوتیں۔ اگر باہر کہیں تھیم شوٹ کرنا ہوتا تو Props کے ساتھ پورا لاؤ لشکر چلتا۔ ماڈلز، میک اپ آرٹسٹ، ہئیر سٹائلسٹ۔۔ اس شعبہ میں چونکہ اکثریت "شوقین مزاج" ہوتی اس لیے وہ اپنے کام لگے رہتے مجھے سوائے سادہ سگریٹ کے کسی قسم کا شوق نہیں تھا۔ سگریٹ بھی ان دنوں نیا نیا ہی پھونکنا شروع کیا تھا۔ مجھے کئی بار جتایا جاتا کہ تم چرس بھی نہیں پیتے کیسے بورنگ انسان ہو۔ میں ہنس کے ٹالتا جاتا۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ جب آپ کسی کمپنی یا گیدرنگ کا پارٹ بننے لگتے ہیں تو پھر اس کمپنی کی جانب سے فرمائشیں بھی مسلسل ہونے لگتیں ہیں۔
یوں نہیں کہ مجھے نشہ یا شراب کی آفر نہیں ہوتی تھی بلکہ میرا مسئلہ یہ بن چکا تھا کہ انکار کرنے پر مجھے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا اور مجھ پر ہنستے ہوئے جوک یا طعنے مارے جاتے تھے جن کو میں بھی ہنس کے اگنور کر دیتا تھا۔ اور کیا کرتا؟ کمانا بھی تو تھا۔ یہ سلسلہ ایک سال ہی چل پایا اور پھر میں نے یہ فیلڈ چھوڑ دی۔ کبھی مڑ کے دیکھا بھی نہیں۔ ساری دوستیاں سارے ناطے کٹ آف کر دئیے۔ میرے مزاج کا بندہ ویسے بھی اس ماحول میں نہیں چل سکتا تھا۔ شراب پینا یا کوکین سونگھنا میرے لیے مشکل نہیں تھا۔ نوجوانی میں ہی سب میسر آ گیا تھا اور وہ بھی بالکل مفت۔ اگلوں کے خرچ پر۔ کہتے تو ہیں کہ مفت کی شراب قاضی کو بھی حلال مگر میرا دل اس جانب نہ مائل ہو پایا۔
اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں کوئی پنج وقتی حاجی نمازی تھا یا تسبیح پھیرتا رہتا تھا۔ اس کی صرف و صرف دو وجوہات تھیں۔ اول، میری اماں نے مجھے ہوش سنبھالنے سے گاہے گاہے تاکید کی کہ کبھی نشہ نہ کرنا، نشہ یوں کر دیتا ہے نشہ ووں کر دیتا ہے، نشہ حرام ہے، نشے سے بڑھ کر دنیا میں کوئی قبیح عمل ہو ہی نہیں سکتا وغیرہ وغیرہ۔ الغرض میرے لاشعور میں اماں نے کچھ باتیں بٹھا دیں تھیں جو کبھی نہیں نکل پائیں۔
دوسری وجہ یہ کہ مجھے ڈر لگتا تھا اور اب بھی لگتا ہے۔ اگر کبھی چیک کرنے یا برائے تجسس پینے یا نارکو سونگھنے کا دل بھی کیا تو فوراً اس خیال سے ڈر گیا کہ اگر میں قابو سے باہر ہوگیا تو کیا ہوگا؟ مطلب اگر مجھے ہوش نہ رہی تو نجانے میں کیا کر گزروں گا یا اول فول بکنے لگوں گا۔ اپنا تماشہ بنوا لوں گا۔ یا کچھ ایسا کر جاؤں گا جو نہیں کرنا چاہئے یا اپنا یا کسی کا نقصان کر دوں گا۔ بیرون ممالک دوروں میں میرے ہوٹل کے کمرے کی منی بار میں پڑی ہوتیں ہیں۔ انسان ہے کبھی خیال آتا ہی ہے کہ تھوڑا چیک تو کیا جائے۔ جب جب ایسا ہوا فوراً دوجا خیال یہی آیا کہ نہیں نجانے اس سے کیا ہو جائے۔۔
تو میں آپ کو بتانا چاہ رہا تھا کہ میں نے فیشن انڈسٹری کیوں چھوڑی۔ روز بہ روز بڑھتے گلے، جوکس یا طعنوں کو ایک سائیڈ پر رکھ کر چل تو رہا تھا مگر ایک دن ایسا ہوا جس نے میری عزت نفس کو توڑ دیا۔ ایک ایونٹ کو بھگتا کر سب ایک ہال میں جمع تھے۔ محفل چل رہی تھی۔ کاک ٹیلز بن رہے تھے، دھوئیں اُٹھ رہے تھے۔ یکایک ایک مشہور برائیڈل ڈئیزائنر نے مجھے اونچا مخاطب کرتے کہا " مہدی۔ تم نے نہیں پینی تو ہال سے باہر نکل جاؤ۔ یہاں تمہارا کوئی کام نہیں۔ اگر کچھ پینا ہو تو ویلکم"۔ یہ سن کر سب قہقہے لگانے لگے۔ میں نے اپنا کیمرا بیگ سمیٹا اور باہر نکل گیا۔
باہر نکل کر مجھے لگا کہ یہ میری انسلٹ ہے۔ میں یہاں کیوں ہوں۔ اس دن قسم کھا لی کہ اب بس۔ اب یہ کام نہیں کرنا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں نے کبھی واپس جانے کی سوچی بھی نہیں۔ بھئی انسان کو آخر کیا چاہئے ہوتا ہے؟ عزت، شہرت اور دولت، یہی ناں؟ چلو ٹھیک ہے میں نے اس دن فیشن انڈسٹری چھوڑ کر جو راہ منتخب کی وہ کافی لمبی تھی اور یہاں تک آتے ڈیڑھ دہائی بیت گئی اور جس قدر مشکل سے بیتی میں ہی جانتا ہوں۔ پیسے کمانے کو ٹیکسی بھی چلانا پڑی۔ مگر آخر خدا اجر تو دیتا ہے۔ یہ تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کی محنت، درست فیصلوں اور آزمائشوں کا صلہ نہ ملے۔ دیر ہو سکتی ہے مگر انکار نہیں۔ آج سب مل گیا ہے۔ اور نہ بھی ملا ہوتا تو دوستو دو چیزوں پر کبھی کمپرومائز نہ کرنا ورنہ انسان اور جانور میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
اول، عزت نفس
دوم، اپنے اصول
کبھی کبھی انسان اپنے ماضی سے لیکر حال تک نظر دوڑائے، کچھ یادیں کھنگالے، کچھ گئے بسرے لمحوں میں سانس لے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک پُل پر کھڑا ہے جس کے نیچے سے بہت سا پانی گذر چکا ہے۔ زندگی بدل چکی ہے۔ وہ شب و روز ہوا ہو چکے ہیں۔ وقت کی یہ خوبصورتی ہے کہ وہ سدا ایک سا نہیں رہتا اور یہی المیہ بھی۔
جاب ہوئی تو فارنرز کولیگز میں، ڈپلومیٹس کے ساتھ اور ایسی ہی تقریبات کا حصہ بننا جاب کی مجبوری بن گئی۔ جب بھی مجھے کوئی آفر کرتا میں بول دیتا" نہیں، شکریہ، میں نہیں پیتا"۔ کچھ لوگ جواب سن کر مجھے عجیب نظروں سے گھورتے اور کچھ اگنور کر دیتے۔ میں سوچتا کہ آخر میں نے ایسی کیا غلطی کر دی ہے کہ اگر میں نہیں پیتا تو مجھے اگنور کیا جائے؟ پھر ایک دن مجھے اس کا جواب مل گیا۔
صاحبو، فارنرز کا، بیرونی دنیا کا یا ایسی محافل کا جو لوگ حصہ ہوتے ہیں یہ ان کا کلچر ہوتا ہے۔ یہ ان کا معمول ہوتا ہے۔ الکوحل کا استعمال ان کے کھانوں سے قبل اور کھانوں کے بعد کا روزمرہ ہے۔ وہاں اس کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ جب ان کے سامنے یا محفل میں صاف جواب دے دیا جائے " میں نہیں پیتا" تو یہ ان کے واسطے انسلٹ ہوتی ہے۔ یعنی آپ انہیں دوسرے لفظوں یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ یہ غلط کام ہے اور میں نہیں کرتا۔ ان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کچھ غلط کر رہے ہیں اور انہیں ایک شخص جج کرتے ہوئے ایسا کہہ رہا ہے۔ ایک دفعہ جب ایسی ہی محفل میں مجھے پیشکش ہوئی تو میں نے کہا"شکریہ، مگر میں چھوڑ چکا ہوں۔ I Quit"۔
وہ سب خوش ہو کر میری جانب متوجہ ہوگیے اور کہنے لگے " واہ، زبردست۔ یہ کیسے کر لیا یار؟ ہم سے تو نہیں ہو پاتا۔ مگر تم کمال ہو"۔ اس دن کے بعد یہ معمول بنا لیا کہ جب کوئی آپ کو آفر کرے اور اس جگہ موجود رہنا آپ کی جاب یا بزنس کی مجبوری ہو تو آپ سمپل اتنا کہہ دیں" Thanks but i quit"۔ یہ بنیادی مینرز ہیں۔ ان کو سیکھتے اک عمر لگ جاتی ہے۔ اس طرح کوئی ناراض نہیں ہوتا بلکہ وہ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
پل کے نیچے سے کافی پانی گذر چکا ہے۔ زندگی آگے بڑھ جاتی ہے۔ روز ایک نیا چیلج دیتی ہے۔ ان چیلنجز کا سامنا کرتے انسان وقت کے ساتھ میچور ہوتا جاتا ہے۔ پھر ایسا وقت بھی آتا ہے کہ اسے میسر تمام آسائشیں بھی اس کے واسطے کوئی معنیٰ نہیں رکھتیں۔ بس اپنی نسل یا بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر وہ جئیے جاتا ہے اور دن گذارتا جاتا ہے۔ اپنا آپ تو اندر ہی اندر کب کا دفن ہو چکا ہوتا ہے۔۔ وقت کی یہ خوبصورتی ہے کہ وہ سدا ایک سا نہیں رہتا اور یہی المیہ بھی۔