Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Kainat Ki Wussat

Kainat Ki Wussat

کائنات کی وسعت

یہ کائنات کتنی بڑی ہے؟ شائد اتنی بڑی کہ لفظ "بڑا" بھی بہت چھوٹا ہے۔ اب تک سب سے طاقتور دوربین صرف تین ہزار کہکشائیں دیکھ پائی ہے جو بارہ ارب نوری سال کے دائرے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایک نوری سال کا مطلب ہے وہ فاصلہ جو روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک سال میں طے کرتی ہے۔ یعنی اس وقت آسمان پر جو ستارہ چمک رہا ہے اگر وہ زمین سے ایک نوری سال کے فاصلے پر ہے تو اس وقت ہمیں اس کی جو چمک نظر آرہی ہے وہ ایک سال پرانی ہے۔

ہمارا یہ نظامِ شمسی جس کہکشاں کا حصہ ہے اس کا نام ہم نے مِلکی وے فرض کر لیا ہے اور یہ کہکشاں اتنی بڑی ہے کہ ہمارا نظامِ شمسی اس کے انتہائی سرے پر ایک ذرے سے زیادہ بڑا نہیں جسے ننگی آنکھ سے بمشکل دیکھا جا سکتا ہو۔ ہمارا سورج اپنی ہی کہکشاں کے مرکزی حصے سے تیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اس طرح کی کہکشائیں اور کتنی ہیں کوئی نہیں جانتا۔ ماہرین فلکیات کا اندازہ ہے کہ یہ ایک ارب سے زائد ہیں۔

اپنی اس کہکشاں کے جن چند ستاروں کے بارے میں ہم اب تک جان پائے ہیں ان میں ایک ستارہ "وائی کینس میجورس" ہے۔ یہ ہم سے تین ہزار نو سو نوری سال کی دوری پر ہے۔ اس کے قطر کا اندازہ ایک ارب اٹھانوے کروڑ کلومیٹر لگایا گیا ہے۔ یعنی اس میں ہماری زمین جیسی چھ لاکھ چالیس ہزار زمینیں باآسانی سما سکتی ہیں۔ اس ستارے سے بھی بڑے اور کتنے ستارے صرف ہماری اپنی کہکشاں میں ہیں یہ ہم ابھی نہیں جانتے چنانچہ دیگر ایک ارب سے زائد کہکشاؤں کا تو ذکر ہی فی الحال فضول ہے۔

اب اگر ہمیں کائنات میں اپنی اوقات کا اندازہ ہوگیا ہو تو آئیے زمین پر اتر آئیں۔ کائناتی کیلنڈر کے پیمانے سے دیکھیں تو یہ زمین محض ایک گھنٹے پہلے ہی وجود میں آئی ہے (یعنی صرف ساڑھے چار ارب سال پہلے) اور اس میں زندگی کے ابتدائی آثار صرف پینتالیس منٹ پہلے ہی پیدا ہوئے ہیں (یعنی صرف ساڑھے تین ارب سال پہلے) اور زندگی کے آثار صرف بیس منٹ پہلے پیدا ہوئے ہیں (یعنی کوئی ڈیڑھ ارب سال پہلے) اور سائنس کے محتاط اندازے کے مطابق پہلا انسان ہومو سیپئن صرف پانچ منٹ پہلے پیدا ہوا ہے (یعنی ساٹھ لاکھ سال پہلے) اور مذہبی حوالے سے بابا آدم کو تشریف لائے چند سیکنڈز ہی ہوئے ہیں (یعنی نو ہزار سال پہلے) اور شاید ہماری ہی کہکشاں کے انتہائی سرے پر واقع کسی ستارے تک ہماری زمین کی روشنی ابھی تک پہنچی ہی نہ ہو اور وہاں کے حساب سے ہماری دنیا ابھی پیدا ہی نہ ہوئی ہو۔

لیکن ہماری اکڑ؟ الامان و الحفیظ۔۔

کائناتی کیلنڈر کے مطابق ہم سب لمحہ موجود میں ایک ثانیہ یا ملی سیکنڈ یا شاید سیکنڈ کے کتنے ہزارویں حصے سے زیادہ نہیں ہیں۔ زمینی کیلنڈر کے مطابق ہماری اوسط عمر ستر برس کے لگ بھگ ہے یعنی پچیس ہزار پانچ سو پچاس دن۔

اب ان ستر برسوں کو آپ مختلف خانوں میں تقسیم کرکے دیکھیں۔ لگ بھگ ایک تہائی عمر یعنی تئیس برس نیند میں گزر جاتے ہیں۔ باقی سینتالیس میں سے اکیس برس بیٹھ کر کام کرنے، ٹی وی دیکھنے، سستانے، فون یا انٹرنیٹ پر، جلنے کڑھنے یا تصوراتی دنیا میں صرف ہوجاتے ہیں۔ اب بچے چھبیس برس۔ ان میں سے اوسطاً پندرہ برس ہوش سنبھالنے سیکھنے سکھانے اور کام کی تلاش میں گزر جاتے ہیں۔ اب باقی رہ گئے گیارہ برس۔

ان گیارہ برسوں میں سے بہت ہی کوئی طرم خان ہوا اور اسے زندگی کی مشقت نے مہلت دی تو چار برس اپنی مرضی کے کام (لکھنا، پڑھنا، کھیلنا، سیاحت، فنونِ لطیفہ) میں بسر کرنے کا موقع مل گیا۔ مگر یہ سب کرنا ہمیں اکثر تب یاد آتا ہے جب بقول ساقی امروہوی

میں اب تک دن کے ہنگاموں میں گم تھا
مگر اب شام ہوتی جا رہی ہے

یہ زندگی جسے ہم یادداشت کی کمزوری کے سبب لافانی سمجھ کے جینے کی کوشش کرتے ہیں کیا واقعی ہم جینے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر زندگی ہمیں بسر کرتی ہوئی سامنے سے گزر جاتی ہے؟ اور کیا ہم جو کماتے ہیں اس کا کچھ حصہ اپنی ذات کے واسطے بھی خرچ کرتے ہیں یا بال بچوں، خاندان اور احباب کے واسطے ساری عمر جوڑ کر چل بستے ہیں؟ آپ میں سے کون اپنے وسائل کی تقسیم اس طرح کئے ہوئے ہیں کہ اس میں اس کی اپنی ذات یا ذاتی سپیس یا ذاتی خوشی کا بھی حصہ ہو؟ میرا خیال ہے آٹے میں نمک برابر۔ اکثریت کی زندگی کولہو کا بیل بنے گزر رہی ہے اور گزر جاتی ہے۔ کچھ نامساعد حالات کی نذر ہو جاتی ہے کچھ انسان خود ہی اپنا آپ مار چکا ہوتا ہے۔ یہاں وسائل سے مراد صرف دولت یا پیسہ نہیں ہے۔ مراد وقت بھی ہے اور وقت اس کائنات کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔

میری ہائی فائی سوسائٹی جہاں میری رہائش ہے اس کے بغل میں ایک گاؤں ہے جہاں خلیل موچی بستا ہے۔ میں اس کی چھوٹی سی دنیا کی سیدھی سادی گفتگو کی جھونپڑی میں کچھ دیر بیٹھ کر اس کے بے ضرر قصے اور زمانے کے بارے میں اس کا نقطہ نظر بلا ٹوکے سنتا رہتا ہوں اور وہ لوگوں کے جوتے بھی گانٹھتا رہتا ہے۔ آج تک خلیل نے کسی کے بارے میں کوئی غیبت کی اور نہ ہی اپنی محرومیوں کا چارٹ اپنے چہرے پر چسپاں کیا۔ اسی لیے پینسٹھ برس کی عمر میں بھی اس کا چہرہ مسکراہٹ کی گرمی سے تمتماتا رہتا ہے۔ کار دنیا تم سے پہلے بھی تھا بعد میں بھی رہے گا۔ رونا دھونا تمہاری عمر نہیں بڑھا سکتا کم کر سکتا ہے تو پھر ہنس بول کے سفر کاٹنے میں کیا مسئلہ ہے؟

Check Also

Teenage, Bachiyan Aur Parhayi

By Khansa Saeed