Hobart (2)
ہوبارٹ (2)
"بوائے، سردی ہے تو گاڑی میں آ جاؤ"۔ وہ گاڑی کا شیشہ کھول سے چِلایا۔
اس وقت میں خودبخود ہی اُٹھا۔ میرا دماغ منجمد ہو رہا تھا۔ جیکٹ اوس سے بھیگ چکی تھی۔ میں گاڑی کی سمت چلنے لگا۔ جیسے ہی دروازہ کھول کر اندر بیٹھا یوں لگا جیسے زندگی لوٹ آئی ہو۔ گاڑی کا درجہ حرارت زیادہ تھا۔ میں نے بیٹھتے ہی اس کا شکریہ ادا کیا۔
"بوائے، میں نے تمہارے جیسا مینٹل پیس نہیں دیکھا کبھی۔ تم تصویر لینے کو یہاں اس سردی و جنگل میں آ گئے ہو۔ کیا یہ تمہارا پروفیشن ہے؟ کیا تم اس سے پیسے کماتے ہو؟"۔ اس نے مڑ کر پیچھے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
نہیں۔ بس شوق ہے۔ مگر کبھی کبھی شوق غلطی سرزد کروا دیتا ہے۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ماؤنٹ ولنگٹن کی ٹاپ پر شدید سردی اور دھند ہوگی۔
"ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا، تم گڈ بوائے ہو"۔
قہقہ اس کا لمبا ہوتا گیا۔ اور پھر گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔ کچھ منٹس بعد اس کے خراٹے گونجنے لگے۔ گاڑی میں مجھ پر بھی غنودگی طاری ہونے لگی۔ نجانے کب آنکھ لگی اور کتنی دیر بعد کھُلی۔ باہر روشنی پھیل چکی تھی۔ ہوا نے دھند کو سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اسے اڑا لے جا رہی تھی۔ میں چونک کر اُٹھا۔ گاڑی سے باہر نکلا۔ کیمرا بیگ اٹھایا۔ ڈرائیور کی آنکھ کھُلی
"او ہاں، اب موسم اچھا ہوگیا ہے۔ تم جاؤ۔ واپس آؤ تو پھر تم کو ہوٹل چھوڑ دوں گا"۔
میں اس کا شکریہ ادا کرکے نکل گیا۔ نجانے کہاں کہاں پیدل نکل گیا۔ میرے سامنے منظر کھُلنے لگا تھا۔ ہوبارٹ شہر کی بتیاں جگمگا رہی تھیں۔ آسمان زرد ہوا چاہتا تھا۔ سنہری کرنیں ہوبارٹ کے پانیوں میں گھُلنا چاہتی تھیں۔ پھر ہر لمحہ منظر بدلتا گیا۔ سورج اوپر آتا گیا۔ شہر تاریکی سے نکل چلا تھا۔
واپس ہوتے صبح کے آٹھ بج رہے تھے۔ سورج کی کرنیں تمازت بکھیر رہی تھیں۔ ٹیکسی واپس ہونے لگی۔
"اوہ بوائے، تم کو جو چاہئیے تھا وہ مل گیا؟ مقصد پورا ہوگیا؟"
ہاں۔ بالکل ہوگیا۔
"تسمانیہ بیوٹی ہے بوائے، بیوٹی"۔
ہاں۔ بالکل
"ایک بار جو تسمانیہ دیکھ لے وہ اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے"۔
اچھا۔ میں تو ابھی ہوبارٹ پہنچا ہوں۔ آج ایک دوست سے گاڑی لوں گا جو میرے ملک پاکستان کا ہے اور اس نے مجھے اپنی گاڑی ٹور کے لیے دینا ہے۔ تسمانیہ اگلے سات دن گھوموں گا۔ مگر مجھے یقین ہے آپ جو کہہ رہے ویسا ہی ہوگا۔
"ہاں، تم ضرور گھومو۔ سفر مبارک ہو"۔
وہ اب ڈراؤنا نہیں لگ رہا تھا۔ شاید سورج نے سب اُجال دیا تھا۔ روشنی میں کردار بدل جاتے ہیں۔ عیاں ہو جاتے ہیں۔ سب صاف نظر آنے لگتا ہے۔ رات اور دھند تو واہمے بُنتے ہیں۔ خدشے اُبھارتے ہیں۔ بے یقینی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ روشنی ان سب کو بھسم کر دیتی ہے۔ ہوٹل کے آتے آتے پھر وہ چپ رہا۔ ہوٹل کے مرکزی دروازے پر اتر کر اسے بِل ادا کیا۔ اس کا شکریہ ادا کیا۔
وہ چلتے چلتے بولا "تسمانیہ سے خوبصورت کچھ نہیں۔ اگر مرنا ہو تو انسان یہاں مرے۔ یہاں اس کی قبر بنے۔ اس سے خوبصورت جگہ پر قبر ہو ہی نہیں سکتی۔ میں ویسٹ چھوڑ کر تسمانیہ آ گیا اور پھر پندرہ سال سے یہیں ہوں۔ یہیں مرنا چاہتا ہوں"۔
یہ سن کر میں نے ہنستے ہوئے اس کو بیسٹ وشز کے ساتھ لمبی عمر کی دعا دی۔ وہ چلا گیا۔ ریسپشن پر وہی عورت اب چاک و چوبند بیٹھی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا۔
"تم آ گئے۔ ناشتہ کرنا چاہو گے؟ سب ٹھیک رہا؟"
ہاں، سب ٹھیک رہا۔
"تمہیں وہاں اکیلے ڈر تو نہیں لگا؟"
ڈر کیسا؟ نہیں تو۔۔ بالکل نہیں!
اس دوپہر میں نے اپنے قدردان پاکستانی حنیف صاحب سے ان کی گاڑی لی جو انہوں نے مجھے خود آفر کی تھی۔ میں نے ہوبارٹ کو چھوڑ دیا۔ اگلے سات دن میں تسمانیہ نامی جزیرے میں گم ہوگیا۔ نیشنل پارکس آئے، جنگلات آئے، سرسبز کھیت آئے، ہرے کچور مناظر سے آنکھیں شاد ہوتیں رہیں، ساحل ساحل رنگ بکھرے، ہنستے مسکراتے لوگ ملے اور جدا ہوئے۔ تسمانیہ ایک رنگین پینٹنگ تھا اور میں اس پینٹنگ کا حصہ بن چلا تھا۔ ایسے دلکش مناظر، اس قدر خوبصورتی اور ایسا بے مثال ساحلی حُسن۔ فبائی الا ربکما تکذبان۔
مال مویشیوں سے بھرے کھیت تھے۔ دور دور تک سبز پہاڑی چراہ گاہیں تھیں۔ سمندر ساتھ ساتھ چلتا تھا اور پل پل رنگ بدلتا تھا۔ آنکھ حیرت میں ڈوبتی رہی تو کیمرا شٹر بھی چلتا رہا۔ قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، قصبہ قصبہ مسافر بھٹکا۔ بنا کسی پلان کے۔ بنا کسی طے شدہ پروگرام کے۔ میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ ان بستیوں میں، ان ساحلوں پر، ان گھروں میں جب شام اُترتی ہے تو کیسے رنگ دکھاتی ہے۔ ان گھنے جنگلوں میں رات پھیلنے سے قبل ہی پھیل جاتی ہے۔ ماؤنٹ کریڈل جھیل پر برف کے گالے ہولے ہولے اترتے ہیں اور کسی جادوگر کی مانند جھیل نے نیلگوں پانیوں کو دیکھتے ہی دیکھتے سفیدی میں ڈھال دیتے ہیں۔ سمندری پرندوں کی قطار در قطار پروازیں کیونکر مبہوت کئیے جاتی ہیں۔
تسمانیہ بابِ طلسم ہے۔ کھُلتا ہے تو انگشتِ بہ دندان چھوڑ جاتا ہے۔ میں سات دن بعد اس طلسم سے نکلا۔ اک بار پھر ہوبارٹ شہر کا ائیرپورٹ تھا۔ واپس ملبورن کی جانب سفر تھا۔ ائیرلائن کاؤنٹر سے بورڈنگ پاس لیتے میں نے اس لڑکی کو عرض کی کہ مجھے کھڑکی والی سیٹ دے دے۔ اس نے میری جانب دیکھا۔ بورڈنگ پاس مجھے تھماتے ہوئے مجھے سیاح جان کر مسکراتے ہوئے بولی "آپ کو تسمانیہ کیسا لگا؟"۔ غیر ارادی طور پر میرے ذہن میں اس ٹیکسی ڈرائیور کے جملے گونجنے لگے جس کا نام تک میں نے نہیں پوچھا تھا مگر جواب مکمل طور پر ارادی دیا تھا۔
"تسمانیہ سے خوبصورت کچھ نہیں۔ اگر مرنا ہو تو انسان یہاں مرے۔ یہاں اس کی قبر بنے۔ اس سے خوبصورت جگہ پر قبر ہو ہی نہیں سکتی۔ اگر میری مرضی پوچھی جائے تو میں یہیں مرنا چاہتا ہوں"۔
طیارے نے اڑان بھری۔ میں نے کھڑکی سے نیچے دیکھا۔ اک اور شام ڈھل رہی تھی۔ ماؤنٹ ولنگٹن کی چوٹی عین سامنے چمک رہی تھی۔ اس پہاڑ پر چڑھتی بل کھاتی سڑک صاف نظر آ رہی تھی جو اب ڈھلتے سورج کی سنہری کرنوں میں چمک رہی تھی۔ پھر طیارے نے رخ بدلا۔ ماؤنٹ ولنگٹن کی چوٹی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ میں نے آنکھیں بند کرکے سیٹ سے ٹیک لگا لی۔ ذہن میں الوداعی جملے گونج رہے تھے۔
"گڈ بائے ٹیکسی ڈرائیور۔ تسمانیہ ناقابل یقین حد تک خوبصورت ہے۔ اگر مجھ سے مرضی پوچھی جائے تو میں بھی تمہاری طرح یہیں مرنا پسند کروں گا"۔
ملبورن چکاچوند شہر ہے۔ لینڈنگ سے قبل اس شہر کی روشنیاں آنکھوں کو خیرہ کرنے لگتیں ہیں۔ ملبورن کا سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ میرے نیچے تھا۔ ائیرپورٹ کی گہما گہمی سے نکلنے تک رات پھیل چکی تھی۔ باہر میرا دوست معاذ بن محمود میری آمد کا منتظر تھا۔ گاڑی کی سمت اس کے گھر کی جانب تھی۔ معاذ زندہ دل انسان ہے۔ زندگی سے بھرپور ہنستا مسکراتا، چہکتا۔ ملبورن میں امیگریشن لے کر بال بچوں سمیت مکین ہے۔ زندگی کو اپنے رنگ سے دیکھتا ہے۔ پرکھتا ہے۔ لکھتا ہے۔ کبھی لکھتے لکھتے تحریر میں قہقہے بکھیر دیتا ہے اور کبھی اس کی تحریر بجھتے چراغ کا دھواں بن کر ہوا میں دور تک اداسی چھوڑ جاتی ہے۔ مجھے چپ چاپ کھڑکی سے باہر دیکھتا دیکھ کر بولا "تسمانیہ اچھا نہیں لگا شاہ جی یا وہاں کسی گوری گرل فرینڈ سے بچھڑ کر آ رہے ہو؟ اتنی اداسی اور چُپ۔ خیر ہے شاہ جی؟"
ہاں۔ ویسے ہی بس۔ تسمانیہ تو بہت پیارا ہے۔ میں کسی سفر سے جب لوٹتا ہوں تو اداس ہو جاتا ہوں۔ مجھے وہاں کے لوگ، سفر میں بنتے بچھڑتے دوست، مناظر اور اجنبیوں سمیت سب یاد آتا رہتا ہے۔ میرے دھیان میں وہ سب چلتا رہتا ہے۔ جیسے میں یہاں سے لوٹ جاؤں گا تو تب تم بھی ایسے ہی یاد آؤ گے اور میں یوں ہی چپ چاپ اور اداس ہوں گا۔ اور کوئی وجہ نہیں۔
اس نے یہ سن کر گاڑی چلاتے اپنی دُھن و مستی میں کہا" ہیوی بوائے، ہیوی۔ اس کے بعد تو مجھے بئیر کی طلب ہونے لگی ہے۔ پب چلیں شاہ جی؟"
نہیں تم سیدھا گھر چلو۔ اور تم ٹیکسی والے کے بعد دوسرے بندے ہو جس نے مجھے "بوائے" کہا ہے۔
"نہیں نہیں شاہ جی۔ میری ایک آسٹریلین دوست رچی ہے۔ وہ بھی لکھتی ہے اور اس کا مزاج بھی آپ جیسا ہی لگتا ہے۔ سفر کی شوقین ہے۔ وہ مجھے کہہ رہی تھی کہ تم نے اس بوائے سے تو ملوایا ہی نہیں جو پاکستان سے آیا ہے۔ میں نے کہا کہ ابھی وہ تسمانیہ گیا ہے۔ واپس ملبورن آتا ہے تو بوائے سے ملتے ہیں"۔
اچھا؟ رچی کی عمر کیا ہے ویسے؟ اور وہ سنگل ہے یا اس نے کتا پالا ہوا ہے؟
"کتا تو ہر کوئی پالتا ہے یہاں۔ سنگل ہے شاہ جی"۔
اوکے۔ تو پھر ہم کب مل رہے ہیں اس سے؟
رچی کی باتوں میں گھر آ گیا۔ میرا موڈ نارمل ہو چکا تھا۔ میں معاذ کو سفر میں پیش آنے والے لطیفے سنا رہا تھا۔ رات گہری ہوتی گئی۔ سونے سے قبل وہ مجھے تکیہ، کمبل وغیرہ دے کر رخصت ہوتے اپنے کمرے میں جانے لگا تو رک کر بولا "ویسے معاف کرنا شاہ جی یہ رچی نامی کردار صرف موڈ بدلنے کے واسطے میں نے تخلیق کیا تھا۔ نہ کوئی رچی ہے نہ اس کا کُتا۔ مگر اب آپ بالکل فِٹ لگ رہے ہیں۔ گڈ نائٹ"۔
اور ملبورن کی رات قہقہوں میں ڈھل گئی۔