Lakshmi Chowk
لکشمی چوک
لاہور میں لکشمی چوک اور اطراف کا علاقہ ایسا علاقہ تھا جس پر مالدار ہندوؤں کی آبادی تھی جن پر لکشمی دیوی کی پوری مہربانی تھی۔ یہ علاقہ سینما سے وابستہ فنکاروں کے سبب بھی مشہور ہوا۔ یہیں ایک لکشمی مینشن ہے جس میں منٹو صاحب رہا کرتے تھے۔ اسے لالہ لاجپت رائے نے تعمیر کروایا تھا۔ اب یہ عمارت بوسیدہ ہو کر اپنے گزشتگان کی یاد میں ویران سی کھڑی ہے۔
اسی چوک میں ایک تازہ جوس بیچنے والا کھڑا ہوتا تھا۔ اس علاقے کے معمر رہائشی جوہر عباس نے قصہ سناتے کہا "ایک دن منٹو صاحب جوس پینے کھڑے تھے کہ کچھ خواتین آئیں۔ انہوں نے جوس پیا اور چلی گئیں۔ ان کے جاتے ہی دو نوجوان آئے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ گلاس ہمیں دے دو تم نئے لے لینا۔ اس زمانے میں شیشے کا گلاس ایک روپے کا ملتا تھا۔ ریڑھی والا بولا کہ ٹھیک ہے میں نئے لے لوں گا یہ تم خرید لو۔ جیسے ہی وہ گلاس دھو کر صاف کرنے لگا نوجوان بول اٹھے "ارے ایسے ہی چاہئیے۔ ان کو دھو دیا تو خریدنے کا مقصد نہیں رہے گا۔ ان پر جو لپ سٹک کا نشان ہے اسی سبب تو خرید رہے ہیں۔ اس کو بس شو پیس بنا کر رکھیں گے اور لپ سٹک کے نشان دیکھتے رہا کریں گے"۔
منٹو صاحب نے جیسے ہی یہ سُنا ان کے منہ سے ایک عجب لفظ نکلا "چغد"۔ جوہر عباس صاحب کا کہنا تھا کہ آج سے قبل یہ لفظ انہوں نے کہیں نہیں سنا تھا۔ مجھے لوفر، لفنگے، اُچکے کا مطلب تو آتا تھا مگر یہ چغد بالکل نیا لفظ تھا۔ کئی بار سوچا کہ منٹو صاحب سے اس کا مطلب پوچھ لوں مگر زندگی نے پھر موقعہ ہی نہ دیا۔
لاہور میں جتنے بھی چوک ہیں لکشمی چوک ان سب کا دل ہے۔ اس کے اطراف کبھی سینما گھر اور ریسٹورانٹ ہوا کرتے تھے اب بس ریسٹورانٹ ہی موجود ہیں۔ بٹ کڑاہی، شیفا قیمے والا، نشاط کیفے، بھٹی تکہ، لاثانی کٹاکٹ وغیرہ۔ لکشمی چوک اس گول چکر کا نام ہے جس میں ایک سڑک ایبٹ روڈ، دوسری نسبت روڈ، تیسری ریلوے اسٹیشن اور چوتھی میکلوڈ روڈ سے ہوتی آن ملتیں ہیں۔
مشہور ہندو ڈاکٹر لال چند کی شاندار عمارت رنجیت بلڈنگ آج بھی یہاں موجود ہے جس کے گردا گرد بہت بڑا میدان ہوا کرتا تھا جہاں سرکس و تھیٹر لگا کرتے تھے۔ تقسیم سے قبل لکشمی چوک فلمی اداکارؤں کے اکٹھ کا مرکز ہوا کرتا۔ لاہور فلمی دنیا کا مرکز تھا۔ دلیپ کمار، محمد رفیع اور شنکر جے کشن جیسے لوگوں نے یہیں سے اپنی پہچان بنائی اور پھر ممبئی چلے گئے۔
آج جب میں یہاں کھڑا ہوں، سورج غروب ہوتے ہی اس چوک کی رونق شروع ہو جاتی ہے۔ مالشئی تیل کی شیشیاں چھنکاتے گزرتے رہتے ہیں۔ توے پر کٹاکٹ بننے کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔ چوک کا حلیہ دیکھتے ہی دیکھتے یکسر بدل چکا ہے۔ اب تو یہ بس نام کا لکشمی رہ گیا ہے۔ کجا وہ دن کہ جب میں اور میرا یار سیالکوٹ سے مہران کار پر نکلتے۔ گڑھی شاہو سہیل احمد کا تھیٹر دیکھ کر رات دو بجے نکلتے تو لکشمی چوک آ جایا کرتے اور پھر یہاں سے ڈنر کم ناشتہ کر کے صبح چار بجے واپس سیالکوٹ کی راہ لیتے۔ نہ وہ دوست رہا نہ چوک رہا۔ اب تو یادوں کے خاکے میں رنگ بھرنے نکل آتا ہوں۔
ملک عزیز میں جب ہر دریا، گلی، چوک و چوراہے کو کلمہ پڑھانے کا رواج پڑھا تو لکشمی چوک کیسے بچ پاتا۔ دریائے چندر بھاگ نے پاکستان کی سرحد میں داخل ہوتے ہی کلمہ پڑھا اور چناب کہلایا۔ کشن گنگا کے ختنے ہوئے اور نیلم جہلم پکارا جانے لگا۔ منٹگمری نے صلیب اُتاری تو ساہیوال کہلایا۔ لائلپور نے داخل اسلام ہوا اور فیصل آباد ٹھہرا۔ بہاولپور کی گاندھی گلی اب گندی گلی کہلائے جانے لگی۔ ملکہ وکٹوریا کے عطا کردہ فوارہ چوک جسے وکٹوریا چوک کہا جاتا تھا اس نے پوشاک بدلی اور وہاں ختم نبوت چوک کا بورڈ لگ گیا۔ لاہور کا کرشن نگر اب اسلام پورہ کہلاتا ہے۔ دھرم پورہ مصطفیٰ آباد ہو چکا ہے۔
میں لکشمی چوک میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ مقصد کیا ہے اس سوچ کے پیچھے؟ اگر احساسِ برتری جتانا ہے تو آپ کس کو جتانا چاہ رہے ہیں؟ خود کو یا دنیا کو؟ اگر احساسِ کمتری ہے تو نام بدلنے کے بجائے نئے چوک، پارکس، عمارات، شاہراہیں بنا کر ان کا نیا نام رکھ دیں۔ اگر کوشش یہ ثابت کرنے کی ہے کہ ہمارا بحیثیتِ پاکستانی مسلمان برصغیر کی پرانی ثقافت، رہن سہن اور تاریخ سے کوئی رشتہ نہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے والد صاحب کا نام راحت اللہ خان سے بدل کر شیخ مولا بخش رکھ دے۔
اگر پرانے ناموں پر نئے ناموں کا ٹھپہ لگانا واقعی کوئی صحت بخش عمل ہے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ آپ چاہیں تو لاہور کا قبل از اسلام نام بدل کر داتا نگر رکھ دیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کو ابدال پور کر دیں۔ ایبٹ آباد کا نام بدل کر بن لادن آباد رکھیں مگر پھر رکشے والے کو بھی بتا دیں تاکہ جب آپ اسے کہیں کہ چچا مجھے ظفر علی خان چوک لے چلو تو وہ اُتارتے وقت یہ تو نہ کہے " باؤ جی، اسی اَن پڑھ لوک آں۔ سدھا سدھا لکشمی چونک کہندے تے ایناں پھیرا تے ناں پیندا"۔