Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Hobart (1)

Hobart (1)

ہوبارٹ (1)

بنفشی آسمان پر سورج ڈھل رہا تھا۔ سنہری کرنیں سمندر کے پانیوں پر دور تک نقش بناتے پھیلی تھیں۔ یہ نقش بادلوں سے چھَن کر نکلتی روشنی کے سبب تھے۔ میں نے طیارے کی کھڑکی سے باہر جھانکا تو وہاں نیچے پہاڑوں کے تھکے سائے رینگتے دکھائی دئیے۔ اک جانب کھُلا سمندر تھا دوسری جانب ڈھلتی شام نے سرسبز کھیتوں، جابجا چھوٹے چھوٹے گھروندوں کو اپنی بانہوں میں لپیٹ رکھا تھا۔ سورج نے بادلوں کو پاٹ کر اپنا رُخ دکھایا تو ساری زمین روشنی میں نہا گئی۔ طیارے نے رُخ بدلا تو پہاڑوں کا قد کاٹھ اور ان کے سائے بستیوں پر حاوی ہوتے گئے۔ ائیرہوسٹس کے بیان کے مطابق طیارہ آسٹریلیا کے جزیرے تسمانیہ کے صدر مقام ہوبارٹ میں اُترنے والا تھا۔

طیارے سے رخصت ہو کر سامان لے کر نکلتے رات کے سائے پھیلنے لگے تھے۔ ہوبارٹ شہر کی گلیاں، چوراہے اور چوبارے برقی قمقموں سے منور ہو چکے تھے۔ سردی کی ایک لہر آئی تو میں نے جیکٹ کی زپ اوپر تک چڑھا لی۔ ٹیکسی نے مجھے شہر کے مرکز میں واقع میرے ہوٹل میں اتار دیا۔ ریسپشن پر بزرگ عورت بیٹھی تھی۔ اس نے پاسپورٹ سکین کیا۔ پھر ریسپشن سے باہر آئی۔ چابی ہوا میں لہراتے بولی"ویلکم ٹو ہوبارٹ سید"۔ گھڑی رات کے نو بجا رہی تھی۔

بستر پر کروٹیں بدلتے نیند ٹوٹتی رہی۔ میں آسٹریلیا کے شہر بہ شہر لمبے سفروں سے نڈھال ہوئے آ رہا تھا۔ خواب میں بیتی بستیاں آتیں رہیں۔ آنکھ کھُلتی رہی۔ صبح چار بجے بیزاری مجھ پر حاوی ہونے لگی۔ میں نے تھکے ہوئے بدن کو سمیٹا۔ کمرے کی بالکونی میں آ کر سگریٹ سلگایا۔ سامنے ہوبارٹ شہر کا مرکزی پُل تھا۔ شہر خوابیدہ تھا۔ تسمانیہ کی آبادی انتہائی کم ہے۔ جو بھی ہے وہ ہوبارٹ جیسے بڑے شہر میں وجود رکھتی ہے۔ جلد صبح صادق کی پو پھوٹنے والی تھی۔ نیند ٹوٹ چکی تھی۔ سامنے دور ہوبارٹ کی بڑی چوٹی ماؤنٹ ولنگٹن نظر آ رہی تھی۔ میں نے کیمرا بیگ اُٹھایا۔

ریسپشن پر بوڑھی عورت اونگھ رہی تھی۔ یکایک وہ میری آہٹ سے چونکی۔

"تم اس وقت کہاں جا رہے ہو؟ کیا تم کو کسی مدد کی ضرورت ہے؟"۔

نہیں، شکریہ۔ میں ٹیکسی لے لوں گا۔ مجھے ماؤنٹ ولنگٹن ویو پوائنٹ پر جانا ہے۔ وہاں سے ہوبارٹ شہر کی کچھ تصاویر لینا ہیں۔

"اوہ۔ مگر ابھی تو رات ہے۔ ویو پوائنٹ پر کوئی نہیں ہوگا۔ بہت سردی ہے۔ تم صبح جاؤ گے تو اچھا رہے گا"۔ 

نہیں، مجھے طلوع آفتاب کے وقت تصویر لینا ہے۔ مجھے ابھی جانا ہوگا۔

"اچھا۔ مگر تم اکیلے ہو؟ دھیان سے جانا"۔ 

کیا کوئی خطرے کی بات ہے؟

"اوہ، نہیں نہیں، بس یونہی کہہ رہی تھی۔ ٹیک کئیر"۔ 

ٹیکسی والا گاڑی میں اونگھ رہا تھا۔ ہوٹل کے باہر مرکزی شاہراہ کے ایک کونے پر کھڑا مل گیا۔ میں نے کھڑکی پر دستک دی۔ وہ چونک کر بیدار ہوا۔

ماؤنٹ ولنگٹن ویو پوائنٹ تک چلو گے؟ پیسے؟

"ہاں، بیٹھو۔ پیسے میٹر کے مطابق ہوں گے"۔ 

گاڑی چل پڑی۔ ہوبارٹ شہر اونگھ رہا تھا۔ سڑکیں سنسان تھیں۔ سردی کی شدت کافی بڑھ چکی تھی۔ گاڑی میں ہیٹر آن تھا۔ پھر ٹیکسی ایک سنسان بل کھاتی سڑک پر چڑھائیاں چڑھتی گئی۔ ہم زمین سے اوپر اٹھتے گئے۔ پھر دھند میں گم ہو گئے۔

ہر جانب دھند پھیلی تھی۔ حد نگاہ دو چار میٹر تھی۔ میں سوچ رہا تھا اگر ماؤنٹ ولنگٹن کے ویو پوائنٹ سے دھند کے سوا کچھ نظر نہ آیا تو کیا ہوگا۔ سارا سفر رائیگاں چلا جائے گا۔

"تم کہاں سے آ رہے ہو؟ اور اس وقت ویو پوائنٹ پر جا کر کیا کرو گے؟"۔ ٹیکسی والا بلآخر ضبط توڑتے ہوئے بول پڑا۔

دراصل میں ملبورن سے آ رہا ہوں۔ فوٹوگرافر ہوں۔ سوچا تھا طلوع آفتاب کے وقت ہائی پوائنٹ سے ہوبارٹ شہر کی کچھ تصاویر لے لوں گا۔ مگر دھند دیکھ کر لگ رہا ہے شاید تصاویر نہ آ سکیں۔ یا شاید بہت ڈرامیٹک تصاویر آ جائیں۔

"گریٹ"۔ 

گاڑی دھند میں تن تنہا رینگتی رہی۔ ڈرائیور پھر چپ ہو چکا تھا۔ یہ پچاس پچپن سالہ آسٹریلوی مرد تھا۔ اس کی گہری چپ ماحول کو پراسرار بنا رہی تھی۔ مجھے یہ خدو خال سے ہالی وڈ کی ڈراؤنی فلم "رانگ ٹرن" کا ایک کردار لگنے لگا تھا۔ جگہ سنسان تھی جسے دھند نے ڈراؤنا بنا دیا تھا۔ ایک پتلی سی سڑک مسلسل بل کھاتے چلی جا رہی تھی۔ میں ڈرائیور کی خاموشی کو توڑنا چاہا۔

آپ ہوبارٹ شہر کے رہنے والے ہو؟ ٹیکسی چلاتے ہو یا کوئی اور کام بھی کرتے ہو؟

"لڑکے! میں ویسٹ آسٹریلیا سے ہوں۔ تم گئے ہو کبھی ویسٹرن آسٹریلیا؟"۔ اس نے سٹئیرنگ پر جھکے مخصوص ویسٹرن لہجے میں جواب دیا

اوہ ہاں، میں پرتھ سے ہوتا ہوا ہی آ رہا ہوں۔ ویسٹرن آسٹریلیا خوبصورت ہے، جنگلی ہے، اور خشک ہے۔

"ہممم، لڑکے، ویسٹ جنگلی ہے۔ بلکل جنگلی ہے۔ وائلڈ وائلڈ ویسٹ، ہاہاہاہاہاہاہا"۔ اس کی ہنسی گونجی تو میں مزید چوکنا ہوگیا۔ مجھے لگنے لگا کہ اس بزرگ کو خاموش ہی رہنے دیا جائے۔ شاید اس نے پی رکھی ہو۔ اسی واسطے یہ گاڑی میں اونگھ رہا تھا۔ مجھے اس فلمی کردار سے عجیب وائبز آنے لگیں۔ شاید ماحول کا اثر تھا۔

ماؤنٹ ولنگٹن کا ٹاپ پوائنٹ جو ویو پوائنٹ تھا مکمل دھند میں لپٹا ہوا تھا۔ میں نے گاڑی سے باہر نکل کر دیکھا۔ حد نگاہ صفر، ویو پوائنٹ پر ایک سٹریٹ لائٹ جیسا پول لگا تھا جس پر جلتا بڑا سا بلب دھند میں لپٹے ہلکی زرد روشنی بکھیر رہا تھا۔ گہری رات تھی۔ اوس سے میرا چہرہ بھیگنے لگا۔ میں اس وقت یہ فیصلہ کرنا چاہ رہا تھا کہ آیا یہاں تن تنہا رکنا اور سورج ابھرنے کا انتظار کرنا ٹھیک رہے گا یا پھر اسی فلمی ڈراؤنے کردار کے ساتھ واپس اپنے ہوٹل چلا جاؤں۔

"بوائے! موسم خطرناک ہے۔ شدید سردی ہے۔ تم رکنا چاہو گے؟"۔ اس سے قبل میں کوئی فیصلہ لیتا وہ خود ہی بول پڑا۔

ہاں۔ تم جا سکتے ہو۔ کتنا بِل ہوا؟ (نجانے کیوں فوراً ہی میرے منہ سے از خود یہ جملہ نکل آیا)۔

"آل رائٹ۔ باون ڈالرز"۔

میں نے اسے پیسے دئیے۔ اس نے مجھے گھور کے دیکھا۔ میں نے بھی اسی پہلی بار بغور دیکھا۔ سر اور ہلکی داڑھی کے بال سفید، آنکھیں بڑی بڑی نیلی پُتلیوں والی، ماتھے پر جھڑیاں، رنگت سرخی مائل، رخسار پر بڑا سا کٹ کا نشان۔ اس کے چہرے نے میرے وہم کو تقویت دے دی۔ میں کاندھے پر کیمرا بیگ اٹھائے لائٹ پول کی جانب تیزی سے چلنے لگا۔

"بوائے، لُک، میں گاڑی میں کچھ دیر سونے لگا ہوں۔ اس وقت واپس جانا ٹھیک نہیں۔ شارپ موڑ ہیں اور اُترائی ہے۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔ تم کو سردی لگی تو گاڑی میں آ جانا۔ مجھے نہیں پتہ تم اس اندھیرے اور سردی میں باہر کیا کرنے لگے ہو۔ اوکے؟"

اوکے۔

میرے ذہن میں چلنے لگا کہ یہ یہاں کیوں رک رہا ہے۔ یہ ٹیکسی والا ہے ان کا تو معمول ہے ڈرائیو کرنا۔ شاید اس نے پی رکھی ہے۔ شاید یہ واقعی تھکا ہوا ہے۔ شاید اس کی نیند پوری نہیں۔ یا شاید اترائی اس دھند میں واقعی خطرناک ہو اس واسطے یہ سورج ابھرنے تک رکنا چاہتا ہے۔ یا شاید اس کا کوئی اور پلان ہو! ۔ مجھے فوٹوگرافی بھول گئی۔ باہر اندھیرا، دھند اور سخت سردی تھی جو مزید بڑھتی چلی جا رہی تھی۔

میں اس واحد لائٹ پول سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا۔ اوس جیکٹ سے قطرہ قطرہ ٹپکتی رہی۔ صبح صادق کی پو پھٹنے والی تھی۔ میرا چہرہ ٹیکسی کی جانب تھا۔ نجانے مجھے کیوں لگ رہا تھا کہ ڈرائیور گاڑی سے نکل کر میری جانب آئے گا۔ اور جب وہ آئے تو مجھے یہاں سے بھاگنا ہوگا۔ ٹرائی پوڈ میرا واحد ہتھیار تھا۔ میں اس کو گود میں رکھے بیٹھا رہا اور پھر سردی نے انت مچا دی۔ ہوا چلنے لگی۔ دن کی ہلکی روشنی بکھرنے لگی۔ سورج طلوع ہونے میں ابھی چالیس منٹ باقی تھے۔ ہوا تیز ہوتی گئی۔

میں سردی کے سامنے ہار ماننا چاہتا تھا مگر مجھ میں گاڑی تک جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ وہاں بیٹھے بیس تیس منٹ گزر چکے تھے۔ اچانک گاڑی سٹارٹ ہوئی۔ ہیڈ لائٹس آن ہوئیں اور ہائی بیم کے ڈپر چلے۔

جاری۔۔

Check Also

Hamzad

By Rao Manzar Hayat