Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Gawadar

Gawadar

گوادر

آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ گوادر پاکستان کے اقتصادی مستقبل کی کنجی ہے۔ یہیں سے دودھ اور شہد کی وہ بل کھاتی نہر شروع ہوگی جو تین ہزار کلومیٹر سے زائد کا سفر طے کرکے چین میں غائب ہونے سے پہلے پاکستان کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے پسماندگی کے آنسو بھی پونچھ لے جائے گی۔ میں نے تو ایسا ہی سنا ہے۔

اسی لیے گوادر ہم سب کو عزیز ہے۔ اتنا عزیز کہ حفاظت کے لیے اسے ایک گیریژن ٹاؤن یعنی چھاونی میں بدل دیا گیا ہے۔ (جب ہاری کی بیٹی کا نکاح وڈیرے سے ہوجائے تو ہاری کی کٹیا کی حفاظت تو کرنا ہی پڑتی ہے)۔

گوادر جادوئی شہر ہے۔ پرویز مشرف دور کی کوسٹل ہائی وے نے بائیس گھنٹے کا سفر آٹھ گھنٹے کا کر دیا۔ چنانچہ گوادر تا کراچی آتے جاتے پہلے کی طرح بال سفید نہیں ہوتے۔ گوادر ابھرتے مستقبل کا شہر ہے۔ یہاں ڈگری کالج کی عمارت ہے مگر اس کے اندر آٹھ سے کم اساتذہ اور ساٹھ سے کم طلبا تعلیمیاتے پائے جاتے ہیں۔ ایک جدید اسپتال کی عمارت نئے گوادر میں سات برس سے مریضوں کی راہ تک رہی ہے، مریض ڈاکٹر کی راہ تک رہا ہے، ڈاکٹر خلاؤں کو تک رہا ہے۔

یہاں کوہ باطل پر ایک پنج ستارہ ہوٹل ہے۔ نام ہے پرل کانٹینینٹل۔ جی جی آپ ٹھیک سمجھے۔ پی سی ہوٹل۔ آپ ہوٹل کے لان میں کھڑے کھڑے چینی نژاد گوادر پورٹ، سبز پانی اور کچے پکے شہر کو قدموں میں رکھا دیکھ سکتے ہیں۔ خدا بخش کا مشہور گوادری حلوہ لینے کے لئے آپ کو کوہ باطل سے اترنے کی بھی ضرورت نہیں، وہ خود چل کر آپ تک پہنچ جائے گا۔ البتہ پہاڑی پر جانے کے لئے پہلی چیک پوسٹ پر شناختی کارڈ ضرور جمع کرانا پڑتا ہے۔

گوادر چونکہ اسٹرٹیجک نکاح کے بعد کسی کی اقتصادی غیرت ہوگیا ہے لہذا فالتو کے مہمانوں کو تاک جھانک کی اجازت نہیں اور غیر ملکیوں کو تو بالکل بھی نہیں (اگر وہ چینی نہیں) اور میڈیا کو تو قطعاً نہیں اور غیر ملکی میڈیا کا تو خیر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

ہمیں گوادر چاہیے اور ایک لاکھ گوادریوں کو پانی چاہیئے۔ کیا آپ نے کبھی ایسے شہر کا تذکرہ سنا جس کے تین طرف سمندر، اطراف میں کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے دو پلانٹ، پچاسی کلومیٹر پر ایک اور دو سو کلومیٹر پر دوسرا ڈیم ہو پھر بھی شہر پینے کے پانی کو ترسے اور میٹھا پانی بحریہ کے جہاز کراچی سے بھر بھر کے لائیں اور گوادری کہیں کہ اکنامک کاریڈور بے شک لے لو مگر پینے کا پانی دے دو۔

لگتا ہے نا یہ سب جھوٹ؟ بدقسمتی سے یہ ایک سچا جھوٹ ہے۔

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بلوچستان آج سے نہیں سدا سے خشک سالی کا شکار ہے۔ یہاں کوئی قابل ذکر دریا نہیں۔ جو بھی ہے بارانی ہے۔ کبھی جنم کرم میں بارش ہوجائے تو پہاڑی نالے زمین کاٹ کے رکھ دیتے ہیں اور اس سے پہلے کہ لوگ بارانی و سیلابی پانی جمع کرنے کے لیے دوڑیں پانی غائب ہو جاتا ہے۔ خطہ مکران میں کہنے کو چھ قابل ذکر پہاڑی نالے ہیں مگر بارش ہوجائے تو ان کا پانی بھی سمندر فورا ضبط کرلیتا ہے۔

جب گوادر 1958 تک سلطنتِ اومان کا حصہ تھا تو کم آبادی کا بھی کھارے پانی کے دو چار کنوؤں سے گزارہ ہو جاتا۔ 1972 میں حکومت پاکستان نے گوادر تا دریائے دشت ایک پائپ لائن بچھا دی۔ مگر دریا ہی خشک ہو تو پائپ لائن کیا کرے؟

اگر ہم گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے)کے نقشوں اور پریزنٹیشن پر یقین کرلیں تو حالات اتنے برے نہیں جتنے میں بیان کر رہا ہوں۔ وہ آپ کو بتائیں گے کہ 42 ہزار ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش والا سوار ڈیم اور 51 ہزار ایکڑ فٹ پانی کی گنجائش والا شادی کور ڈیم 2007 سے زیر تعمیر ہے۔ یہ دونوں ڈیم 2018 میں ہی مکمل ہو جاتے اگر یہاں کام کرنے والے مزدور قتل نہ ہوتے۔ اب انشااللہ یہ ڈیم جلد از جلد مکمل ہو جائیں گے (حتمی تاریخ اب بھی کہیں غائب ہے)۔

جی ڈی اے والے آپ کو یہ بھی بتائیں گے کہ ان کی گولڈن پام ڈی سیلینشن پلانٹ والوں سے پانی خریدنے کی بات چل رہی ہے۔ بس فی گیلن ریٹ طے ہو جائے اس کے بعد گوادر کو چار لاکھ گیلن پانی روزانہ ملنے لگے گا۔ اور ہمارا اپنا جی ڈی اے کا چھوٹا سا پلانٹ ایک لاکھ گیلن پانی روزانہ صاف کرسکتا ہے (اگر چلے تو)۔ بجلی کا بھی تو مسئلہ ہے۔ لمبی لوڈشیڈنگ ہو رہتی ہے۔

وہی واٹر ٹینکر جو کراچی میں ساڑھے سات ہزار روپے کا پڑتا ہے، گوادر میں انیس ہزار روپے میں باآسانی دستیاب ہے۔ جو افورڈ نہیں کرسکتے وہ سرکاری واٹر ٹینکر یا پاک بحریہ کے جہاز کا انتظار کرتے ہیں۔ جو بہت جلدی میں ہیں وہ برتن لے کر پانی کی تلاش میں میلوں نکل پڑتے ہیں اور جنہیں بالکل صبر نہیں وہ سمندر سے پانی کا دیگچہ بھر کے ابال لیتے ہیں۔ اس آبی پس منظر میں جب چیک پوسٹ پر کھڑا جوان منرل واٹر چسکتے ہوئے کاغذات چیک کرتا ہے تو خشک لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے بس مزہ ہی تو آ جاتا ہے۔

پاکستان میں ہر جگہ آبادی بڑھ رہی ہے مگر گوادر کی آبادی کم ہو رہی ہے۔ اس شہر سے واٹر مائیگریشن ہو رہی ہے۔ تربت، کوئٹہ، کراچی، اومان جس کے جہاں سینگ سمائیں۔ یہ شہر باقی پاکستان کو سونے کی چڑیا بنا دے گا مگر مقامی بلدیہ کے پاس گلیوں سے کوڑا اٹھوانے کی مالی سکت بھی نہیں۔ جب ایک دن سب گوادری چلے جائیں گے تب یہ شہر بس جائے گا۔ جب جب یہاں آتا ہوں کوہِ باطل پر کھڑے قدموں میں پڑے گوادر شہر کا نظارہ کرتے مجھے جون مرحوم ہمیشہ یاد آتے ہیں۔

اے خداوند جہاں افسوس تُو
اے خداوند جہاں افسوس میں

اے زمین و آسماں افسوس تم
اے زمین و آسماں افسوس میں

Check Also

Batti On Karen

By Arif Anis Malik