Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Kuch Nahi Badalne Wala

Kuch Nahi Badalne Wala

کچھ نہیں بدلنے والا

گذشتہ روز میں نے کہا تھا کہ "باخبر ذرائع" کے مطابق مجموعی ٹرن اوور بہت زیادہ نہیں رہا اور اس کو "مینج" کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ تحریک انصاف کے والہانہ عاشق مانتے بھی تو نہیں۔ وہ کہتے رہے کہ بہہ جا بہہ جا ہوگئی اور الیکٹورل انقلاب آ رہا۔ ان کو وہی سننا ہوتا ہے جو ان کا دل سننا چاہتا ہے۔ کچھ زمینی حقائق ہوتے ہیں ان کو دیکھ، پرکھ اور جان لینا چاہئیے۔ اس سے دُکھ قدرے کم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر۔۔

۔ الیکشن ہر بار فتح کئے جاتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ جیسے چاہے ویسا کر لیتی ہے۔ وہی ہوا ہے۔ آپریشن ضرب غضب آدھی رات کو شروع کیا گیا۔ اور نتائج بدلنے لگے۔

۔ ہر بار نت نیا طریقہ آزمایا جاتا ہے، پچھلی بار آر ٹی ایس بیٹھا اور پھر جب اُٹھا تو تحریک انصاف لیڈ کرنے لگی۔ اس بار موبائل سروسز بند کی گئیں اور آر اوز سے جو نتیجہ لینا تھا وہ فارم 47 کی صورت لیا جا رہا ہے۔ اب آپ بیشک الیکشن ٹریبونل میں فارم 45 پکڑ کر جوتیاں گھساتے رہیں گیم ڈل گئی ہے۔

۔ اس ملک میں یہ سوچنا کہ انتخاب صاف شفاف ہو جائے گا نرا وقت کا ضیاع ہے۔ یہ اس ملک کا المیہ ہے۔ اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کو صرف و صرف صاحب لوگوں کی چند فون کالز درکار ہوتیں ہیں اور یہ خیال کرنا کہ راتوں رات نظام بدل سکتا یا آپ کے ووٹ سے الیکٹورل انقلاب آ سکتا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

بہرحال، کچھ باتیں صاحب لوگوں کے واسطے بھی صاف ہوگئیں ہیں کہ وہ زیادہ دیر اس نظام کو یوں چلا نہیں پائیں گے۔ کچھ نیا جگاڑ لگانا ہوگا۔ عوامی رائے ان کے خلاف ہے اور دن بہ دن مزید ہوگی۔ مگر مجھے یقین ہے کہ صاحب لوگ نیا جگاڑ ڈھونڈ ہی لیں گے کیونکہ جس دن ان کے پاس عوام کو یرغمال بنائے رکھنے کے نت نئے آئیڈیاز ختم ہو گئے وہ اپنی طاقت بھی کھو دیں گے۔

باقی جو آپ کو مل گیا ہے اسی پر راضی ہو جائیں ورنہ اتنا بھی نہ ملتا تو کیا اکھاڑ لینا تھا؟ کے پی میں آپ کی کُلی جیت ہے۔ ایک التجا یہ بھی ہے کہ ہو سکے تو حد سے بڑھا جذباتی پن ترک کر دیں اور معاملات کو ہر زوائیے سے دیکھنے پرکھنے کی کوشش کیا کریں۔ اپنی جماعت کے انفلیونسرز سے سپون فیڈنگ پر نہ رہا کریں۔ مجھے لگتا ہے یہ آپ کی جیت ہی ہے۔ اپنے حریف کو ناکوں چنے تو چبوا دئیے ہیں اور حریف بھی جانتا ہے کہ کس طرح اور کس کے سہارے وہ کامیاب ہو رہا ہے۔

اس ملک میں دو ہی نظرئیے چل سکتے ہیں کیونکہ اس ملک کی ایک ہی تگڑی حقیقت ہے اور وہ ہے مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ۔ لہذا دانش کا تقاضہ یہی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور لیڈران سے جذباتی طور پر اٹیچ ہونے کی بجائے اپنے کسی نظرئیے سے اٹیچ ہونا سیکھیں۔ یا تو مقتدرہ کے مخالف کھڑے ہوں یا پھر ان کے ساتھ ہوں۔ جماعت، امیدوار، لیڈر سے قطع نظر ہو کر صرف نظرئیے کے زیر اثر کھڑے ہوا کریں۔ شخصی رومانس سے نکلیں گے تو آپ کی سمت درست ہونا شروع ہوگی وگرنہ جہاں آپ کا لیڈر یوٹرن مار لے گا وہیں آپ شرمندہ ہوں گے اور پھر ندامت سے بچنے کو آپ اپنی جماعت یا لیڈر کے یوٹرن کو بھی راہ حق کہنے پر مجبور ہوتے جائیں گے۔

اب آپ کو یہ سمجھ آ جائے گی کہ میں کیوں اس الیکٹورل نظام کے خلاف ہوں اور اس پر اعتبار نہیں کرتا۔ یہی کچھ اور اسی قماش کے انتخابات بھگتاتا آیا ہوں۔ ووٹ تو صرف صاحب لوگوں کے خلاف دیتا ہوں کہ چلو ان کو یہ تو ہو کہ اتنی پرچیاں ہماری کرتوت کے خلاف بھی ڈلیں ہیں۔ مجھے ادراک ہوتا ہے کہ اس سے کچھ نہیں بدلنے والا۔ ایک چھوڑ اس نظام میں ہزار انتخابات کروا لیں نتیجہ ایسا ہی نکلے گا جیسا نکلتا آیا ہے۔ جب تلک اوپر سے نیچے تک سارا بوسیدہ ڈھانچہ از سر نو تعمیر نہیں کیا جائے گا یہاں کچھ نہیں بدلنے کا اور افسوس سے ابھی تک ایسی سوچ کسی سیاسی جماعت کی نہیں ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ لیڈران کو یہی نظام سوٹ کرتا ہے جس میں وہ طاقت کے مرکز سے ڈیل کر لیں اور آرام سے اقتدار حاصل کر لیں۔ مسئلہ تو ڈیل کا ہی ہے ناں۔۔

خوش آئند بات میرے لیے یہ ہے لوگوں میں اتنا شعور پیدا ہونے لگا ہے کہ وہ طاقت کے اصل مرکز کو سمجھنے لگے ہیں اور اپنی بے بسی کا ادراک بھی کرنے لگے ہیں۔ یہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان کی رائے، ووٹ اور عزت اگلوں کے ہاں ٹکے کی حیثیت نہیں رکھتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ نواز لیگ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی و دیگر کے کارکنان بھی دل سے اس نظام اور اس کے کرتے دھرتوں کو اچھا نہیں سمجھتے۔ سب دل سے سول سپریمیسی چاہتے ہیں۔ سول سپریمیسی کا احساس ہونا خوش آئند ہے۔ مگر یہ راتوں رات بھی نہیں ملتی۔ اسے پانے کو کافی مشقت کرنا ہوتی ہے اور آپس میں بیٹھ کر مذاکرات یا ڈائیلاگ کرنا ہوتے ہیں۔ مگرمچھ کے جبڑے سے اپنے حق کا ماس چھیننا اوکھا کام ہے۔

اس کے ساتھ ہی میری جانب سے الیکشن ٹرانسمیشن اختتام کو پہنچی۔ آپ اسی "جمہوری" سرکل میں گھومتے رہیں۔ اس سسٹم میں رہتے "بیٹر لک نیکسٹ ٹائم " کی بجائے "بیٹر ڈیل نیکسٹ ٹائم" کہنا چاہوں گا۔

Check Also

Kahani Aik Deaf Larki Ki

By Khateeb Ahmad