Hamara Number Zero
ہمارا نمبر زیرو
میں بھی اس ماہ خوشی منانا چاہتا ہوں مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کس بات پر خوشی منانا ہے۔ عوامی ننگ و غربت پر یا قرض تلے دبی ریاست کی چیخوں پر؟ بھئی خوشی وہ منائیں جن کی موجیں ہیں۔ جن کے ہاں باغ و بہار کا موسم سارا سال چھایا رہتا ہے۔ جن کے گودام گندم اور اکاؤنٹس نوٹوں سے بھرے ہیں۔ جو گیٹڈ کمیونٹی ہیں۔ جو اقتدار کے ساتھ قوم کے مستقبل کے فیصلے لیتے ہیں۔ جو غائب بھی ہیں حاضر بھی۔ جو منظر بھی ہیں ناظر بھی۔
ملک بننے اور جناح صاحب کے رخصت ہوتے ہی اس ملک پر افسر شاہی قابض ہوگئی۔ قرارداد مقاصد کو پاکستان کی کھونٹی پر ٹانگ دیا گیا۔ قرارداد مقاصد پر عمل بھی اگر اب تک پینڈنگ ہے تو اس کا مطلب ہم ایک ایسی ناکام ریاست ہیں جو اپنے بنائے اصولوں پر نہیں چل سکے۔ اور اگر قرارداد مقاصد کامیابی سے عمل پیرا ہے تو اس ملک کے حالات ایسے کیوں ہیں؟ اس کا مطلب ہمارا قومی بیانیہ یعنی National Narrative سرے سے ہی غلط ہے۔
دراصل ہمارا آج تک کوئی National Narrative ہی نہیں بن سکا۔ بحثیت قوم کوئی فلاسفی ہی نہیں ابھر سکی۔ پچھہتر سالوں میں یہی نہیں معلوم کہ ہم کو بلآخر کیا تعمیر کرنا ہے؟ گیارہ اگست سن سنتالیس کی جناح کی تقریر والا پاکستان یا بعد از جناح کا قرارداد مقاصد والا پاکستان؟ کوئی ایک راہ چُن لی ہوتی تو شاید کچھ شفا مل گئی ہوتی۔ آج کا ڈرا، سہما اور کنفیوز پاکستان دراصل قائد کی گیارہ اگست کی تقریر اور قرارداد مقاصد کی جبری شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا مظلوم بچہ ہے۔
جناح صاحب نے اسلام کا قلعہ بنانے کی نہیں بلکہ مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کی سیاسی جنگ جیتی تھی۔ پاکستان بنتے ہی انہوں نے اسلامی تھیاکریسی کو رد کرتے ہوئے اعلان کر دیا تھا کہ آج کے بعد پاکستان میں کوئی مسلمان مسلمان نہیں اور کوئی ہندو ہندو نہیں، ریاست کی نظر میں سب مساوی پاکستانی ہیں اور ہر شہری اپنے مذہب پر کاربند رہنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ اور فوج کا سیاست میں کردار سور برابر ہے یعنی حرام ہے۔
سول و ملٹری بیوروکریسی کے مفادات کے خلاف یہ گیارہ اگست کی قائد کی تقریر تھی۔ افسر شاہی نے بعد ازاں اقتدار پر قبضہ کرکے پورا زور اس پروپیگنڈا پر لگا دیا کہ پاکستان عوام کی فلاح و بہبود کے لئے نہیں بلکہ اسلام کے نفاذ اور فروغ کے لئے بنا ہے۔ اسلام کا "نفاذ" اور "فروغ" سب خیالی نظریات ہیں۔ آج تک نہ کوئی انہیں ڈیفائن کر سکا نہ کسی نے یہ کام ہوتے دیکھا نہ یہ کام آج تک مکمل ہوا ہے۔ پاکستان کے عوام کی بہبود اور ملک کی ترقی آج تک اس انتظار میں بیٹھی ہے کہ کب یہ کام مکمل ہو تو ان کی فلاح و بہبود کا ایجنڈا بھی سامنے آئے لیکن اسلام نہ نافذ ہوتا ہے نہ اس ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی ایجنڈا سامنے آتا ہے۔
پچھہتر سال پہلے اسلام جہاں تھا آج بھی وہیں ہے۔ اس ملک میں بار بار باور کروایا جاتا ہے کہ چونکہ آپ مسلمان ہیں اس لئے پاکستانی ہیں لہذا پاکستانی ہونا اصل نہیں مسلمان ہونا اصل ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم پاکستانی ہو کر سوچتے ہی نہیں۔ پاکستان پر سب سے بڑا ظلم یہ کیا گیا کہ اس پر نظریاتی ملک ہونے کا بوجھ ڈال دیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں نے خارجی و داخلی محاذ پر نظریئے کی حفاظت کی پاکستان کی نہیں حتیٰ کہ ملک دولخت بھی ہوگیا۔ نظریہ کیا تھا؟ دو قومی نظریہ کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں لہذا مسلمانوں کا الگ ملک ہونا چاہیئے۔ یہ نظریہ ڈھاکا کے ڈوبنے کے ساتھ ہی دم توڑ گیا۔
باقی رہ گیا اسلامی نظریہ۔ افغان جنگ ہم نے اسلامی نظریئے کے ساتھ ہی لڑی۔ اسلحہ و ہیروئن کلچر، لاکھوں مہاجرین کا بوجھ اور اپنی معیشت کی بربادی قبول کرلی۔ نظریہ کوئی بھی ہو نظریاتی فرد ہو یا ریاست اس کے لئے بنیاد پرست ہونا ضروری ہے ورنہ وہ نظریاتی ہو ہی نہیں سکتا۔ جب دنیا ہمیں بنیاد پرست کہتی ہے تب بھی ہم برُا منا جاتے ہیں۔ اگرچے ہمارے حکمران دنیا کو باور کرواتے رہتے ہیں کہ ہم تنگ نظر اور بنیاد پرست قوم نہیں بلکہ جدید مسلم ریاست ہیں مگر آئینی، قانونی و سماجی سطح پر سب کام اس کے برعکس کئے جاتے ہیں۔
پاکستان کو نظریاتی ریاست کہنے سے اس طرح کی ذمہ داریاں ہم پر آ جاتی ہیں کہ ہمیں پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کو نظرانداز کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ ایک ایسی قوم جس کو اپنی بہبود و خوشحالی کی پرواہ ہی نہ ہو، جو ہر طرف نظریاتی لاٹھی چلا رہی ہو، وہ ترقی کیسے کر سکتی ہے؟
آج کے دور میں قومی مسائل کو غیر سائنسی و تقدیسی فارمولوں سے طے کرنے والی قوم کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟ ہم کتنی اونچی قوم ہیں اس کے لئے انسانی ترقی کے عالمی انڈیکس پر اپنا نمبر تلاش نہیں کرتے بلکہ ایمان یافتہ ہونا ہی کافی سمجھتے ہیں۔
کچھ سالوں پہلے تک عسکریت کو ریاستی سطح پر پروان چڑھایا جاتا رہا۔ جنونی جنگجو اور جہادی تنظیموں کو فروغ دیا گیا۔ گاؤں گاؤں، گلی گلی جوانوں کی لاشیں آتیں رہیں۔ جہادی مدرسوں اور کیمپوں تک ہر پاکستانی کو رسائی مسیر تھی۔ کوئی مارکیٹ ایسی نہ تھی جہاں ان کے لئے چندہ نہ اکٹھا کیا جاتا ہو۔ کسی نے نہ سوچا کہ پاکستان اس طرح تاریخ کے مہذب دائرے سے باہر ہوتا جا رہا ہے، جنگجو و مہم جو قوم کو دنیا پسند نہیں کیا کرتی۔ یہ دنیا معاشیات و سائنسی ترقی کی دنیا ہے جس میں ہمارا نمبر 0 ہے۔