Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Life Is A Fiction, Truth Is Luxury

Life Is A Fiction, Truth Is Luxury

لائف از اے فلشن، ٹروتھ از لکژری

کل ایک صاحب مال میں شاپنگ کرتے مل گئے۔ انہوں نے جھٹ سے آٹوگراف مانگ لیا حالانکہ آج کے زمانے میں آٹوگراف بہت آؤٹ ڈیٹڈ لگتا ہے۔ اب تو سیلفی ہی آٹوگراف ہے۔ انہوں نے اپنے کیری بیگ سے چھوٹی سی ڈائری نکالی اور میرے سامنے کر دی۔ یوں اچانک کوئی آپ کو کہے کہ کچھ لکھ دیں تو میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کیا لکھوں۔ یہ نہیں کہ ذہن بلیک آؤٹ ہو جاتا ہے۔ بلکہ سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ اگلے کو کیا کہنا ہے۔ میں نے ایک جملہ لکھ دیا۔

Life is a fiction, truth is luxury.

انہوں نے ڈائری بند کی اور رخصت ہو گئے۔ بیگم ہمراہ تھی۔ اس نے پوچھا کہ کیا لکھا۔ میں نے بتایا۔ دو منٹ بعد بولی "یہ آپ نے اپنی زندگی کے بارے لکھا ہے تو غلط بیانی کی ہے۔ آپ کو لکھنا چاہئیے تھا۔

Life is a magic lamp, truth is genie

ساتھ ہی اس نے خود تشریح فرماتے کہا "آپ کی جندگی اپسراؤں کی نذر ہے اور سچ تو جن کی طرح غائب ہے۔ کبھی مجھے بھی نہیں بتایا کہ کس کے بعد کون تھی اور میں کس نمبر پر آئی"۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ بیگم آفرین ہے تم بغلوں کے بال ساڑنے کا ہنر جانتی ہو"۔ وہ شغل لگاتی رہی اور چلتے چلتے وہ بھائی صاحب ایک بار پھر سامنے ٹکرا گئے۔ پھر سے ہیلو ہائے ہوئی۔ میں نے کہا کہ بھیا آپ میری بیگم کا آٹوگراف بھی لے لیں ابھی ابھی انہوں نے آفرین جملہ عطیہ کیا ہے۔ قہقہے لگا کر وہ پھر سے رخصت ہو گئے۔

رات گئے میسج آیا "مرشد سچ کیا عیش ہوتا ہے؟ مجھے اس کا مطلب بتا دیں"۔ میں نے سوچا پبلک میں ہی سمجھا دوں شاید دو لوگ اور سمجھ جائیں۔

زندگی ایک کہانی ہے، جو دی گریٹ رائٹر نے لکھی ہے۔ ہر انسان ایک کردار ہے۔ جیسے شیکسپئیر نے خوبصورت کہا تھا کہ زندگی ایک سٹیج ہے اور ہم کردار۔ اگر انسان اپنی زندگی پر نظر دوڑائے تو اسے محسوس ہوگا کہ وہ ایک فکشن میں سانس لے رہا ہے۔ جہاں خوشی بھی ہے دکھ بھی، رشتے بنتے بھی ہیں مٹتے بھی ہیں، لوگ ملتے بھی ہیں، بچھڑتے بھی ہیں، بچے کی صورت نئی زندگی وجود میں آتی ہے تو وہیں موت سگے رشتوں سے جدائی کی راہ ہموار کرتی جاتی ہے، ٹریجڈی بھی ملتی ہے اور سُکھ چین بھی۔ بحرِ زیست میں مدو جزر آتے رہتے ہیں۔ آنسو بھی ساتھ ساتھ چلتے ہیں قہقہے بھی۔ پھر جب وہ لمحہ آن پہنچتا ہے۔ جس دم آنکھیں بند ہوا چاہتی ہیں اور سانس رخصت ہوا چاہتی ہے، اس ایک آن میں یوں لگتا ہے کہ ساری زندگی کہانی کی صورت کس قدر جلد ختم ہوگئی ہے۔ مجھے یقین ہے، آنکھ بند ہونے سے قبل حیران ہو کر پتھرا جاتی ہے اور اسی لمحہ دم نکل جاتا ہے۔

ہر صبح نئی داستان ملتی ہے، ہر شام نیا موڑ آتا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ کچھ لوگ ان کو قلمبند کرکے امر ہو جاتے ہیں اور بائیوگرافی، ناولز و فکشن کی صورت ان کا نام باقی رہ جاتا ہے اور کثیر تعداد اپنی زندگی پر غور کیے بنا کاوشِ روزگار یا آسودہ حالی میں بِتا دیتی ہے۔ لوگ نہ بتا سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں وگرنہ زندگی تو ہر ایک پر کہانی بن کر ہی گزرتی ہے۔ ہر انسان اپنا کردار نبھا کر چلا جاتا ہے۔ پردہ گر جاتا ہے۔

میں زندگی کو اسی نظر سے دیکھتا ہوں۔ یہ حقیقت ہے اور اسی لمحے داستان بھی ہے۔ سچ اس زندگی میں تلاشنا بہت مشکل ہے۔ ناممکن۔ پروپیگنڈا وار کے اس دور میں تو اور بھی ناممکن۔ ہر کسی کا سچ اپنا ہوتا ہے۔ اس کی تلاش میں عمر گزر جاتی ہے۔ یہ سو پردوں کے بیچ چھُپا ہوتا ہے اور اس کو پانے کو کون تردد کرتا ہے؟ یہ اتنا مشقت والا کام نہیں بس اپنے دماغ کی جالا بند کھڑکی کو کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ گوتم بُدھ کا ایک قول ہے "اس پر کبھی یقین نہ کرو جو کہے کہ میں نے سچ کو پا لیا۔ اس پر ضرور یقین کرو جو کہے کہ میں سچ کی تلاش میں ہوں"۔ سچ کی مختصر کہانی یہ ہے کہ جس کہانی پر آپ کا دل مائل ہو جائے وہی سچ ہے۔ باقی سب جھوٹ۔

سچ کا پیمانہ یہ ہے کہ آپ کس جگہ سے اسے دیکھ رہے ہیں۔ کس زاوئیے سے اس پر مرکوز ہیں۔ ہو سکتا ہے، آج کا سچ کل کا جھوٹ نکل آئے یا ماضی کا سچ آج کا جھوٹ ہو۔ بات تو یہ کہ پیراڈائم شفٹ ہوتا ہے تو حقیقت بھی بدل جاتی ہے۔ کبھی کا سچ آج کا جھوٹ اور کسی کا جھوٹ آج کا سچ ہو سکتا ہے۔ میں نے جانا تو یہ جانا ماسوائے ایمان کے کچھ سچ نہیں ہے۔ ایمان نام ہی ایک پیراڈائم کا ہے۔ جس پر انسان ایمان لے آتے ہیں وہی سچ ہوتا ہے اور سچ کبھی ننگا نظر نہیں آتا۔ جیسے فرشتے، جنت و دوزخ، ابلیس، ہٹلر کی موت، کینیڈی کا اصل قاتل، وغیرہ وغیرہ ۔۔

صاحبو، سچ ایک عیش ہے۔ اگر آپ اس تک پہنچ جائیں۔ المیہ بس یہ ہے کہ اسی چکر میں مہلت عمر تمام ہو جاتی ہے۔ میں جب لوگوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ اپنی "سچائی" کو حرف آخر مان کر مذہب، سیاست اور سماج کے نام پر اک دوجے سے دست و گریبان ہو جاتے ہیں تو مجھے بس ہنسی آتی ہے۔ اگر کل کو ان کا سچ بدل گیا تو کیا یہ لوگ اپنے پر ندامت محسوس کرتے ہیں؟ مجھے اس کا جواب نہیں معلوم۔

مہاتما بدھ نے پیڑ تلے بیٹھے بیٹھے جھڑتے پتّوں سے مٹھی بھری اور آنند کی طرف دیکھا:

"اے آنند! کیا سارے پتّے میری مٹھی میں آ گئے ہیں؟"

آنند جھجکا۔ پھر بولا، "آقا! یہ رُت پت جھڑ کی ہے۔ جنگل میں اتنے پتّے جھڑتے ہیں کہ اُن کی گنتی نہیں ہو سکتی"۔

مہاتما بدھ بولے، "اے آنند! تُو نے سچ کہا ہے پت جھڑ کے اَن گنت پتّوں میں سے مَیں بس مٹھی بھر ہی سمیٹ سکا ہوں۔ یہی گُت سچائیوں کی ہے۔ جتنی سچائیاں میری گرفت میں آئیں، مَیں نے اُن کا پرچار کیا، پر سچائیاں تو اَن گنت ہیں۔ پت جھڑ کے پتوں کے سمان۔ سب سچائیاں بھلا کس کو ملتی ہیں؟ یہ مٹھی بھر سچائیاں ہی تو اِس جیون کا سبھاؤ ہیں"۔

اور پھر سو باتوں کی ایک بات اپنی سچی زوجہ ماجدہ کا قول

Life is a magic lamp, truth is genie

Check Also

Saudi Arabia Mein Anar Ki Kasht

By Mansoor Nadeem