Farq Itna He To Parta Hai
فرق اتنا ہی تو پڑا ہے
فرق اتنا ہی تو پڑا ہے کہ آج کا آرمی چیف نون لیگ کا فیض حمید ہے۔ قاضی نون لیگ کا بندیال و ثاقب نثار ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نون لیگ کا جسٹس جاوید ہے۔ اس کے سوا اس ملک و ملت کو رتی برابر بھی فرق پڑا ہو تو بتائیے۔
مہنگائی تین سال پہلے کم تھی، چھ سال پہلے اس سے بھی کم، دس سال پہلے کئی گنا کم اور مشرف کا دور تو سونے کا دور تھا۔ ہر گزرتے دور کے ساتھ مہنگائی اور افراط زر بڑھا ہے، لہذا یہ ملک و ملت کے بگاڑ کا معیار تو ہو سکتا ہے سنورنے کا نہیں۔
آپ فرض کر لیں کہ آج فیض حمید چیف ہوتے۔ فائز عیسیٰ سپریم جوڈیشل کونسل سے فارغ ہو گئے ہوتے اور جسٹس اعجاز الاحسن موجودہ چیف جسٹس بن گئے ہوتے۔ عمران خان صاحب وزیراعظم ہوتے تو ملک کا کیا سنور رہا ہوتا؟ بھئی یہ تحریک عدم اعتماد کے شوشے سے قبل تلک عمرانی حکومت کو گالیاں ہی دے رہی تھی ناں عوام۔ یہ اپنی موت آپ مر رہے تھے۔ وہ تو جنرل باجوہ کو دعا دیں۔ جس نے مردے میں نئی روح پھونک دی۔
کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ٹیبل ٹرن ہوا ہے۔ چہرے بدلے ہیں۔ نظام نہیں۔ وہی چل رہا ہے۔ لڑائی تو یہ ہے کہ اپنے من پسند چہرے واپس چاہئیے۔ وہ آ گئے تو کیا ہو جانا؟ اور وہ نہ آئے تو کیا بگڑ جانا؟ بھئی نظام تو وہی ہے اور وہی رہے گا۔ عمران خان صاحب کی ضد تھی جنرل فیض۔ نواز شریف کی زد تھی حافظ صاحب۔ یہ انا و ضد کی جنگ ہی تو ایک جیتا اور ایک ہارا ہے کوئی آپ کی اور میری یا عوام کی جنگ تو نہیں لڑی جا رہی تھی۔ جو کچھ آج پاکستان اور عوام بھگت رہی یہ تو بڑوں کا آپسی پرسنیلٹی کلیش تھا۔ یہ کوئی حق و باطل و آئین و قانون کی جنگ تھوڑی تھی۔
جب تک سیاستدانوں سمیت سارا نظام ڈھا کے نیا تعمیر نہیں کیا جائے گا، اس ناکارہ نظام سے کچھ نہیں بدلنے والا۔ وہی مائی باپ ہوں گے۔ وہی اینٹوں پر دھری لڑکھڑاتی کرسی پر بیٹھا وزیراعظم وہی ایک کال پر فیصلہ دیتی عدلیہ اور وہی بابو کریسی جو ایک کال پر گھنگھرو پہن کر کتھک ناچ ناچنے لگتی ہے۔
کسی عمران خان یا کسی پھنے خان کے بس کا ہی نہیں۔ نہ نواز شریف یا زرداری کے بس کا ہے۔ یہ سب چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ سسٹم موڈیفکیشن نہیں مکمل تبدیلی کا متقاضی ہے۔ کمشنری نظام، پولیس و کچہری کلچر، نچلی عدالتوں تا اوپر تک، حلقہ بندی کی سیاست، بدمعاشی کلچر، آئین و قانون میں بڑی تبدیلیاں، بیورو کریسی کے اختیارات کا متوازن نظام، سول بالادستی سمیت اس قوم کی ذہنی و جسمانی تربیت میں بھی بڑی اور فوری تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ وہ ہونے کا نہیں نہ ہی کوئی سوچ ہے نہ کوئی تحریک۔ ہر جماعت اسی نظام میں حصہ لینے کو بیتاب ہے۔
آپ مجھے صرف یہ بتا دیں کہ کس جماعت یا تیس مار خان کے پاس اصلاحی و انقلابی منشور و مسائل کا حل ہے؟ کون سی جماعت اس نظام کو بدلنا چاہتی ہے؟ کون پھنے خان ایسا ہے جو یہ مردہ ڈھانچہ گرانے کا عزم رکھتا ہے؟ آپ کسی دن فرصت سے اکیلے بیٹھ کر اپنے دل سے صرف یہی سوال پوچھ لیں کہ کرسی پر اپنا پسندیدہ چہرہ کیا ہمارے مسائل کا حل ہے؟ پانچ نہیں دس سال میں بھی کوئی حل کسی کے پاس ہے؟ کیا اس ملک میں سول بالادستی و اختیارات منتقلی کی جنگ کوئی لڑ رہا ہے؟ کیا سب ہی گیٹ نمبر چار سے رحم کی بھیک نہیں مانگتے؟
بھائیو، بات صرف آپ کی پسند ناپسند کی ہے اور بس۔ آپ اپنی پسند پانے کو لڑ رہے ہیں۔ آپ میں سے جو بھی اپنی پسند یا خواہش کو پا لے گا اسے اپنی انا کی جیت سمجھے گا اور پھر کچھ عرصہ بعد اسے ہی کوسنے لگے گا۔ کیونکہ نظام تو بدلنا نہیں۔ اختیار تو ملنا نہیں۔ بس کرسی پر چہرہ بدلنا ہے وہ بھی پرانا ہی واپس ملے گا۔ اس کرسی کی جنگ جو اینٹوں پر دھری ہے۔ آپ کے کاندھوں پہ لڑی جاتی ہے اور آپ اسی میں سرمست و رقصاں عمر بِتا دیتے ہیں کہ آپ کی جیت ہوگی۔
جیت ہے تو صرف اس نظام کے حصہ داروں کی۔ توشہ خانے لوٹنے والوں کی۔ لندن فلیٹس والوں کی۔ سرے محل کی۔ اور ان کی جو پُتر ہٹاں تے نئیں وکدے۔ یہ آپ کا نظام ہی نہیں۔ یہ آپ کی جنگ ہی نہیں اور یہ آپ کی فلاح ہی نہیں۔ مگر آپ کو بھی تو چین نہیں مل سکتا اس لئے کیری آن۔
میرے دوستو، اس ملک کے نظام سے میرا کچھ وابستہ نہیں۔ مہنگائی مجھے نہیں مارتی۔ سرکاری نوکری میری نہیں جس کے لالچ میں اس نظام کو سپورٹ کروں۔ الیکشن میں نے نہیں لڑنا۔ گدی نشین میں نہیں۔ الغرض یہ ملک خدانخواستہ ڈوبے یا مکمل انارکی کا شکار ہو جائے مجھے فرق نہیں پڑنے والا۔ میرے لیے راہیں کھُلی ہیں۔ ہاں میں بس لکھ کر حقیقت بتا سکتا ہوں۔ میں آپ کو سوچ و بچار پر مجبور کرنے کو ورق کالے کر سکتا ہوں۔ اپنی جانب سے آپ سب میرے قارئین اور یہاں بستے دوستوں کو کہتا رہتا ہوں کہ اپنی من پسند جماعت، اپنے پسند لیڈر اور اپنے من پسند مذہبی راہنما کا خود احتساب کرو اور ان پر خود دباؤ ڈالو کہ وہ اپنی چھوڑ آپ کا بھی کچھ سوچ لیں۔
میرا یہ دعویٰ نہیں کہ عقل کُل ہوں البتہ ایک عاقل انسان کسی کے طور سبھاؤ و کردار سے کچھ خاکہ بنا ہی لیتا ہے۔ تین ہی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جن کی گراؤنڈ پر موجودگی ہر صوبے میں ہے۔ ان تینوں کے لیڈران بارے میری ذاتی رائے ہے۔ آپ بیشک اختلاف کریں مگر یہ یاد رکھئیے گا کہ میں نے کہا تھا۔
عمران خان دوسری بار چھوڑ تیسری بار بھی آ جائیں تو ان کا مزاج بدلہ لینے والا ہے۔ ساڑھے تین سالہ حکومت بدلے کی نذر کر دی۔ کنٹینر سے اُتر ہی نہیں پائے۔ ہر تقریر میں بدلہ۔ ہر فورم پر بدلہ۔ ہر انٹرویو میں چور ڈکیت کی گردان۔ خود مانے کہ مجھے تو میری بیگم کہتی ہے اب آپ وزیراعظم ہیں۔ ڈیزل، چیری بلوسم، زرادری بیماری، وغیرہ وغیرہ سے بھرپور دور گزار دیا۔ اے سی اترواؤں گا۔ ان کو رلاؤں گا۔ چہرے پر ہاتھ پھیر کر بدلے کے اشارے کرتے رہے اور اسی کشمکش میں مہلت تمام ہوگئی۔ نتیجہً اوئے توئے کی سیاست نے ایسی نسل تیار کر دی جو اب کلام کا آغاز ہی اوئے سے کرتی ہے اور گالی پر تمام کرتی ہے۔
نواز شریف چوتھی بار چھوڑ پانچویں بار بھی آ جائیں تو ان کا مزاج کھابہ مزاج ہے۔ وہ کھائیں پئیں گے۔ فلیٹس بنائیں گے۔ خزانے پر کارروائیاں ڈالیں گے۔ اپنے کاروبار کے واسطے سپیشل ریوینیو آرڈرز نکالیں گے۔ سارا خاندان اہم عہدوں پر تعینات کریں گے اور پھر مزید طاقت حاصل کرنے کی چاہ میں جرنیل کے ساتھ سینگ پھنسا لیں گے۔
زرداری دوسری چھوڑ تیسری بار بھی صدر بن جائیں تو وہ ایک مافیا کی طرح ہی آپریٹ کریں گے۔ جج تا جرنیل تا اپوزیشن سب کو ساتھ ملا کر کھانا۔ ان پر احسان بھی جتانا اور ان کو ان کا حصہ بقدر جثہ بھی دینا۔
یہ فطرت ہے اور فطرت نہیں بدلا کرتی۔ اس سے ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ سب ذاتی کلیش، ذاتی پراجیکشن اور ذاتی مفاد کا دھندا ہے۔۔
یہ تُو تُو میں میں کی سیاست، یہ ماں بہن کی گالیاں، یہ ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ، یہ انتخابی عمل اور اس کے نتیجے میں کھڑا نظام سب لاحاصل مشق ہیں۔ حقیقیت پسندی کو اپناؤ، آنکھیں کھولو، رومانس سے باہر آؤ۔ اگر یہ جماعتیں و لیڈران حل نہیں دے سکتے تو ان کے واسطے مرو بھی ناں لڑو بھی ناں۔ اپنے جذبات و خواہشات پر پانی ڈالو۔ ان کو مجبور کرو کہ یہ سسٹم کو بدلنے کی جانب راغب ہوں۔ اور یہ سب سوشل میڈیا کی طاقت و ترغیب سے ہی ہو سکتا ہے مگر تب جب قوم قوم تو بنے۔ اس کو احساس تو ہو کہ وہ صرف نظام کے حصہ داروں کا خام مال بنے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
تیونس کے چھوٹے سے شہر میں دسمبر 2010 کو کسی پولیس والے نے پھل فروش محمد بوعزیزی سے رشوت مانگی۔ بوعزیزی نے انکار کر دیا، پولیس والے نے اسے تھپڑ مارے۔ مرے ہوئے باپ کی گالی دی اور ٹھیلہ ضبط کرکے چالان کاٹ دیا۔ بوعزیزی نے بلدیہ کے دفتر میں شکایت کے واسطے کسی افسر سے ملنے کی کوشش کی۔ نہیں ملنے دیا گیا۔ بوعزیزی نے اسی دفتر کے سامنے خود کو آگ لگا لی۔ پھر ٹوئٹر کی دو چار ٹویٹس سے چنگاڑی بھڑکنے لگی اور پھر ٹوئٹری آگ نے وہ الاؤ روشن کر دیا، جسے دنیا عرب سپرنگ کے نام سے جانتی ہے۔ اٹھارہ روز بعد بوعزیزی اسپتال میں جلے ہوئے زخموں کی تاب نہ لا سکا۔ اور پھر تیونس، مصر، لیبیا کی حکومتیں ڈھے گئیں۔ اردن اور بحرین میں بادشاہت کا پایہ لڑکھڑا گیا۔
مدعا عرب سپرنگ نہیں نہ وہاں آنے والی تبدیلیاں ہیں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ سوشل میڈیا کی طاقت سے تحریکیں اُبھر سکتیں ہیں اور تبدیلیاں لا سکتیں ہیں۔ یہاں نظام میں تبدیلی کی خواہش واسطے عوامی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔