Hazar Dega To Chalun Gi
ہزار دے گا تو چلوں گی
خیابان جناح کی جانب سے شوکت خانم ہسپتال کو مڑیں تو فلائی اوور کے نیچے ٹریفک اشارے پر گاڑیاں تادیر رُکی رہتی ہیں۔ بائیں ہاتھ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب (UCP) ہے اور دائیں ہاتھ ٹریفک اشارہ کھُلنے کے انتظار میں کھڑے ہوئے آپ کو درجن بھر فقیر، گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے والے بچے اور چرسی موالی نما لوگ ہاتھ پھیلائے ملتے ہیں۔ یہ اشارہ لاہور کے مصروف ترین ٹریفک پوائنٹس میں سے ایک ہے۔ چند سیکنڈز کو کھُلتا ہے اور پھر کئیں منٹوں بند رہتا ہے۔
اسی موڑ پر کھڑے آج شام ایک پندرہ سولہ سالہ مانگنے والی لڑکی گاڑی کے شیشے کے قریب آئی۔ سگریٹ سلگائے ہوئے دھوئیں کے اخراج کی خاطر میں نے شیشہ آدھا کھول رکھا تھا۔ اس نے آ کر بڑے غیر مہذب انداز میں کہا "ہزار دے گا تو چلوں گی"۔ مجھے اول تو سمجھ ناں آئی کہ اس نے کہا کیا ہے۔ میں نے اسے پوچھا "کیا کہا ہے؟"۔ پھر سے بولی " ہزار دے گا تو چلوں گی"۔ یہ سُن کر مجھے جھٹکا لگا کہ اس کو یہ سب کس نے سکھایا ہوگا اور چوک میں کھڑے یہ کیسے بلا جھجھک گاڑی والوں کے پاس جا کر بول رہی ہے۔ میں نے اسے پوچھا تم کو یہ کس نے کہا ہے ایسا کرنے کو؟ اس نے رخ موڑا اور پلٹ کر چلتے ہوئی بولی " تیرے جیسے گاڑی والے ہی کہتے ہیں"۔
اس کا یہ جملہ اتنے کرخت بھرے اور کھردرے لہجے میں تھا کہ ایک بار میرا بدن کانپ گیا۔ یقیناً وہ اور کسی کو یہ سب کہنے پلٹ گئی تھی۔ یقیناً یہ اس کی روٹین ہوگی اور یقیناً لوگ ایسا سلوک کرتے بھی ہوں گے۔ مجھے ابھی تک اس کا چہرہ نہیں بھول سکا۔ جس عمر میں اسے نویں یا دسویں جماعت میں ہونا چاہئیے تھا اس میں وہ چوراہے پر ایک ہزار کے لیے برائے فروخت تھی۔ جس ریاست کی ذمہ داری لاوارثوں کا پالنا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذمہ لینا ہے وہ خود ایک ارب ڈالرز کے لیے برائے فروخت ہوتی ہے۔
ترکی نے کچھ شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور کچھ غیر قانونی طور پر ترکی میں گھُس آئے۔ یہ شامی لوگ جنگ کی تباہ حالی سے متاثر تھے۔ ترکی میں اگر کوئی مانگنے والا آپ کو مل جائے تو وہ سو فیصد شامی ہوگا۔ پولیس ان کو پکڑتی ہے اور پھر چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ آخر پولیس ان کا کرے بھی کیا؟ تحریر اسکوئر کے پاس چلتے ایک شامی عورت نے لگ بھگ ایسا ہی سوال کیا تھا۔ میں نے اس کی ہتھیلی پر کچھ لیرے رکھے اور آگے بڑھ گیا۔ وہ تو جنگ زدہ علاقے سے کسی طرح اپنی اور بچوں کی جانیں بچا کر نکلنے پر مجبور ہوئے اور پھر دو وقت کی روٹی کھانے کی خاطر سڑکوں پر بھیک مانگنے یا جسم فروشی پر مجبور ہوئے مگر مملکتِ خداداد تو شام سے بظاہر ہزار ہا بہتر حالت میں ہے۔ مگر اندر سے بھی کیا بہتر ہے؟
پاکستان میں بازار اشیائے خورونوش سے بھرے ہیں اور مہنگائی کا واویلا ہونے کے باوجود ریسٹورنٹس پر بھی رش کم نہیں۔ پاکستان میں حالانکہ سب کچھ ہے۔ جمہوری ہو نہ ہو مگر ایک منتخب نظامِ حکومت ہے۔ ادبی و ثقافتی پروگرام بھی حسبِ سابق جاری ہیں۔ لوگ لطیفے سناتے بھی ہیں ان پر ہنستے بھی ہیں اور موبائل فون کے سیلفیانہ بخار میں بھی باقی دنیا کی طرح مبتلا ہیں۔ کرپشن کو ہنس کے یہاں بھی ایسے ہی ٹالا جاتا ہے جیسے نائجیریا، بنگلہ دیش، بھارت اور افغانستان وغیرہ میں۔ امریکہ کو کھل کے گالی دینا بھی حسبِ سابق ہے۔
پاکستان میں عمومی عدم تحفظ کے باوجود مساجد، امام بارگاہیں، گرجے، اور شادی ہال ویسے ہی کھچا کھچ بھرے ہیں جیسے کہ بھرے ہونے چاہئیں۔ پاکستان میں قوانین اور ان پر عمل درآمد اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کسی بھی ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ معاشقوں پر بھی اتنی ہی روک ٹوک ہے جتنی ہمارے بچپن میں تھی۔ تاکا جھانکی کی شرح میں بھی کوئی کمی نہیں۔
ٹی وی کی فحاشی و عریانی پر مذہبی طبقے کی جانب سے وہی چیخ و پکار ہے جیسی ٹی وی آنے سے پہلے تھی۔ بھکاری سے لے کر صنعت کار تک سب ہی کل کی طرح روتے بھی جاتے ہیں، کماتے بھی جاتے ہیں اور ٹیکس بھی نہیں دینا چاہتے۔ منافقت کا گراف بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ دھینگا مشت انسانی معاشروں میں ہوتا ہے۔ شراب اتنے ہی لوگ چھپ کے پیتے ہیں جتنے کبھی ساٹھ کی دہائی میں کھلم کھلا پیتے تھے۔ حرام و حلال کے انفرادی پیمانے جیسے پہلے تھے ویسے ہی آج بھی ہیں۔ غصہ پہلے بھی لوگوں کی ناک پر تھا آج بھی ہے۔ حسد، کینہ، بغض، شیطانیت، انسانیت، خواتین کا احترام و بے حرمتی، بچوں کی پرورش و عدم پرورش سب کچھ وہی ہے جو کسی بھی فوجی و سویلین، دائیں یا بائیں کے دور میں ہوتا ہے۔ پھر بھی کچھ ہے جو پاکستانی سماج اور بالخصوص ریاست سے چھن گیا ہے۔ اور وہ ہے غیرت، حمیت اور احساسِ ذمہ داری۔