Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Kadu Ja Rea Ayen Mulkoon Baar

Kadu Ja Rea Ayen Mulkoon Baar

کدوں جا ریا ایں ملکوں باہر

سوشل میڈیا نے انسان کو ایک دوسرے سے باندھا تو انسانوں نے انسان کو اس کے کام کی بجائے لباس، رہائش، گاڑی و لائف سٹائل سے پرکھنا شروع کیا۔ کھینچا تانی، حسد، دوسرے کو پچھاڑ کر آگے بڑھنے کی میراتھن شروع ہوئی۔ دنیا گلوبل ویلج بن گئی جہاں ہر انسان دوسرے انسان کی نظر میں آیا۔ وہ کیا کھا رہا ہے، وہ کیا پہن رہا ہے، وہ کہاں جا رہا ہے، اس کے ڈرائنگ روم کی وال کا رنگ کیسا ہے، یہ سب دنیا کے سامنے انسان نے خود رکھ دیا ہے۔

اس گلوبل ویلج کے باسی اب ایک دوسرے سے بہت سے رشتوں میں بندھ چکے ہیں۔ اس سوشل میڈیا کے طفیل کچھ بہت قیمتی انسان بھی ملے ہیں۔ ذاتی طور پر میں پروردگار کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھ پر اپنا فضل رکھا ہے۔ آزمائش میں بھی ڈالتا ہے مگر جب نکالتا ہے ایسے نکالتا ہے کہ گویا کبھی امتحان تھا ہی نہیں۔ اس کا یہ کرم کیا کم ہے کہ میرے واسطے میری یہودی کولیگ ایلا اسرائیل میں اپنے عبادت خانے میں دعا مانگتی ہے اور مجھے عبادت خانے میں حاضری کی تصویر بھیج دیتی ہے۔ میری ایک روسی دوست آرتھوڈوکس مونیسٹری میں چرچ آف ہولی سپرٹ جب جاتی ہے بیبی مریم کے مجسمے تلے کھڑے ہو کر میرے واسطے بھی خیریت مانگتی ہے۔ نوجوت سنگھ گو کہ مذہب بیزار ہے مگر دو بار وہ گردوارے گیا اور مجھے بتانے لگا "شاہ بادشاہ۔۔ تہاڈے لئے گرو جی توں لمی حیاتی منگی اے"۔

کئی بار مجھے میرے مہربان انباکس بھیجتے ہیں۔ کوئی روضہ نبی کریم صلے علی علیہ والہ وسلم پر بیٹھا ہے اور دعا کر رہا ہے، کوئی حرم شریف میں حاضری دے رہا ہے اور مجھے بتا رہا ہے کہ آپ کے واسطے بھی دعا مانگی ہے۔ ایک صاحب کربلا سے ویڈیو کال کرکے کہنے لگے " شاہ جی، امام حسین دے روضے تے کھڑا آں، تواڈی یاد آئی اے"۔

وہ دہلی کا اوم جو اپنے ہنی مون پر پرتگال میں اپنی پتنی کے ساتھ ملا تھا اس سے اتنی دوستی ہوئی کہ مندر کی گھنٹیاں بجاتے مجھے یاد کرتا ہے۔ انسان کو اور کیا چاہیئے ہوتا ہے؟ کیتھڈرل و مندر کی گھنٹیوں، معبد کی مقدس ہواوں، مسجد و حرم کی اذانوں میں کوئی آپ کو یاد کرے تو اور کیا چاہیئے ہوتا ہے؟

پھر وہیں، دنیا بھر میں پھیلے پاکستانی جن کی محبتوں کا میں مقروض ہوں۔ اکثر پیغامات ملتے رہتے ہیں۔ کوئی پوچھ رہا ہوتا ہے کہ میں فلاں ملک سے آ رہا ہوں آپ کو کیا چاہیئے؟ یہ سب پروردگار کا کرم ہی تو ہوتا ہے۔ اس نے عزت بخشی ہوتی ہے۔ ماں کے پیٹ سے تو انسان صرف فکر معاش لئے ہی پیدا ہوتا ہے۔

مجھے اکثر تحائف ملتے رہتے ہیں۔ یہ لوگوں کی محبت ہوتی ہے۔ ایک صاحب امریکا سے آئے اور مجھے الیکٹرک سگریٹ بمعہ نکوٹین لیکوئڈز کے پیک دیتے ہوئے بولے " بخاری بھائی! سگریٹ چھوڑ دو۔ وہ اچھا نہیں۔ نکوٹین کی کمی یہ پوری کر دے گا۔ اس کو استعمال کر لیں۔ نقصان دہ تو سگریٹ کا ٹار ہوتا ہے۔ یہ الیکٹرک سگریٹ ٹار سے تو پاک ہے۔ کم سے کم کچھ تو بچت ہوگی صحت کی۔ آپ کیوں جلدی دنیا سے رخصت ہونا چاہتے ہیں؟"

ان کے الیکٹرک سگریٹ پر آ گیا۔ ایک ماہ بعد منہ کا ذائقہ بھی امریکی ہوگیا یعنی بکبکا سا۔ ایک دن دیسی یار نے مالبرو نکالا۔ ابھی کھانا کھا کر ہی بیٹھے تھے۔ میں الیکٹرک سگریٹ کے پف لینے لگا۔ اس نے مالبرو میری جانب بڑھایا۔ " او لعنت پا ایس ممی ڈیڈی ڈیوائس تے۔ اینوں جیب وچ رکھ۔ ایڈا توں برگر کلاس۔ ساڈے نال جدوں بیٹھنا ہووے تے اپنی کلاس گھر چھڈ کے آیا کر۔ وڈا آیا سلیبرٹی۔ پ چ برگرا"۔ بس اس دن پھر سے مملکت خداداد پاکستان کی شہریت واپس لے لی۔

ایک صاحب اسلام آباد میں ملے۔ چائے پی۔ وقت رخصت مجھے انہوں نے ایک گفٹ دیا۔ وہ کوٹ یا شرٹ پر لگانے والا پاکستان کا جھنڈا تھا۔ بیج بہت پیارا تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو بولے " بخاری صاحب۔ یہ عام بیج نہیں ہے۔ آپ اس کو غور سے دیکھیں"۔ میں نے بیج کو الٹا سیدھا کرکے بغور دیکھا۔ مجھے عام بیج ہی لگا۔ میں نے حیرت کا اظہار کرتے پوچھا " اس میں کوئی خاص بات ہے تو آپ خود ہی بتا دیں"۔ سن کر مسکرائے " مجھے یہ بتانا نہیں چاہییے کہ ایسا بتاتے انسان کو اچھا نہیں لگتا مگر اس لئے بتانا چاہتا ہوں کہ کہیں آپ اسے غیر ضروری یا عام بیج سمجھتے ہوئے کہیں رکھ کر بھول نہ جائیں۔ یہ گولڈ کا بیج ہے۔ جھنڈے کے اطراف گولڈ ہے اور پن بھی گولڈ کی ہے"۔

پانچ سال ہونے کو آئے۔ وہ بیج میں نے دل سے لگا کر رکھا ہوا ہے۔ کبھی کبھی بیرون ممالک وہی لگا کر پھرتا ہوں۔ جس شاپ پر جاتا ہوں، جن لوگوں سے ملتا ہوں۔ وہ بیج پر نظر پڑتے ہی کہتے ہیں" او۔ فرام پاکستان"۔

کینیڈا سے ایک صاحب جیکٹ لائے۔ وہ منفی 40 ڈگری تک کارآمد ہے۔ ایک تحفہ مجھے گرم پانی کی بوتل کا ملا۔ وہ بوتل پھیل کر 19 لیٹر پانی ذخیرہ کر سکتی ہے اور دھوپ میں رکھ دیں تو آدھ گھنٹے میں پانی نیم گرم کر دیتی ہے۔ اسی طرح کیمپ، اور ٹریکنگ سے متعلق تحائف ہیں۔

کیوبا کے سگار، لائٹرز، وغیرہ وغیرہ۔ دوستوں کو معلوم ہے کہ یہ شخص سموکر ہے، ٹریولر ہے، فوٹوگرافر ہے اس لئے اس سے متعلقہ ہی کوئی تحفہ دے دیں۔ ایک انتہائی قیمتی پن بھی ملا۔ میں نے انہیں کہا " اب کون قلم سے لکھتا ہے۔ ٹائپنگ کا زمانہ ہے۔ ان پیج میں پوری کتاب لکھی جاتی ہے"۔ بولے " ہاں، معلوم ہے۔ مگر کوٹ یا شرٹ کی جیب میں قلم اپنا لگا ہونا چاہیئے"۔

اسی طرح مونگ پھلی، ریوڑی، کراچی حلیم، نمکو، پرفیومز، اچار، شہد وغیرہ وغیرہ جیسی سوغاتیں آتی ہیں۔ کتابیں تحفہ آتی ہیں۔ اور ہاں یاد آیا، ایک قدردان نے کیا ہی انوکھا اور قیمتی تحفہ دیا تھا۔

برطانیہ سے تشریف لائے۔ گھر مدعو کیا۔ جاتے جاتے میری جانب ایک پیکٹ سا بڑھاتے ہوئے بولے " شاہ جی! اسکاچ وہسکی 1982"۔ یہ سنتے ہی میں نے مسکراتے ہوئے کہا " میں ایسا شوق نہیں رکھتا سر، مگر شکریہ، یہ 1982 کیا ہے؟"۔ بولے "آپ کا برتھ ائیر 1982 ہے ناں؟ مجھے معلوم تھا۔ یہ وہسکی 1982 میں بنائی گئی۔ پرانی ہے لہذا قیمتی بھی ہے۔ اب آپ شوق نہیں رکھتے تو اس کی بوتل کو ویسے ہی سجا دیجیئے گا کیونکہ خالی بوتل کا ڈیزائن بھی کلاسک ہے"۔

پھر حیران ہوتے بولے " مجھے لگتا تھا کرئیٹیو لوگ ایسا شغف رکھتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوتا تو کچھ اور لے آتا۔ اپنے تئیں میں بہترین تحفہ لایا تھا"۔ وہ رخصت ہوئے۔ میں بوتل کو ان پیک کرکے دیکھنے لگا۔ خوبصورت سٹائل کی بوتل تھی۔ اتنے میں بیگم سر پر پہنچی۔

"میں کہتی ہوں اس خباثت کو فوری گھر سے نکالیں۔ میرے گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں رہ سکتی۔ ابھی کے ابھی اسے باہر پھینکیں"۔ اس نے جائے نماز سے اٹھ کر حجاب کر رکھا تھا اور جلال اس کے چہرے سے قبلہ رضوی مرحوم کی مانند عیاں تھا۔ وہ ویسی ہی لال سرخ ہوئی جا رہی تھی۔

"ہاں، میں کونسا اس کو رکھنے لگا ہوں۔ ویسے ہی دیکھ رہا تھا۔ دیکھنا تو حرام نہیں ناں۔ اس کی بوتل دیکھو کیسی سٹائلش ہے۔ ایسا کرو اس کو خالی کرکے اس میں پانی بھر کر اس میں منی پلانٹ کا پودا لگا کر یہیں ڈرائنگ روم میں رکھ دو۔ سجاوٹ کے لئے بہترین ہوگا۔ اچھی لگے گی"۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

"ہمممم۔ ہاں، لگے گی تو پیاری۔ " یہ کہتے اس نے میرے ہاتھ سے بوتل اچکی اور کچن کے سنک کی جانب چلی۔ بڑی مشکل سے اسے روکا۔

"کیا کرنے لگی ہو؟ سچ میں بہانے لگی ہو؟ نہیں، میں کسی کو تحفہ دے دوں گا۔ بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو شوقین ہیں۔ وہ خوش ہو جائیں گے۔ " میں نے بوتل واپس اپنے قبضے میں لی۔

"اوکے۔ اس خباثت کو ابھی کے ابھی لے کر گھر سے نکل جائیں آپ اور جسے دینی ہے دے کر آئیں۔ "۔ بیگم نے میری جانب یوں دیکھتے ہوئے کہا کہ اس کے چہرے کے سارے مسلز کھچے گئے۔ ایک پل کو یوں لگا جیسے قبلہ رضوی مرحوم کہنا چاہ رہے ہوں" او لدے، او خنجرا، او سُورا۔۔ "

میں نے اسی وقت گاڑی نکالی اور ایک قریبی دوست جو بہت اچھے قلمکار اور دانشور ہیں ان کو کال کی کہ میں گھر آ رہا ہوں۔ ان کے ہاں پہنچا۔ چائے پی۔ جاتے ہوئے ان کو تحفہ پیش کیا۔ تحفہ دیکھتے ہی وہ خوشی سے آبدیدہ ہو گئے۔ مجھے گلے لگاتے ہوئے بولے

"بخاری! قسمے اج تک ایڈا مہنگا تے چنگا گفٹ کسے نئیں دتا۔ توں کتھوں لے آیا؟ توں تے شوق وی نئیں رکھدا فیر تینوں کس طرح پتا لگا کہ اے کی شے اے؟"۔ میں نے اپنا سر فخر سے بلند کیا " سر جی! چھوٹا موٹا دانشور میں وی ہے گا آں۔ ایناں تے پتا ای ہے گا کہ اے کی شے ہوندی اے"۔

اس دن سے وہ میرے شدید مداح ہیں۔ گاہے گاہے پوچھتے ہیں" توں کدوں جا ریا ایں ملکوں باہر؟"۔

اس دن گھر واپس پہنچا تو بیگم نے سارے گھر میں دھونی رما رکھی تھی۔ وہ عربی عود جو میں عمان سے لایا تھا وہ سلگایا گیا تھا۔ سارا گھر معطر تھا۔ یوں جیسے مقبرہ ہو۔ بیگم نے گاڑی کی تلاشی لی مبادا کہیں گاڑی میں ہی نہ رکھ چھوڑی ہو۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ بوتل جا چکی ہے تو بولی " شکر ہے۔ میں نے گھر کو پاک کر دیا ہے"۔ اس شام پاک گھر میں تادیر میں سانس نہ لے سکا اور باہر پیدل سیر کرنے نکل گیا۔ گھنٹہ بھر بعد واپسی ہوئی تو گھر کی فضا کچھ کچھ نارمل ہو چکی تھی۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

By Zia Ur Rehman