Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Gila Kis Se Karna Hai?

Gila Kis Se Karna Hai?

گلہ کس سے کرنا ہے؟

برصغیر مذہب کے نام پر تقسیم ہوا اورمملکت پاکستان وجود میں آئی۔ بابائے قوم جناح صاحب نے اس ملک کے قیام سے قبل ہی امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے کہا تھا کہ نئی ریاست (پاکستان) کیمونسٹ روس کے خلاف امریکا کی فطری اتحادی ہوگی۔ اول دن سے ہی یہ مملکت سیکیورٹی سٹیٹ بن گئی۔ بعد ازاں بابائے قوم نے پھر سے امریکی صحافی کو انٹرویو دیتے یہی عزم دہرایا کہ لادین روس کے خلاف پاکستان امریکا کا اتحادی ہوگا۔ امریکا کو اس وقت پاکستان میں دلچسپی نہیں تھی۔ شاہ ایران خطے میں امریکا کی سب ضروریات پوری کر رہا تھا۔

بابائے قوم جناح صاحب نے آزادی کے بعد امریکا سے دو ارب ڈالرز قرض مانگے۔ امریکا نے مستقبل کو دیکھتے ہوئے صرف دس ملین ڈالرز دئیے یعنی ایک کروڑ ڈالرز۔ اس دور میں امریکا کا خیال تھا کہ یہ ریاست جو خود کو پیش کر رہی ہے اس کی اتنی سکت نہیں ہے۔ امریکی بھیک میں سے چھ ملین ڈالرز فوج لے اڑی۔ پہلے دن سے ہی اس ملک نے دو کام کر دئیے تھے۔ اول، خود کو سیکیورٹی سٹیٹ کے طور پر پیش کیا۔ دوم، کشکول اٹھا لیا۔

بھٹو صاحب کے آتے آتے ریاست نے ملائیت کو فروغ دے کر اسے توانا کر دیا ہوا تھا۔ مُلا راج نے بھٹو کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ بھٹو صاحب نے بھی اپنے سوشلسٹ نظریات کی بتی بنا کر سائیڈ پر رکھی اور ملا کے مقابلے میں مذہب کارڈ کھیلنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ ملا کو اسی کے حربے سے شکست دوں گا۔

پہلا نعرہ اس ملک میں قادیانی کافر کا گونجا۔ مگر پھر بھی بھٹو صاحب کو لٹھے میں لپیٹ کر گڑھی خدا بخش پہنچا دیا گیا۔ دوسرا نعرہ شعیہ کافر کا لگا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر کلمہ گو مسلمان دوسرے کلمہ گو کے ہاں کافر، مشرک، بدعتی ٹھہرایا گیا۔

اگر آپ پوچھیں کہ ریاست ان چھہتر سالوں میں کیا کرتی رہی؟ تو میں ہنس دوں گا۔ بتایا تو ہے پہلے دن سے جس کام پر لگی تھی اسی پر لگی رہی۔

مجھے اب یہ دیکھ کر دکھ نہیں ہوتا کہ بنام دین اس ملک میں کیا پھیلا ہے۔ مجھے بس وہ منظر دیکھ کر تکلیف ہوتی کہ اس ملک کا انجام کیا ہوگا اور میں یہی دعا مانگتا کہ اس ریاست کے کربناک انجام سے قبل مجھے دنیا سے اٹھا لینا۔ مجھے سمجھ نہیں آ پاتی کہ گلہ کس سے کرنا ہے؟ ریاست کے نمائندوں سے؟ ریاست کے بنانے والوں سے یا ریاست کے محافظوں سے۔

وہ ریاست جو اول دن سے سیکیورٹی سٹیٹ کے طور پر خود کو پیش کر چکی وہاں کیا نظام، کیا عوام اور کیا عوامی فلاح اور پھر عوام کی کیا بات کریں۔ صوبائیت و لسانیت میں تقسیم مختلف گروہوں کا ایک ہجوم ہے جو کبھی پاکستانیت میں ڈھل ہی نہ پایا۔ جب مذہب سے ریاست تک اور سیاست سے سماج تک سب کچھ اول دن سے گروی ہے تو وہاں لکھنا، پڑھنا اور سوچنا بھی مشقِ بیکار ہے۔ یہ ہماری نری دل کی بھڑاس ہوتی ہے جو گاہے گاہے سوشل میڈیا پر نکل آتی ہے۔

Check Also

Tufaili Paude, Yateem Keeray

By Javed Chaudhry