Thursday, 21 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Hurra Bibi Ki Kahani

Hurra Bibi Ki Kahani

حرہ بی بی کی کہانی

یہ کوئٹہ اور چمن کے درمیاں واقع پشین ہے۔ خاتون جو چائے پیش کر رہی ہیں ان کا نام حرہ بیبی ہے۔ عمر 78 سال۔ علاقے میں ان کو دادی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان کی ایک زبردست سٹوری ہے۔ یہ اس عمر میں بھی پولیو ورکر ہیں۔ گھر گھر جا کر قطرے پلاتی ہیں۔ یہ دائی بھی ہیں، یہ زنانہ میتوں کو غسل بھی دیتی ہیں، یہ اس علاقے کی طبیبہ بھی ہیں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ دادی اس عمر میں اتنا کام کیوں کرتی ہو؟ جواب آیا "چار بیٹے ہیں اور ان سے 16 پوتے پوتیاں ہیں مگر شوہر کے گزر جانے کے بعد سب مصروف ہو گئے۔ خود کو مصروف رکھتی ہوں بس۔ چلتے پھرتے موت آ جائے یہی دعا رہتی ہے"۔ دادی کی بھی المیوں بھری کہانی ہے۔ میں نے پوچھا کہ دادی چار بیٹے جن کی اولاد آپ پال رہی ہیں وہ کہاں ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ بولیں "کراچی ہیں۔ مزدوری کرتے ہیں۔ کبھی خرچہ بھیج دیتے ہیں کبھی نہیں۔ چھوٹے بچے تو وہیں اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ بڑے بچے میرے پاس چھوڑ گئے ہیں۔ میں نے ہی پالنے ہیں وہ تو پالتے نہیں"۔ 

چائے پی کر باہر نکلا تو گلی بچوں سے بھری ہوئی تھی۔ گاؤں میں ایک اجنبی کے آنے کی خبر پھیل چکی تھی۔ گلی میں بچوں کے ساتھ باتیں کر رہا تھا کہ سیکیورٹی الرٹ جاری ہوا۔ میرے سیٹلائٹ سیٹ پر کال آئی۔ ایجنسی کو کسی مشکوک سرگرمی کی اطلاع تھی۔ مجھے اپنے سیکیورٹی اسکواڈ کے ہمراہ وہاں سے فوراً نکل جانے کے آرڈر ملے۔ وہاں سے نکل کر میں کوئٹہ پہنچا۔ اگلے روز میری واپسی لاہور ہوگئی۔

یونیسیف نے اپنی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حرہ بیبی کو فیچر کیا۔ ان کی کہانی لکھی کہ کیسے ایک بزرگ عورت گھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلاتی ہے۔ کہانی میں نے ہی معہ تصاویر بھیجیں تھیں۔ سال بھر گزر گیا۔ میں بھول بھال گیا۔ کوئٹہ آفس سے ایک روز پی آر او میڈم کی کال آتی ہے اور مجھے بتاتی ہیں کہ حرہ بیبی کو ایوارڈ/شیلڈ دینے کے لیے کوئٹہ بلایا تھا۔ ان پولیو ورکرز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تقریب رکھی گئی جن کی خدمات کسی نہ کسی سبب بے مثال ہیں۔ حرہ بیبی نے پراجیکٹر پر اپنی سٹوری معہ تصاویر دیکھیں تو ان کو یاد آیا یہ آپ نے اپنے وزٹ پر لی تھیں۔ وہ بات کرنا چاہتی ہیں۔

فون پر دادی سے بات ہوئی۔ ایسے ہی بس عام بات۔ جس میں دعائیں تھیں۔ ان کو کچھ کیش کی صورت تقریب میں انعام ملا تھا اور اس بات پر وہ اتنی خوش تھیں کہ مجھ سے بات کرکے میرا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ دعائیں دیتی جا رہی تھیں۔ میں نے کئی بار کہا کہ دادی یہ آپ کی محنت کا انعام ہے۔ میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے مگر دادی مسلسل دعائیں دیتی رہی اور پھر فون بند ہوگیا۔

ان کو لگا ہوگا کہ اگر یہ نہ آتا تو میری کہانی نہ ہوتی۔ وہ نہ ہوتی تو مجھے انعام نہ ملتا اور یہ جو کچھ بھی ملا ہے اس کی وجہ سے ہے۔ کبھی کبھی ہمارے لوگوں کی سادگی پر آنکھ بھر آتی ہے۔ وہ ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ان محنت کی قدر نہیں ہوتی اور جب کسی طرح ہو جائے تو ان کو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ ان کی محنت کا چھوٹا سا صلہ ہے۔ اپنی قابلیت پر اس قدر بے یقینی شاید ہی کسی اور معاشرے میں ہوتی ہو۔ چکی کی مشقت میں دن رات بتاتے ہمارے اکثر لوگ اسی طرح سوچتے ہیں، اسی طرح سادہ مزاجی میں ڈھلے ہوئے ہیں۔

اور پھر کوئی جگاڑی ان کی نفسیات سے کھیلتے ہوئے کبھی بنام مذہب تو کبھی بنام سیاست جذباتی استحصال کرتا رہتا ہے۔ یہ ایک قصہ یا واقعہ نہیں، یہ ہماری اجتماعی نفسیات ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں بااثر افراد نے غربت کی لکیر سے ذرا اوپر اور نیچے بستے لوگوں کی نفسیاتی حالت یہ بنا رکھی ہے کہ وہ ایک نوالے کو ترسیں اور جب انہیں نوالہ مل جائے تو وہ کسی نہ کسی کے احسان مند ہوں۔ اپنی محنت پر احساس تفاخر کی بجائے احساس کمتری میں مبتلا رہیں۔ یوں اس معاشرے میں مُلاوں، سیاستدانوں اور مقتدرہ کو اپنی ضرورت کے مطابق خام مال ملتا رہتا ہے۔

Check Also

Hum Smog Se Kaise Bach Sakte Hain? (2)

By Javed Chaudhry